لاہور : جامعہ نور البنات تعلیم القرآن لاہورکی مرکزی ناظمہ اور اُمید ویلفیئر ٹرسٹ شعبہ خواتین کی چیئر پرسن اُمِ ہادی نے کہا ہے کہ ہمارے اس نا ہموار معاشرہ میں عورتوں کی فلاح بہبود کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدا مات نہیں کیے گئے حالانکہ مو جودہ حکومت کے عہد میں بھی خواتین خود سوزیوں اور خودکشیوں پر مجبور ہیں اگر قا نون سازی کا جائزہ لیا جائے تو 1961ء کے فیملی لاء ، حدود آرڈیننس 1979ء ، جہیز ایکٹ 1979ء اور قانون ِ شہادت 1984کے علاوہ کہیں بھی خواتین کے حوالے سے قانون سازی نظر نہیں آتی ، جبکہ تقسیم ہند سے پہلے 1935ء میں بھارتی مسلم خواتین کے لیے مسلم فیملی لاز کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس کی رو سے اسے اسلامی شریعت کے مطابق وراثتی حق دیا گیا۔
گارڈین وارڈ ایکٹ 1940ء چائلڈ میرج ریسٹرنیٹ ایکٹ 1929ء ، ریزو لیشن مسلم میرج ایکٹ 1939ء بنائے گئے ، 1983ء میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے پہلی بار چھٹے پانچ سالہ منصوبہ میں خواتین ڈویلپمنٹ کے امور کو شامل کیا ، 1989ء میں معاشرہ میں خواتین کے لیے جائز مقام کا تعین کر نے کے لیے سپریم کور ٹ کے ججوں کی سر براہی میں پہلا وومن انکوائری کمیشن بنایا گیا جس نے اپنی سفارشات 1997 ء میں پیش کیں جن پر بد قسمتی سے عمل در آمدنہیں ہو سکا ،ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز اعوان ٹائون میں منعقدہ ایک مقامی شادی ہال میں چادر زہرہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا کانفرنس میں سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کی طالبات سمیت ہزاروں گھریلو خواتین نے بھر پور شرکت کی انہوں نے مزید کہا کہ پرویزمشرف کے دور میں کونسلر اور سینٹ و قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں 40ہزار خواتین کی تعداد موجود تھی اور آج بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے لیکن خواتین کے مسائل جوںکے توں ہیں عورت کو مسائل کی بھٹی سے نکال کر امن اور خوشحالی کی راہ پر نہیں ڈالا گیا۔
قیام ِ پاکستان کے فوراََ بعد قا ئد اعظم نے بیگم سلمیٰ تصدق کو اقوام متحدہ بھجوانے کا فیصلہ کیا اور ان کو روانہ کرنے سے قبل فر مایا کہ” وہاں تم سے لوگ پوچھیں گے کہ آزاد اسلامی مملکت میں خواتین کو کیا ملے گا ؟ تو انہیں بتا نا کہ They will get the best of every thing انہیں ہر چیز میں سے بہتر چیز ملے گی” عہد حاضر کے جاگیر دار ، زردار ، سر مایہ دار تمن دار عورت کی تذلیل کرنا فخر سمجھتے ہیں قومی اور صو بائی اسمبلیوں میں زیادہ تر خواتین کا تعلق فیوڈل لابی سے ہے جو خواتین کو بنیادی حقوق دینے کے حق میں نہیں ، ممی ڈیڈی، فارن پیڈ و فارن فنڈڈ این جی اوز کی چھتر چھائوں تلے پرورش پانے والی یہ بیگمات محض اپنا ”بھاڑا ” کھرا کرنے کے لیے تگ و دو کرتی رہتی ہیں۔