کراچی (جیوڈیسک) پاکستان میں یہ مسلسل تیسری بار ہو رہا ہے کہ الیکشن جیتنے والوں کو سب سے پہلے معاشی مشکل کا حل تلاش کرنا پڑ رہا ہے۔
سابقہ دور میں معاشی نمو مشرف دور کے بعد بلند ترین رہی لیکن اس کے باوجود حکومت گئی ہے تو خزانے میں زرمبادلہ کم ہے۔
پاکستانی معیشت ترقی کے لئے درآمدات پر انحصار کرتی ہے، درآمدات کے لیے ڈالرز چاہیے، جو آجکل کم ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار میں آئی تھی تو لگ بھگ یہی صورتحال تھی اور اس سے پہلے پیپلز پارٹی دور میں تو اسحاق ڈار نے خزانہ خالی ہے کی آواز لگائی تھی۔
ملک میں نئے دور حکومت کا آغاز ہے اور پی ٹی آئی حکومت کو بھی سب سے پہلے بیرونی ادائیگیوں کا انتظام کرنا ہے۔
صورتحال پر ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا تبصرہ ہے کہ بیرونی ادائیگیوں کی صورتحال بڑا چیلنج ہے، معاشی نمو کی رفتار سست کرنا ہوگی اور آئی ایم ایف پروگرام میں جانا ہوگا۔
آئی ایم ایف کا اندازہ ہے کہ مالی سال 2019 میں پاکستان کو بیرونی فنانسنگ کی مد میں 27 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی، 50 ارب ڈالر کی برآمدات ہوں تو یہ مسئلہ حل ہو جائے، دوسرا حل درآمدات کم کرنے میں ہے جس پر آج کل عمل ہو رہا ہے۔
لیکن درآمدات روکنا ترقی کی رفتار کو بریک لگانے کی طرح ہے، معاشی ترقی کی رفتار کم ہوئی تو روزگار کی فراہمی مشکل ہو گی، پائیدار معاشی ترقی کے لیے معیشت کی ساکھ میں بیٹھی اس خرابی کو دور کرنا اصل میں بڑا چیلنج ہے۔
نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا خیال ہے کہ مقامی وسائل سے معاشی ترقی ہو تو پائیدار ہو گی۔
پی ٹی آئی نے 50 لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا ہے، عملدرآمد ہو تو معاشی ترقی کو مقامی وسائل پر بڑی حد تک منتقل کیا جا سکتا ہے لیکن اعلان سابقہ دور حکومت میں بھی تھا۔
گزشتہ حکومت کو 5 لاکھ گھر بنانے تھے جو نہیں بنے کیونکہ ہاوسنگ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ کام مشکل ہے لیکن مقابلہ اسدعمر سے ہے۔ امیدیں اس لیے بھی اچھی ہیں کہ بندہ قابل اور اس کی ساکھ اچھی ہے۔