تحریر : نسیم الحق زاہدی سنگاپور کے پہلے بانی ووزیر اعظم ”لی کو ان پو”کہتا ہے کہ ”جب تم کسی شہر میں چوروں کو حکمران بنتا دیکھو تو اسکی دو وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو اس ملک کا سسٹم کرپٹ ہے یا وہاں کی عوام بے شعور”بر طانیہ کے لارڈ Michael Batesہائوس آف لارڈزمیں لیٹ آئے جسکی وجہ سے وہ ایک اہم سوال کا جواب نہ دے سکے ،کھڑے ہو کر پہلے انتہائی شرمساری سے معافی مانگی اور پھر استعفیٰ دے کر نکل گئے پورا ہال نو نو کی آوازوں سے گونج اٹھا۔مولانا عبید اللہ سندھی فرماتے ہیں غلام قوم کے معیار بھی عجیب ہوتے ہیں شریف کو بے وقوف ،مکار کو چالاک ،قاتل کو بہادر اور مالدار کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں۔ ”وولیٹر ” کہتا ہے کہ احمقوں کو انکی زنجیروں سے آزاد کروانا بہت مشکل ہے جنکا وہ خود احترام کرتے ہیں۔
جوزف اسٹالن ایک دفعہ اپنے ساتھ پارلیمنٹ میں ایک مرغا لے کر آیا اور سب کے سامنے اس کا ایک ایک پر نوچنے لگا ،مرغا درد سے بلبلا تا رہا مگر ایک ایک کر کے اسٹالن نے اس کے سارے پر نوچ دئیے پھر مرغے کو فرش پر پھینک دیا اور پھر جیب سے کچھ دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دئیے اور چلنے لگا ،تو مرغا دانہ کھاتا ہوا اسٹالن کے پیچھے چلنے لگا ،اسٹالن برابر دانہ پھینکتا گیا اور مرغا منہ میں دانہ ڈالتا ہوا برابر اس کے پیچھے چلتا رہا آخر کار وہ مرغا اسٹالن کے پیروں میں آکھڑا ہوا اسٹالن نے اپنے کامریڈزکی طرف دیکھا اور اس کے بعد ایک تاریخی فقرہ بولا:”جمہوری سرمایہ دارانہ ریاستوں کی عوام اس مرغے کی طرح ہوتی ہے ان کے حکمران عوام کا پہلے سب کچھ لوٹ کر انہیں اپاہج کر دیتے ہیں اور بعد میں معمولی سی خوراک دیکر خود انکا مسیحا بن جاتے ہیں”پاکستان اس وقت حالت جنگ سے دورچار ہے پاکستان کا سابق وزیر اعظم نواز شریف جوکہ کرپشن،بدعنوانی اورعدالت سے جھوٹ بولنے کی وجہ سے نااہل ہوئے ہیں آج کل وہ اور انکی بیٹی مریم نواز عوام کے اندر عدلیہ اور افواج پاک سے نفرت کا بیج بو ر ہے ہیں جس کی زندہ مثالیں انکی اور انکے وزاء اور جیالوں کے جاہلانہ، جارحانہ رویے اور تقاریرز ہیں”ایڈولف ہٹلر ”کہتا ہے کسی بھی قوم پہ کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنادو کہ وہ اپنے ہی محافظوں اپنا دشمن سمجھنے لگے”سابق وزیر اعظم نواز شریف کو جامعہ نعیمہ میں جوتا پڑے والا واقعہ واقع ہی قابل مذمت ہے کیونکہ وہ اشرافیہ ہیں صاحب عزت وتکریم ہیں انکو جوتا مارنا’ناقابل معافی گناہ ہے۔
بیس کڑور عوام کئی سالوں سے جوتے کھارہی ہے ‘عوام کو ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں یہ تو صرف ایک جوتی تھی ماڈل ٹائون میں مظلوم بے گناہ خواتین’بوڑھوں ‘بچوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا تھا ‘انکی کوئی عزت وتکریم نہیں تھی ؟جوتا پڑنے کے بعد مریم نواز کے یہ الفاظ ”جب میرے والد پر جوتا پھینکا گیا تو مجھے بڑا صدمہ ہوا مگر پھر میرا ذہن رسول پاکۖ پر کی جانے والی سختیوں اور ذیادتیوں کی طرف گیا جن پر حضرت فاطمہ دکھی ہوا کرتی تھیں اور آج میں اپنے والد کے لئے حضرت فاطمہ کا کرادر ادا کر رہی ہوں ”پاکستان کے اندر یہ رسم عام ہوچکی ہے جو چور،ڈاکو ،فاسق ،فاجر اٹھتا ہے خود کو نبی رحمتۖ،حضرت علی اور باقی مقدس ہستیوں کے ساتھ ملالیتا ہے جن کی مقدس خاک پا جیسا بھی دنیا میں کوئی دوسرا نہیں ۔ جتنی بھی بدنام زمانہ فحاشہ ،بدکارہ ہیں وہ خود کو حضرت فاطمہ کے ساتھ تشبیح دینے لگ جاتیں ہیں ۔ایک خاتون نے سستی شہرت اور چند ٹکوں کے لیے آج کے ایک کرپٹ انسان کو دور حاضر کا عمرفاروق قرار دیدیا یہ توہین رسالت مآبۖ اور توہین صحابہ نہیں تو اور کیا ہے ۔کہ کائنات کی وہ عظیم المرتبت ہستیاں ،گناہوں سے پاک کہ جن سے گناہ ہو ہی نہیں سکتا جن کی پوری زندگی پوری دینا ،انسانیت کے لیے بہترین نمونہ اور مثال ہیں جو مسیحا کائنات تھے جن پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے مگر انہوں نے کبھی کسی دشمن کو بھی بددعا نہیں دی تھی۔
مریم نواز تم اس آقا رحمتۖ کے ساتھ اپنے اس باپ کوملا رہی ہو جس کے جھوٹ ثابت ہونے پر اسے پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے ناہل قرار دیا ۔جھوٹ بولنے والا مومن نہیں ہوتا اور یہ مسلمان کا شیوہ نہیں ۔اسلام میں حاکم کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے ہر چیز کھول کر بیان کردی گئی قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے سورة الحج ،آیت نمبر 41”وہ لوگ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوةدیں برے کاموں سے روکیں اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھوں میں ہے”مریم صفدر کیا آپ کے والد کے اندر یہ صفات موجود ہیں ؟اب اکثر نا عاقبت اندیش افراد یہ سوال کریں گے یہ صفات تو کسی بھی سیاسی لیڈر میں جو اقتدار کا خواہشمند ہے میں نہیں تو ایسے افراد کے لیے جواب کہ یہ ہے کہ انجام بھی سب کا سامنے ہے ۔سلطان غیاث الدین تغلق کا بادشاہ تھا ایک تیر اندازی کی مشق جس میںخود سلطان غیاث الدین بھی شریک تھا ،اچانک سلطان کا نشانہ خطا ہوا اور وہ تیر بیوہ عورت کے بچے کو جا لگا جس سے اس کی موت ہوگئی ۔سلطان کو علم نہ ہوسکاوہ عورت روتے ہوئے قاضی سلطان کی عدالت میں پہنچی۔
قاضی سراج الدین نے عورت سے رونے کی وجہ پوچھی عورت نے بتایا کہ سلطان کے تیر سے اس کے بچے کی ہلاکت ہوگئی ہے ۔قاضی سراج الدین نے عورت کی پوری بات توجہ سے سنی اور پھر اسی وقت سلطان کے نام ایک خط لکھا:آپ کے خلاف شکایت آئی ہے فوراًعدالت میں حاضر ہو جائیں اور اپنے خلاف آنے والی شکایت کا جواب دیں ،عدالتی پیادے کوحکم دیا کہ یہ حکم نامہ سلطان کے پاس لے جائو،پیادے کو یہ حکم دیکر روانہ کرتے قاضی سراج الدین نے ایک کوڑا نکالا اور اپنی گدی کے نیچے چھپا دیا ۔پیادہ جب سلطان کے محل میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ سلطان کو درباریوں نے گھیر رکھا ہے اور سلطان تک پہنچنا مشکل ہے تو پیادہ نے اونچی آواز میں اذان دینا شروع کردی ۔بے وقت اذان سن کر سلطان غیاث الدین نے فوری آذان دینے والے کو سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ،پیادے نے قاضی کا حکم نامہ سلطان کو دیتے ہوئے کہا کہ قاضی سراج الدین نے آپ کو عدالت میں طلب کیا ہے آپ کو فوراًمیرے ساتھ چلنا ہوگا ۔سلطان فوراًاٹھا ایک چھوٹی سی تلوار اپنی آستین میں چھپالی عدالت پہنچا۔قاضی سراج الدین نے مقتول کی ماں اور سلطان کے بیان باری باری سنے پھر فیصلہ سنایا غلطی سے ہوجانے والے قتل کی وجہ سے سلطان پر کفارہ اور اسکی برادری پر خون کی دیت آئے گی۔
ہاں مقتول کی ماں اگر مال کی کچھ مقدار پر راضی ہوجائے تو سلطان کو چھوڑا جاسکتا ہے ۔سلطان نے لڑکے کی ماں کو بہت سے مال پر راضی کرلیا،قاضی کو بتایا کہ عورت کو راضی کرلیا ہے ۔قاضی نے عورت سے پوچھا کہ کیا آپ راضی ہوگئیں ہیں تو اس پر عورت نے ہاں میں جواب دیا تو قاضی سراج الدین اپنی جگہ سے سلطان کی تعظیم کے لیے اٹھے اور انہیں اپنی جگہ پر بیٹھا دیا ۔سلطان نے بغل سے تلوار نکال کر قاضی کو دیکھاتے ہوئے کہ اگر آپ میری ذرا سی رعایت کرتے تو میں اس تلوار سے آپکی گردن اڑادیتا ۔قاضی سراج الدین نے بھی اپنی گدی کے نیچے سے کوڑا نکال کر سلطان غیاث الدین کو دیکھاتے ہوئے کہا اور اگر آپ شریعت کا حکم ماننے سے ذرا بھی ہچکچاتے تو میں اس کوڑے سے آپ کی خبر لیتا ۔بے شک یہ ہم دونوں کا امتحان تھا۔سابق وزیر اعظم کوپہلی بار صدر غلام اسحاق خان نے ہٹایا تو صدر غلط دوسری بار آرمی چیف نے ہٹایا تو آرمی چیف غلط تیسری بار عدالت نے جرم ثابت ہونے پر نااہل قرار دیا تو عدلیہ غلط عوام کی عدالت کا فیصلہ چاہا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر ایک کی طبیعت کے موافق نہیں میں کڑوا ضرور ہوں لیکن منافق نہیں میں۔۔۔۔۔