اللہ کریم جل شانہ کی بے پناہ حمد وثناء ذات وجہ تخلیق کائنات جناب محمد رسول اللہ ۖپر درودوسلام کے نذرانے پیش کرنے کے بعد راقم نے زیر نظر چند سطور ایک مشاہدہ کے بعد ترتیب دی ہیں جو من و عن نظر قارئین کرام ہیں قارئین کی آراء کا انتظار رہیگا قارئین کرام یہ اس دن کی بات ہے جب لاہور کے گورنر ہائوس کے دروازے عوام کے لیے کھولے گئے ایک نجی ٹی وی چینل کی نیوز کاسٹر ہیڈ لائنز کو گلا پھاڑ پھاڑ کے پڑھ رہی تھی کہ گورنر ہائوس کے دروزاے عوام الناس کے لیے کھول دیے گئے ہیں بیگم چوہدری محمد سرور گورنر پنجاب نے عوام کو میں گیٹ پر خوش آمد ید کہا لاہوریوں کی ایک بڑی تعداد گورنر ہائوس کی سیر کرنے امڈ آئی میں ایک ڈیپاٹمنٹل سٹور پر کھڑا کچھ سودا سلف لے رہا تھا میرے شہر کے دور افتادہ گائوں سے ایک بزرگ آئے اور جیب سے ایک پرچی جس پر گھر کے سودا سلف کی فہرست تھی اور ساتھ ہی کچھ رقم کائونٹر پر کھڑے سیلز مین کے حوالہ کی بزرگ اس سٹور کے پرانے گاہکوں میں شامل تھے۔
دوکاندار نے پرچی پر درج سامان کی لسٹ بنائی بل بنا کر بزرگوں کی رقم گنی اور مطالبہ کیا کہ تین ہزار روپے اور دیں تو بزرگ نے کہا کہ بیٹا پچھلے ماہ تو یہی سامان میں اتنے ہی رقم میں لے کر گیا ہوں دوکاندار نے بتایا کہ بابا جی گھی چینی اور دیگر اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں اسی اثناء میں بزرگ نے ٹی وی کی خبر سنی اور لاہوریوں کو گورنر ہائوس جاتے دیکھ کر زیر لب مسکرائے میں نے مسکرانے کی وجہ پو چھی تو بابا جی نے لاہوریوں کو گائے قرار دیتے ہوئے مجھ سے تفصیلی بات کی بزرگ 1967 کے گریجو ایٹ اور پاکستان ریلوے کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائرڈ ملازم تھے ان سے جو بات ہوئی انہیں اپنے الفاظ میں لکھ کر آپکی نظر کرتا ہوں ارض پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجہ میں بر سر اقتدار آنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں تبدیلی کے جو دعوے اور وعدے کیے عوام نے ان پر آنکھ بند کرکے یقین کر لیا اور دو بڑی سیاسی جماعتوں کو رد کرکے اس پارٹی کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرلیا سابقہ ادوار میں مقتدر طبقہ جو ایک دوسرے کے ساتھ حاجی حاجی صاحب کا معائدہ مواخات مری المشہور میثاق جمہوریت لکھ کر باری باری فیلڈنگ اور بیٹنگ کر چکا تھا ان دونوں پارٹیوں کے سیاسی باووں کو عوام سے ایسی اوچھی حرکت کی توقع ہی نہ تھی کہ وہ ایک تیسرے شخص کو وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچا دینگے کسی نے عمران خان کو سوشل میڈیا وار کرکے فیس بک کا وزیر اعظم کہا تو کسی نے انہیں کھلنڈرے پن کا طعنہ دیا مگر انکا یہی میڈیا وار خان صاحب کو وزیر اعظم کے عہدے تک رسائی میں معاون ثابت ہوا۔
اس سے پہلے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو جو انقلابی لیڈر کہلاتے تھے حقیقت میں فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان کی گود میں پرورش پائی انہیں ڈیڈی کہنے والے بھٹو صاحب نے اندر ہی اندر اپنے ڈیڈی کے خلاف بغاوت کرکے انکے اقتدار کا تخت تختہ میں تبدیل کرنا چاہا مگر جنرل صاحب زہرک آدمی تھے تختہ سے بچ گئے اور عزت کے ساتھ اقتدار سے الگ ہوگئے بھٹو صاحب نے بھولی بھالی عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ دیا اور بر سر اقتدار آگئے وزیر خارجہ سے وزیر اعظم بن کر اقتدار کے مزے لوٹنے والے بھٹو نے عوام کو تو روٹی کپڑا دیا یا نہیں یہ ایک الگ داستان ہے مگر انہیں اقتدار کا نشہ ایسا ہوا کہ دوسری بار وزارت عظمیٰ کے لیے انہوں نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا اور پھر خود پھانسی گھاٹ تک جا پہنچے اور ان کا کرسی سے پھانسی گھاٹ کا سفر انہی کے چہیتے جرنیل مرد مومن ضیاء الحق کی وجہ سے آسان ہوا جو بعد میں خود ملک کے اگزیکٹو بن بیٹھے اور جیتے جی اقتدار کی کرسی سے الگ نہ ہوئے مرد مومن نے اپنے دور میں کچھ اچھے کام بھی کیے جیسے میڈیا پر اذان مساجد میں نمازیوں کی حاضری وغیرہ کے ساتھ ساتھ دو تین اسلامی حدود کا آرڈینینس نافذ کیا مگر عوام کے گلے میں کچھ وہ عذاب ڈال گئے جنکا خمیازہ ہم بھی بھگت چکے ہماری نسلیں بھی بھگتیں گی۔
افغان مہاجرین کو مرد مومن نے ہمارے گلے باندھا آج اسفند یار ولی اچکزئی اور دیگر پختون اس ملک کو ختم کرنے کے درپے ہے مرد مومن نے منشیات کے ٹھیکے ختم کرکے معاشرہ کو اس لچ سے پاک کرنا چاہا مگر آج ہماری نسل کا ہر تیسرا جوان اسی لچ کا شکار ہے اور جنرل صاحب کا تیسرا بڑا کارنامہ بازار حسن بند کرنا تھا جس سے اس بازار کی تمام حوا زادیاں شہری آبادی میں روپوش ہوگئیں اور انہوں نے بازار حسن کا بیج ہر گلی محلے میں بو دیا جس سے آج ایسی ایسی جگہ یہ دھندہ ہوتا کہ کہ سن کر روح کانپ جاتی ہے خیر وہ مرد مومن بھی اپنے انجام کو پہنچنے سے پہلے اپنے گدی نشین میاں محمد نواز شریف کو پنجاب کا وزیر خزانہ اور وزیر اعلیٰ بنائے رکھا اور اپنی عنایات کے تمام دروازے ان پر کھولے رکھے مرد مومن نے بھٹو مخالف لابی کو اکٹھا کرکے ایک جماعت تیار کرنے کے لیے میاں محمد نواز شریف کو ہر وہ سہولت دی جو ایک باپ اپنے بیٹے کی خواہشات پوری کرنے کے لیے کر سکتا ہو اس سہولت سے میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نے اپنا اتنا کچھ بنا لیا کہ اگر اب ان کی چار پانچ نسلیں کوئی کام بھی نہ کریں تو زندگی آرام سے گزر جائے گی عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے آپس میں نورا کشتی کرتے ہوئے ایک دوسرے کو ڈکٹیٹر کی پیداوار کہنے والے حقیقت میں دونوں ہی جرنیل پلانٹڈ ہیں مگر عوام نے 30سال مسلسل بار ی باری ان دونوں کھلاڑیوں کو اپنا ان داتا تسلیم کیے رکھا مگر عوام کی بد قسمتی میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوتا گیا بالآخر حالیہ انتخابات میں عوام نے ان دونوں سیاسی باووں کو رد کر کے رکھ دیا اور بہت جلد یا بدیر وہ اپنے انجام کے قریب ہیں۔
موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب نے عوام سے جو وعدے کیے وہ بھٹو صاحب کی طرح انقلابی وعدے تھے ہاں وہ ملک کو جس روٹ پر لیکر چل پڑے ہے وہ بہت ہی اعلیٰ روٹ ہے خود انحصاری کا روٹ کسی بھی قوم کیلئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن بنا دیتا ہے مگر عوام کو اس روٹ پر لانے کیلئے خان صاحب کو عوام کیلئے گورنر ہائوسز کے دروازے کھولنے کی بجائے روز گار کے دروازے کھولنا ہونگے خود انحصاری کی پالیسی اپنا کر ان سب وڈیروں کو ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس دینے اور اپنی جائیدادوں پر قانون کے مطابق پورا ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا جو ایک ایک بندہ پورا ملک خریدنے کی طاقت رکھتا ہے اس کی اربوں روپے کی آمدن کو ہماری FBRلاکھوں میں ظاہر کر کے چند ہزار روپے ٹیکس وصول کرتی ہے اور ساتھ مک مکا کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ملکی آبادی کے لحاظ سے اگر ملک کے دولت مند طبقہ سے ٹیکس وصولی کا ہدف پورا ہو جائے اور پھر اس میں سے افسر شاہی اپنی تجوریاں نہ بھریں توعوام پر مزید بوجھ ڈالے بغیر ملک کو خودانحصاری کے روٹ پر رواں کیا جا سکتا ہے لیکن بات کرنے اور عمل کر کے دکھانے میں بڑ افرق ہوتا ہے جس طرح کہ فواد چوہدری صاحب جو کہ ہماری صحافی بھائی بھی ہے اور سابقہ حکومتوں کے ادوار میں وہ ہمارے ساتھ احتجاج میں شریک رہے آج وہ وزیر اطلاعات ہیں تو انہیں قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اسی طرح جناب اسد عمر صاحب میاں برادران کی حکومت میں پٹرول اور ڈیزل کے نرخوں پر طعنہ زنی کیا کرتے تھے مگر جب ذمہ داری خود پر آن پڑی ہے تو عوام کا غیظ و غضب برداشت کر کے انہیں حقیقت سے آگا ہ کرنا ہو گا عوام کیلئے باتیں نہیں عملی طور پر آسانیا ں پیدا کرنے کے اسباب تلاش کریں ورنہ عوام کو جو طریقہ دھرنا مرنا احتجاج اور پھر حکمران اڈیالہ منتقل اب عوام اس کلیہ کو دوبارہ آزمانے میں شاید ذیادہ دیر نہ لگائے والسلام۔