سیاست میں مخالفین سے انتقام کوئی نئی روایت نہیں۔ بس انتقام لینے کے طریق کار میں فرق ہوتا ہے۔ چونکہ دور جدید میں سوشل اور الیکٹرونک میڈیا نے اطلاعات تک رسائی کو سہل بنادیا ہے، اس لیے کسی بھی سیاسی انتقامی کارروائی کی بابت تفصیلات جلد سامنے آجاتی اور کسی بھی قسم کی کارروائی ہو، اس کا’’پوسٹ مارٹم‘‘ جلد کردیا جاتا ہے، عدلیہ کے فیصلوں کا انتظار نہیں کیا جاتا۔ عام شہری عدالتی فیصلوں سے قبل ذرائع ابلاغ میں مناظروں سے اپنی خواہش کے مطابق فیصلہ جاری کردیتے ہیں۔
اس وقت سندھ میں گورنر راج کے حوالے سے افواہوں کا بدترین بازار گرم ہے۔ صوبے میں اس وقت پی پی پی حکومت ہے اور عددی اعتبار سے مضبوط پوزیشن میں ہے۔ اپوزیشن کا اجتماعی اتحاد بھی سندھ میں پیپلز پارٹی حکومت میں ان ہائوس تبدیلی نہیں لاسکتا۔ تاہم ایک دوسری خبر جو حکومت کے بعض ذرائع کی جانب سے وائرل کی گئی کہ پی پی پی میں ’فارورڈ بلاک‘ بن رہا ہے۔ اور وفاقی حکومت کے سینئر وزراء سے مبینہ طور پر پی پی پی کے اراکین اسمبلی نے رابطے کیے ہیں جس کے بعد صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے کہ نمبر گیم بدلے اور اِن ہائوس تبدیلی لائی جائے۔ پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کی جانب سے جے آئی ٹی میں نام آنے پر وزیراعلیٰ سندھ پر استعفیٰ دینے کے لیے دبائو بڑھایا جارہا ہے۔ دوسری جانب بلاول کی گرفتاری کی اطلاعات بھی سیاسی افراتفری کے آغاز کا سبب بننے جارہی ہیں۔
بادیٔ النظر ایسا نظر آرہا ہے کہ جیسے پورے نظام کو لپیٹنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ کرپشن کے نام پر چابک دستی کے ساتھ سابق حکمرانوں کے ہاتھ پیر باندھے جارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت کے گرد جال بُن دیا گیا ہے اور بادی النظر ایسا نظر آرہا ہے کہ پی پی پی کی بھاگ دوڑ کو محدود کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، تاہم پی پی پی نے بھی جواب دینے کے لیے کمر کس لی ہے۔
ملک بھر میں اب ان افواہوں کو تقویت مل رہی ہے کہ ایک فریقی سیاسی نظام لایا جارہا ہے، جس میں ایک پارٹی کو ملک گیر سطح پر متعارف کرایا جائے اور باقی علاقائی جماعتوں کو اپوزیشن بنادیا جائے۔ واضح محسوس کیا جارہا ہے کہ ملک گیر قومی جماعتوں کو پہلے مرحلے میں صوبائی حد تک کردیا جائے۔ پیپلز پارٹی جو وفاق کی علامت اور چاروں صوبوں کی زنجیر کہلاتی تھی، اب وہ سندھ تک محدود ہوچکی ہے، صوبہ پنجاب سے پی پی پی کا مکمل صفایا ہوچکا۔ خیبر پختونخوا میں بھی وہ سیاسی ناتوانی کا شکار ہے۔ بلوچستان کی سیاست تو کسی بھی جماعت کے پلڑے میں گرنے کے لیے ہروقت تیار رہتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی بھی کچھ یہی حالت ہوچکی ہے جبکہ تحریک انصاف کو قریباً چاروں صوبوں میں سیاسی مینڈیٹ حاصل ہے۔ اس طرح اس وقت پاکستان میں ایک فریقی سیاسی نظام کا دوسرا مرحلہ تکمیل کے مراحل میں ہے ۔
دو بڑی سیاسی جماعتوں کے قائدین کی گرفتاریوں اور نااہلی کے بعد ان جماعتوں میں موجود فصلی پرندے اڑنے کو تیار بیٹھے ہیں اور اشارہ ملتے ہی فارورڈ بلاک بننے کی افواہ مصدقہ خبر بن سکتی ہے۔ تاہم سندھ میں گورنر راج کی افواہوں سے بھی وفاق کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اگر ان اطلاعات میں رتی برابر سچائی ہے تو ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت کا یہ امراپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ سندھ حکومت کی گورننس پر اعلیٰ عدلیہ کئی بار عدم اطمینان کا اظہار کرچکی، لیکن سیاسی مسائل کا حل آمرانہ طریقوں سے نکالنا مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ انتخابات میں جس جماعت کو جتنا ‘‘مینڈیٹ’’ دیا گیا۔ اس پر اکتفا کرنے کی ضرورت تھی اور سیاسی دانش مندی کے لیے ضروری تھا کہ اگر جمہوریت جیسے نظام کو قائم رکھنے پر سب جماعتوں کا اتفاق ہے تو انہیں مستقبل میں مینڈیٹ کی تقسیم کے تجربات سے نجات حاصل کرنے کے لیے متفقہ حکمت عملی بنانے کی ضرورت تھی۔ لیکن یہ تمام سیاسی جماعتوں کی کمزوری ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد سمجھتے ہیں کہ ان کو ہی ہمیشہ منتخب کرایا جاتا رہے گا۔ لیکن چور دروازوں سے آکر مسند اقتدار پر براجمان ہونے والے خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کے نتائج وہی نکلتے ہیں جن کے بارے آگاہ ہونے کے باوجود تیار نہیں ہوتے۔ مملکت اس وقت جس نازک دور سے گزر رہی ہے، اس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔
عوام ہر حکمران کا احتساب اور بے رحم احتساب چاہتے ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ جو بھی سیاست دان ہو، بیورو کریٹ یا کرپٹ افسران سمیت کوئی بھی ہو، سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ لیکن احتساب میں سیاسی انتقامی کارروائی کا نظر آنا تمام عوامل کو جانب دار بنادیتا ہے۔ خصوصاً جب اداروں کے فیصلوں پر حکومتی وزراء ترجمان بن کر اپنی عدالت لگاتے ہیں، اس سے اچھا تاثر نہیں جاتا۔ اب چاہے جے آئی ٹی یا ریفرنس میں جتنی سچائی کیوں ہی نہ ہو، اسے سیاسی پس منظر میں انتقامی کارروائی ہی سمجھا جائے گا۔ بہتر ہوتا کہ کرپٹ عناصر کے خلاف ان اداروں کے ترجمان ہی جواب دیتے اور بیانات سے زیادہ عملاً جلد ازجلد پروسیس کو چلاکر حقائق سے عوام کو خود آگاہ کرتے۔ حکومتی ترجمانوں کا اداروں کا ترجمان بن جانا اچھی روایت نہیں۔
سیاسی جماعتوں کے بیانات پر جواب سیاسی جماعتوں کو ہی دینا چاہیے۔ سیاسی جلسوں میں عوام کے سامنے بیانات ہمیشہ سیاسی ہوتے ہیں۔ ان کا حقیقت سے دور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ اصل زمینی حقائق کو سمجھنا ضروری ہے کہ موجودہ نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک فریقی سیاسی جماعتی نظام بنانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ احتساب کے عمل کو سیاسی کرکے انتقامی کارروائی بنادیا گیا ہے۔ گورنر راج، فارورڈ بلاک جیسے معاملات کے لیے کوشش کرنا موجودہ نظام کو ختم کرنا اور آئینی خلا پیدا کرنے کے مترادف ہوگا۔
وفاقی حکومت ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ 27جنوری کو پی ٹی آئی کے عوامی جلسوں کے آغاز کے بعد سیاسی درجہ حرارت بہت بڑھ جائے گا۔ لہٰذا ان حالات میں سیاسی تدبر کا مظاہرہ کیا جائے۔ ریاستی اداروں کو آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ارباب اختیار کو مشورہ ہے کہ وہ سندھ میں تبدیلی حکومت کے لیے بھاگ دوڑ سے گریز کرے۔ خاص کر جب کہ وفاقی حکومت صرف چار سیٹوں پر ٹکی ہوئی ہے۔
جب کسی صوبے میں اکثریتی جماعت کو ہٹانے کی کوشش کی جائے گی تو اس کا اثر وفاق پر براہ راست پڑے گا اور تحریک انصاف کو اپنی حکومت سنبھالنا بھی دشوار ہوسکتا ہے۔ ویسے بھی وفاقی حکومت کے خلاف اِن ہائوس تبدیلی کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ حکومت میں شامل چھوٹی علاقائی جماعتوں کو ساتھ ملا کر وفاقی حکومت کو گھر بھیجنا کوئی مشکل کام نہیں۔ اتحادی جماعتوں کے تحفظات تو بار بار سامنے آچکے ہیں۔ اِن ہاؤس تبدیلی کے لیے بلوچستان سے آفر پہلے ہی آچکی تھی۔ کمزور ریت پر مضبوط دیوار کبھی نہیں بن سکتی۔ اب گورنر راج، فارورڈ بلاک یا قبل ازوقت انتخابات کا فیصلہ مقتدر حلقوں کے فیصلوں سے جڑا ہے۔