تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری چونکہ موجودہ حکمرانوں کا چارماہ بعد چل چلائو کا وقت آن پہنچااس لیے وہ دونوں ہاتھوں سے ہی نہیں بلکہ پیروں سے بھی زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کے مشن پر رواں دواں ہیں کہ”بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست “کا خوفناک اژدھا سامنے پھن پھیلائے کھڑا نظر آرہا ہے کہ اگر ایک بھی سیٹ حکمران کم جیت سکے تو آئندہ حکمرانی سے ہاتھ دھونا پڑ جائیں گے جو کہ” شریفوں” کو تو کسی صورت بھی وارا نہیں کھاتا کہ مخالفین جو کہ دشمنوں جیسا روپ دھارے ہوئے ہیں وہ گن گن کر بدلے چکائیں گے اور جینا تک دوبھر ہوجائے گااس لیے حکمرانی بنچوں میں افرا تفری کا مچناقدرتی امر ہے تبھی ڈھیروں رقوم جمع کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جا رہا ہے کہیں تو پی آئی کی فروختگی کے پلان ترتیب دیے جارہے ہیں اور کہیں خونخوار زہریلی سپنی بنی “اوگرا” نامی بغل بچہ تنظیم کے ذریعے تیل کی قیمتیں مسلسل آٹھویں بار بڑھا کر بیرونی ممالک کے بنکوں اور مختلف ناموں کی لیکس میں سرمایوں کے انبار جمع ہورہے ہیں بین الاقوامی مارکیٹ میں تو تیل کی قیمتیں 38سینٹ کم ہوئی ہیں اور کئی ماہ سے قیمتیں قطعاً نہیں بڑھیں تو پھر پٹرول تقریباً3روپے ،ڈیزل 6روپے اور مٹی کا تیل بھی چھ روپے جیسی قیمتوں کی بڑھوتری کا خوامخواہ کا عذاب پاکستانی حکمران کیوں عوام پر نازل کر رہے ہیں؟اس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں و دیگر سبھی ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے گا اس میں کیا حکومتی حکمت عملی نظر آتی ہے ؟ واضح ہے کہ 2018کے آمدہ انتخابات انہیں خوابوں میں جن کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں کہ کہیں دھڑن تختہ ہوگیا تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتی “سیاہ بھیانک راتیں “منتظر ہیں کہ اس دفعہ تو سعودیہ سمیت کسی نے سفارش تو کرنی ہی نہ ہے اور نا کردہ گناہوں کی بھی سزا بھگتنے کے لیے حکمرانوں کو تیار رہنا چاہیے۔
” چور چوراں دے یار “(زرداری)والامقولہ بھی اب کی بار امداد کرتا نظر نہیں آتا حالانکہ زرداری اور شریفوں میں حرام مال کے انبار اکٹھے کرنے میں گنتیوں کی غلطیوں کے علاوہ انھیں سمیٹنے میں کوئی ذرا برابر بھی سستی کوتاہی نظر نہیں آتی زرداری صاحب تو کروڑوں ڈالرز سمیٹ کر پاکستان کا دوسرا بڑا سرمایہ دار بن چکے اور اس کی جائدادوں /سرمایوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے مگر نواز شریف ابھی دو نمبر پیچھے ہیں یعنی ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں چوتھے نمبر پر ہیں موجودہ حکمرانی کے ناطے شریفوں کو یہ چھوٹ موجود ہے کہ سرکاری خزانہ ساراآج تک ان کے مکمل رحم و کرم پر ہے اور جتنا چاہیں سودی قرضہ بھی بیرونی گماشتہ تنظیموں ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف وغیرہ اوریہودیوں کے پروردہ بڑے سامراجی ممالک سے لے سکتے ہیں۔
قرضے تو آئندہ حکمران اور آئندہ نسل اتارے گی۔2018کے انتخابات خون ریز ہونے کے علاوہ روپے پیسے کا گھنائونا کھیل بھی ہونگے کہ بڑی سیاسی پارٹیوں میں سے ہر کسی نے انتخابات ہر صورت جیتنے کے لیے ایڑی چوٹی کازور لگانا ہے کہ کسی کی بھی شکست اسے اپنی سیاسی ساکھ کے خاتمے اور اپنی “موت کا سامان ” نظر آرہی ہے ن لیگیئے ہار گئے تو آئندہ پارٹی بکھر کر تتر بتر ہوجائے گی ۔پی پی پی تو ویسے ہی زرداری صاحب کی “خصوصی مہربانیوں “سے دم توڑتی بے جان لاشا بنی ہوئی ہے۔
رہے عمران خان تو اس کی بڑھکیں،ہر کس و ناکس کے خلاف “گالی گلوچ “نما گفتگو اگر اسے لے ڈوبی تو یہ بھی ایک بڑا سانحہ ہوگا کہ ان سبھی سود خور نو دولتیے سرمایہ داروں ظالم و ڈیرے و جاگیرداروں اور ڈھیروں ناجائز منافع خور صنعتکاروں نے پی پی پی سے نکل کر پی ٹی آئی میں شمولیت کا ایک بڑا ہی “خوفناک جوأ “کھیلا ہے کہ یا تو “پوں بارہ نہیں تو پھر تین کانے”کے مصداق انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی آخری ترپ چال چلی ہے کہ جیت گئے تو خوب بھلی اور اگر ہارگئے تو مات نہیں کہ پی پی پی میں تو ان کی سیاست غرقاب ہورہی تھی اور وہاں سراسر ہار ہی ان کا لازم مقدر ٹھہری ہوئی تھی زرداری صاحب نے اگر دلیری کر ڈالی اور ساری جمع پونجی آمدہ بڑے انتخابات کے معرکے میں جھونک ڈالی تو کچھ آٹا دلیا پی پی پی کا بن سکتا ہے اور سندھ کے علاوہ بھی چند سیٹیں حاصل ہو سکتی ہیں مگر ایسا امکان بہت کم ہے کہ کوئی بھی اپنی ایسی “نیک کمائیوں “کوکیسے اُجاڑ سکتا ہے؟ تو نتیجہ دن کی روشنی میں صاف نظر آرہا ہے کہ پی پی پی کی تاریخی شکست کا عفریت منہ کھولے اسے ہڑپ کرنے کو تیار بیٹھا ہے ویسے بھی ایک دوسرے کے خلاف دشنام ترازیوں اور محیر العقول لن ترانیوں نے سبھی بڑی سیاسی جماعتوں کو سیاسی گندے تالاب میں ڈبکیاں لگوا دی ہیں۔
عام ووٹر سخت پریشان ہوا یہ سارا ڈرامہ اور غلیظ ترین کھیل دیکھ رہا ہے انتخابات کے آخری دنوں میں وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرتے نظر آتے ہیںخصوصاً مہنگائی ،غربت و بیروزگاری جیسے زہریلے بچھوئوں کے ڈنگے ہوئے پسے ہوئے طبقات کے لوگ اگر اللہ اکبر اللہ اکبر اور سیدی مرشدی یا نبیۖ یانبیۖ کا ورد کرتے ہوئے بدبو دار محلوں گلیوں کوچوں سے نکل پڑے تو چونکہ تمام مسالک ،فرقوں برادریوں کے مشترکہ”اکٹھ”جس کا نام اللہ اکبر تحریک ہونا ممکن قرار پایا ہے وہ پولنگ اسٹیشنوں پر پہنچ کر پوری موجودہ انتخابی بساط لیپٹ کر باکردار باصلاحیت تحریکی امیدواروں کی جیت کا سامان پیدا کرسکتے ہیں 71سالوں سے جو سیاسی گاڑی سود خور نودولتیے سرمایہ دار مختلف روپ دھارے بگٹٹ دوڑاتے چلے آرہے ہیں خدائے عزو جل کی رحیم موجوں نے زور مار دیا اور عوامی غیرت بھی جاگ اٹھی تو پھر سبھی جغادری پہلوانوں کے تخت کا تختہ ہو جائے گا۔الٹی گنگا بہنے لگے گی کہ اب تک غریب بہت خون کے آنسو بہا چکے ان میں اب مزید قربانیاں دینے کی ہمت نہیںکہ تیل دھماکے ہی ان کی جان نکالنے کے لیے کافی ہیں پہلے بھی رجسٹرڈ ادویات کی مہنگائی کا ڈرون حملہ حکمران کرچکے ظلم پر ظلم یہ کہ جان بچانے والی خصوصی ادویات کی قیمتیں بھی بڑھا دیں ایل پی جی مہنگی ہونے سے گھریلو اخراجات میں کمر توڑ اضافہ ہونے پر خواتین ہمہ وقت ذمہ داروں پر تبرے بھیجتی ہیں شدید مہنگائی کر ڈالنے جیسے شیطانی کریہہ عمل سے کتنا حرام مال کہاں کہاںبیرونی ملکوںمیں دفن ہوا وہ راز وقت پر ضرور کھل کر رہے گا کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔