تحریر : شاہ بانو میر ہو سکتا ہے کچھ لوگ سوچیں کہ آج کے کمزور نا اہل کمزور حکمرانوں کو کیسے ماضی کے ان لاجواب بے مثال حکمرانوں سے مماثلت دے رہی ہوں؟ کہ وہ کیا عظیم نیک لوگ تھے رات رات بھر جاگ کر عبادت کرنے والے اور اس پر بھی خشیت الہیٰ سے جن کی کمر بستر سے نہیں لگتی تھی اور دن کو بھری دوپہر میں چِلچلاتی دھوپ میں مطمئین ضمیر کے ساتھ سوتے دکھائی دیتے تھے۔
ہم نے ان کی قدر نہ کی ٬ جن کی شرافت نیک نامی اور بلند درجات کی گواہی آج تاریخ بتاتی ہے ٬ اس وقت اپنے ہی دیندار ساتھیوں کے مخالف طاقتور رویوں کے سامنے یوں لاچار ہو گئے ٬ وہ دنیا میں جنت کی خوشخبری پانے والے اللہ کے پسندیدہ بندے تھے مگر نظام کی اصلاح کے نام پر ان کو شہید کیا گیا٬ نتیجہ انتشار بیچینی ہراس اور اختلافات کا گہرا سمندر جو کوئی بعد میں پاٹ نہ سکا٬ اس وقت دشمنوں کے دماغ میں کونسا بغض ہوگا ان پرہیز گاروں کے بلند درجات کو جانتے بوجھتے نظر انداز کر کے چلتے کامیاب نظام کو عبرت بنا دیا٬ پوری دنیا میں دھاک بٹھانے والے اپنے ہی شہر میں نظام سے اختلاف کی وجہ سے شہید کر دیے گئے٬ ان سے بہتر اور اصل نظام کو وضع کرنے والے صرف امت کو تقسیم کر کے جُدا کر گئے کہ آج تک امت کا اتحاد پارہ پارہ ہے۔
ماضی میں ان لوگوں نے ہمعصر برگزیدہ حکمرانوں کے متعلق بے دینی جیسی خطرناک باتوں کو پھیلا کر عوام کو ان سے قدرے بدظن کیا یوں اپنی طاقت بڑہائی اور بلاخر ان پر حملہ آور ہو کر انہیں شہید کر کے اپنے تئیں کامیابی حاصل کر کے نظام کو بچایا٬ تاریخ کے ایسے اوراق جب ہم تک پہنچتے ہیں تو سوائے پشیمانی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ ہم نے کیسے قیمتی نیک لوگوں کی قدر نہ کی ٬ اور آج اس کا خمیازہ یہ ہے کہ ستر سال سے ہم ایسے لوگوں کو بھگت رہے ہیں کہ حکومت کرنے والے بھی اور مخالفین آج سب کا قبلہ جُداجُدا ہے٬ دین زندگی میں موجود نہیں اور اپنی اپنی مرضی کا دین حاوی ہے جس کی وجہ سے ہر طاقتور نے انتشار کی ایسی کیفیت پیدا کر رکھی ہے کہ اس میں عوام پِس کر رہ گئے ہیں٬ ہر جانب سے ایک دوسرے کو چیخ و پکار کر جھوٹا چور بد دیانت کا شور سنائی دے رہا ہے٬ نہ اہل اقتدار کے محلات کی رونقیں کم ہوئیں اور نہ دوسری جانب اختلاف رکھنے والوں کی اپنی عیش و عشرت اور زبانیں مدھم ہوئیں ٬ اس سارے انتشار میں کچھ ختم ہو رہا ہے تو وہی بے بس پریشان عوام کا حوصلہ ہے جو بتدریج دم توڑ رہا ہے٬ اس کا بڑہتا ہوا اعتماد اور اس کا مستقبل گہنا رہا ہے٬ ماضی کے با عمل حکمرانوں کی ناقدری کی سزا آج ہم دونوں جانب سے ناقص العقل اور شور شرابے کے شوقین سیاستدانوں کی صورت بھگت رہے ہیں٬ ایسے حکمران 70 سال سے ہم بھگت رہے جن کا سیاسی وجود جن کی حکمت جن کا تدبر کسی طور ماضی کے بہادر دلیر ہمدرد عبادت گزار نیک حکمرانوں سے مشابہ نہیں ہے۔
یہ اللہ کی طرف سے سزا ہے کہ ہم اچھے لوگوں کے اہل نہیں تھے لہٰذا اب برداشت کریں دونوں جانب سے نا اہل حریص افراد کو٬ مگر کل لوگ خوفِ خدا رکھنے والے تھے مگر یزیدیت طاری رہی آج لوگ اچھے نہیں آج بھی وہی دھند میں لپٹاگجلک ماحول ہے٬ کل کی طرح آج پھر “”عدل”” خود کٹہرے میں کھڑا ہے اور “”انصاف”” سوالیہ نشان بنا عادلوں کی عجلت کو بے بسی سے تک رہا ہے٬ ہر دور میں اگر ریاستی معاملات طویل منصوبے اور ان پر جاری کوششیں تسلسل سے جاری رہیں تو ملک ترقی کا شاہکار دکھائی دیتا ہے ٬ جبکہ سیاسی مخالفین کیلئے وہ سیاسی موت ہے اگر وہ مکمل کر جاتے ہیں تو ان کیلئے آئیندہ انتخابات میں عوام کو بتانے کیلیۓ کچھ نہیں٬ یہیں سے سیاستدان اپنا روپ دکھاتے ہیں اور اس ملک کو اس کی ترقی کو روک کر صرف سیاست کو زندہ رکھتے ہیں٬ بد نظمی کی طرف اس طرح سے ملک کو دھکیلتے ہیں کہ ماضی کے جری جانباز بہادر بے بس ہو جاتے ہیں٬ اس لئے کہ وہ قدم قدم پر اللہ کی رضا کے طالب اور خوف سے لرزہ براندام رہنے والے لوگ تھے٬ آج بھی کل کی طرح بہتری کا موضوع بنا کر ملک کے نظام کو بیچ منجدھار میں اس نظام کو تباہ کر کے اپنا نظام لانے کی جبری کوشش کی جا رہی ہے۔
ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر خانہ جنگی میں مبتلا ہو کر بیرونی دشمنوں کی بجائے اپنے اندرونی ہمدردوں کے ہاتھوں برباد ہو رہا ہے٬ یہی سب ہمارے اسلاف کے ساتھ ہوا٬ جنہیں باہر والے تو کوشش کے باوجود تباہ نہ کر سکے ٬ یہ معرکہ اندر والوں نے خوب انجام دیا٬ ملک کو سی پیک کی سزا باہر سے کیا کوئی دیتا٬ ملک کو مفلوج کر کے سیاسی مخالف کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ملک کو ڈھیر کرنے کی کوشش زور پکڑ رہی ہے٬ دشمن تالیاں بجاتے رہے کہ وہ ترقی کا پہیہ روکنے میں کامیاب ہو گئے جس کے متحرک رہنے سے دنیا بھر میں پاکستان کا بول بالا ہونا تھا٬ کیا عبداللہ بن سواع اور عبداللہ بن ابیع جیسے دشمن اور منافق آج ہماری صفوں میں راج نہیں کر رہے؟ یہ کون ہے عدل کے عقب میں نقب لگائے بیٹھا ہے ؟ جو ملک کو کھوکھلا کرنے کیلئے کبھی ایک کو ورغلا رہا ہے تو کبھی دوسرے کو٬ یہ سیاستدان تباہ کس کو کر رہے ہیں؟
پاکستان کی تباہی کس کی سیاسی زندگی ہے؟ ایک بار پھر سے ہدف “” نظام”” ہے ترقی کا پہیہ جاری رہتا تو پاکستان اس خطہ میں اہم ترین مقام پر فائز ہو سکتا تھا بڑہتا ہوا معاشی استحکام دشمن ممالک کو تو مرعوب اور پریشاں کر رہا تھا٬ معیشت کی تنگدستی سے نکل کر معاشی خوشحالی کا علمبردار ملک بن سکتا تھا٬ برق رفتاری سے چلتا ہوا یہ ترقی کا پہیہ کیوں جامد ہوا؟
اندرونِ ملک کس کو ایسا خوف ہوا کہ طوفان بپا کر کے ملک کی ترقی کا پہیہ ساکت کیا گیا ؟ منصوبوں کی تکمیل سے وصول ہونے والی آمدنی نے اب بیرونی قرضہ جات ادا کرنے تھے٬ ایسے نازک وقت میں ملک کی ساکھ کو داؤ پر لگا کر ایسا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ جس سے غریب پھر مر جاتا ہے٬ مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہوتا ہے اور ملک قرضہ جات کی ادائیگی سے قاصر ہو جاتا ہے٬ نظامِ انصاف کے ٹھیکداروں نے کس کے اشارے پر ایسا بے ڈھب فیصلہ دیا کہ ماہرین قانون نے اس پر عدم اعتماد کرتے ہوئے “”یزیدی عدل”” کا لیبل لگا دیا؟ کس کی ایماء پر معیشت اور فوج کے لئے جھوٹی کہانیاں گھڑ گھڑ کر ملک کو انتہا پر لایا جا رہا ہے۔
ترکی کی طرح چند افواج پاکستان کے نمائیندے ہو سکتا ہے کہ موجودہ نظام اور شخصیات سے خوش نہ ہوں ٬ مگر بحیثیت مجموعی پاک فوج اپنے جوانوں کی شہادتوں سے موجودہ سیاسی قیادت کو کشادہ شاہراہیں کھول کر دیتی دکھائی دے رہی ہے٬ کیسا ظلم بپا ہے اورکس کے اشارے پر ہے؟ وہ صحافی جو اس کیس کی بنیاد ہے٬ وہ چِلّا اٹھا کہ فیصلہ مضحکہ خیز اور اس کی محنت پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔
تاریخ کا خونیں دور آج پڑھا 3 خلیفہ راشد اسی طرح الزامات کی زد میں شہید کئے گئے ٬ یہ دلخراش ورق آج پڑھا اور ہو بہو سامنے وہی انداز ستِم دیکھ رہی ہوں٬ وہی ماحول وہی افواہوں کا بازار گرم وہی چہرے سراسیمہ کرتے ہوئے وہی دھمکیاں دیتے ہوئے فرعونی لہجے ٬ قافلہ اسلام بڑھ رہا تھا٬ سیلِ رواں تھا ٬ شہادتوں کا سلسلہ دراز تھا آپﷺ کے زمانے میں نظام کو قائم کرنے کیلئے شہادتیں دی گئیں اور خلفائے راشدین کے وقت نظام کو قائم رکھنے کیلئے شہادتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ تھا٬ اُس وقت خارجی طاقتیں ختم کر دی گئیں جو اللہ کے نظام کو تباہ کرنا چاہتی تھیں٬ مگر داخلی طاقتیں اندر سے ایسی شوریدہ ہوئیں کہ نظام کو لاغر اور لاچار کر کے اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹ گئیں۔
آج پھر سے وہی مناظر وہی انتشار وہی ہیجان اور وہی شہادتیں ہیں ٬تاریخ اسلام کی سازشیں گویا تسلسل سے آج ہمارے سامنے آ گئی ہیں پاکستان کا شور مچاتا مخالف سیاسی طبقہ اور بے بسی سے کٹہرے میں سی پیک سے پاکستان کو عظیم بنانے والا نادم شخص ٬ ایک نے ایٹمی بم بنانے کی سزا پھانسی پا کر پائی آج دوسرا سی پیک جیسے تاریخ ساز منصوبے کی سزا بھگتنے کیلئے چن لیا گیا٬ یہ انداز سیاست خونیں تصادم مجھے بتا رہا ہے کہ کیسے تھما یہ سیلِ رواں ہمارا۔۔