آج میرے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کے لئے نومنتخب صدر ممنون حسین کی معصوم اور بھولی بھالی صورت میں ایک ممنون مل گیاہے، صدر کیوں کہ وفاق کی حقیقی علامت ہوتاہے، اِس لئے امیدکی جانی چاہئے کہ ممنون حسین ملک وقوم اور اپنی پارٹی سمیت صدر بنانے والی ان جماعتو کے بھی ممنون رہیں گے اواپنی خدمات انجام دیں گے جنہوں نے غیر مشروط یا مشروط طور پر اِنہیں صدر بنانے کے لئے ووٹ دیئے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حالات میں دہشت گردی، قتل وغارت گری، کرپشن اور توانائی کے بحرانوں سمیت اور بہت سے گھمبیر مسائل میں گھیرے ملکِ پاکستان میں 30 جولائی کو نئے صدر کے چناو کے لئے صدارتی انتخاب ہوا۔
اور ایوانِ نمائندگان نے ملک میں جمہوری طریقے سے پہلی بار صاف وشفاف ہونے والے صدارتی انتخاب کے ذریعے نئے جمہوری صدر کا انتخاب کرنے کے لئے ووٹغگ میں حصہ لیا اوراب جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بارھویں تیرہویں صدر کے لئے ہونے والے صدارتی انتخاب کا سرکاری نتیجے کا اعلان بھی ہو چکا ہے یوں الیکشن کمشنر کے حتمی اعلان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ممون حسین 432ووٹ لے کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارھویں/ تیرھویں صدربھی منتخب ہوگئے ہیں،اور اب نومنتخب صدر ممنون حسین کی اولین ترجیحات میں ملک کو کرپشن، بے روزگاری، دہشت گردی، ڈرون حملے، کراچی میں جاری ٹارکلنگ، توانائی بجلی اور گیس کے بحرانوں سمیت ان تمام مسائل کے فوری حل کے خاطر ایسے دیرپا اقدامات شامل۔ ہونے چاہئے۔
جن سے ملک کا مستقبل تباناک ہو جائے اور ملک اور قوم اس امیدکی کرن کو پالیں جن کے یہ مدتوں سے منتظر ہیں۔ جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی اور اِس کی اتحادی جماعتوں طرف سے صدارتی انتخاب سے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد پی ایم ایل (ن) کے امیدوار ممون حسین کے مدِ مقابل پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس (ر) وجیہہ الدین تھے جو صدارتی انتخاب میں صرف 77ووٹ حاصل کرسکے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کا تیرھواں صدر منتخب ہونا ممون حسین کو مبارک ہو، اور ساری پاکستانی قوم دعاگو ہے کہ اللہ ممنون حسین کو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لئے ممنون بنائے، اور آنے والے دنوں میں ممنون حسین بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کو ملک اور قوم کودرپیش مسائل سے نکالنے کے لئے ممنون بن کر استعمال کریں گے۔
Prime Minister Mian Nawaz Sharif
آج اِس میں کوئی شک نہیںہے کہ صدارتی امیدواروں کے لحاظ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس ممنون سے کہیں زیادہ ممنونوں کی لمبی فہرست تھی اور ممنون حسین سے زیادہ مضبوط عصاب اور بھاری بھرکم سیاسی کردار اور معاشی و سیاسی اعتبار سے دانش وارانہ صلاحیتیں رکھنے والی شخصیات قدم قدم پر موجودھ تھیں مگر پھر بھی اِن شخصیات کی پارٹی کے ساتھ فاداری، خلوص اور قربانیوں کو فراموش کرکے پی ایم ایل (ن) کے سربراہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف نے صرف ممنون حسین کو ہی صدرارتی امیدوار کی حیثیت سے چناو کیا توکیوں کیا ذراسوچیئے کیوں کیا یہ ایک الگ بحث ہے مگر فی الحال وزیراعظم اورپی ایم ایل (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کے ممنون حسین کو صدارتی امیدوار کا انتخاب کئے جانے کا ایک ہی صاف جواب یہ ہے۔
کہ اِنہوں نے اکیلے ہی اتنا بڑا فیصلہ نہیں کیا اپنے اِس فیصلے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف نے پارٹی اراکین کو یقینا اعتماد میں لیا ہوگا اور پھر ممنون حسین کو صدارتی امیدوار کے لئے نامزاد کر کے اِنہیں اپنا اور اپنی پارٹی کا ممنون بنالیا گا۔ اگرچہ صدر اتی انتخاب سے قبل نومنتخب صدر پاکستان ممنون حسین کی سادگی اور اِن کی معصوم طبیعت سے متعلق سیاسی حلقوں اور عوامی سطح پر جتنی بھی، تنقیدیں، مخمصے اور چہ میگوئیاں جاری تھیں، اب ممنون حسین کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا 13 واں صدر منتخب ہوجانے کے بعد سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے نومنتخب صدرممنو ن حسین کی ذاتی اور سیاسی حوالوں سے کئے جانے والے کردار کشی کے سلسلوں کو فی الفور بند اور ختم کر دینا چاہئے۔
کیوں کہ آج راقم الحرف اور عوام الناس کے نزدیک بھی یقینا پی ایم ایل (ن) کے سربراہ اور موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے ممنون حسین کاصدارتی امیدوار کی حیثیت سے چناو اِن کی پارٹی سے وفاداری اور اِن کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہی کیا ہوگا، جبکہ اِن کی پارٹی میں عہد صدارت کے لئے بے شمار ایسی شخصیات ضرور موجود تھیں، جو عہدِ صدارت کے لئے مناسب تھیں ،مگروہ کیا وجہ اور وجوہات تھیں کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نظر ممنون حسین پرہی پڑی اور وزیر اعظم نے آنافانا صوبہ سندہ کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے اپنی جماعت کے ایک سینیئر اور درینہ کارکن ممنون حسین کو عہدصدارت کے لئے منتخب کرلیا۔
Terrorism
جبکہ راقم الحرف یہ سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا یہ فیصلہ ملک و قوم کے لئے سو فیصد درست ہے، اور قوم کو آنے والے دِنوں میں نواز شریف کا ممنون حسین کو صدربنائے جانے کے بہتر نتائج نکلنے کی امیدکی جانی چاہئے، اوراب وزیر اعظم میاں نواز شریف کو صدرِ پاکستان ممنون حسین کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہوگا، اور آپس کے صلاح مشوروں سے ملک اور قوم سے متعلق ایسے اقدامات ضرور کرنے ہوں گے،جن سے ملک سے دہشت گردی، ڈرون حملے، فرقہ واریت، مہنگائی، بے روزگاری، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، کرپشن، اور ایسی بہت سی برائیاں ختم ہوں،جو برسوں سے ملک کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکہ بنی ہوئی ہیں۔
تاکہ اِن کے خاتمے سے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کا رجحان پروان چڑھے اور ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے صدارتی انتخاب سے بائیکاٹ اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کی حمایت کرنے کے اعلان کے بعد صدارتی الیکشن ایک رسمی کارروائی لگااور واضح ہوگیاتھاکہ ن لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کی کامیابی یقینی ہوگی، اور پھر تیس جولائی کو قوم نے یہ خود بھی دیکھ لیاکہ (ن) لیگ کے امیدوار ممنون حسین اپنے مدِمقابل کے 77 ووٹ کے مقابلے میں 432 ووٹ لے کر ملک کے 13ویں صدر منتخب ہوکر مسندِ صدارت کے حق دار ٹھیرے۔
اور اب میں جاتے ہوئے یہ کہتا چلوں چونکہ ممنون حسین اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تیرھویں صدر منتخب ہوچکے ہیں، اِنہیں چاہئے کہ یہ اپوزیشن والوں کے اِن خدشات کا منہ توڑ جواب ضرور دیں صدارتی انتخاب سے قبل جن کا اظہار بائیکاٹ کرنے والی جماعت کے جیالے اور اِس کے اتحادی کچھ اِس طرح کیاکرتے تھے کہ نواز شریف کو جی حضوری والا صدر چاہئے، ممنون حسین نئے رفیق تارڑ بن رہے ہیں، اور ایوان صدرکا ریموٹ کنٹرول نواز شریف کے ہاتھ میں ہوگا، اور ایسے بہت سے ایسے خدشات اور طنزتھے جو اپوزیشن کی جانب سے کئے گئے، اگر نومنتخب صدر ممنون حسین نے اپنی صلاحیتوں سے اِس کا جواب دے دیاتو ٹھیک ورنہ عوام یہ سمجھیں گے کہ بائیکاٹ کرنے والی جماعت نے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ سب ٹھیک تھے، اور ممنون حسین ایساہی ثابت ہوئے جیسے ممنون بھی ڈاکٹرماموں کی طرح صدرماموں بن گئے ہیں۔ عظیم اعظم اعظم naa.asn@gmail.com