پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر کے نقصان اور ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی کو نظر انداز کرتے ہوئے عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کردیا گیا ہے۔مغربی ابلاغ کے مطابق جہاں امریکا ، برطانیہ ، جرمنی اور فرانس نے پاکستان کے خلاف ووٹ دیا بلکہ پاکستان کے حلیف ممالک ترکی ، چین اور سعودی عرب پر بھی ووٹ ڈالنے کے لئے دبائو ڈالا گیا۔ پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے لئے فروری میں ہی فیصلہ کرلیا گیا تھا ۔ امریکا کی جانب سے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے امریکا کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کے پلیٹ فارم کو استعمال کئے جانے سے خطے میں امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو ناقابل تلافی پہنچنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔پاکستان میں اس وقت انتخاب کرانے کے لئے محدود اختیارات کی قائم کردہ نگراں حکومت شامل ہے۔نگراں حکومت کا مینڈیٹ ملک میں پارلیمانی انتخابات کرانا ہے ۔ نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر کی جانب سے ایف اے ٹی ایف کو قائل کرنے کی کوششیں اسی لئے بے سود ثابت ہوئیں کیونکہ نگراں حکومت کے پاس ہوم ورک نہیں تھا۔
فروری میں جب پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تو مغربی بلاک کی جانب سے کوشش کی جا رہی تھی کہ کسی بھی طرح پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل ہوجائے ، لیکن پاکستانی وفد نے پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل ہونے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف مالی وسائل کی ترسیل سمیت دہشت گرد گروپوں کے خلاف مسلح افواج نے آپریشن کو تیز کیا اور ریاست نے اپنی ملکی و غیر ملکی داخلہ و خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی کی کوشش کی ۔ چونکہ پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے حکمراں جماعت کے خلاف منظم احتجاجی مہم جاری تھی اور حکومت کے وزرا ء کے خلاف عدالتی مقدمات کی وجہ سے کئی اہم معاملات میں توجہ منقسم ہوئی ۔اس لئے پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لئے ایک بار پھر امریکا اور بھارت نے ایف اے ٹی ایف کا پلیٹ فارم استعمال کیا۔
امریکا پاکستا ن میں سیاسی انتشار و عدم استحکام پیدا کرکے اپنے فروعی مفادات کے لئے ہر قسم کا دبائو استعمال کرتا رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا پلیٹ فارم بھی پاکستان پر دبائو بڑھانے کا ایک ہتھکنڈا ہے ۔ امریکا اپنے مفادات کے لئے پاکستان پر کبھی مذہبی عدم آزادی کی واچ لسٹ میں شامل کراتا ہے تو کبھی پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ملنے والی امداد کو روک کردبائو بڑھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ پاکستان 2012تا 2015میں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل رہ چکا ہے ۔تین برس قبل گرے لسٹ سے پاکستان کا نام اخراج ہونا اس بات کا خود بین ثبوت تھا کہ پاکستانی ریاست نے ایسے اقدامات کئے تھے جس کی اہمیت تسلیم کرکے ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کا نام گرے لسٹ سے خارج کیا تھا ۔ تاہم امریکی انتظامیہ کی ٹرمپ پالیسی نے پاکستان کو افغانستان میں امریکی شکست کا ملبہ ڈالنے کی راہ اختیار کی۔
امریکا افغانستان میں گزشتہ16برسوں سے زائد جاری جنگ میں مکمل ناکام ہوچکا ہے اور بے مقصد جنگ کی طوالت کی وجہ سے فرسٹریشن کا شکار ہے۔ امریکی صدر نے بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اُن اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جس سے بھارت کو فائدہ اور پاکستان کی سلامتی و بقا پر زد پہنچتی ہو۔امریکا نے بھارت کی ایما پر سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت و مظلوم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کرتے ہوئے حریت پسندوں کی تحریک و جدوجہد کو دہشت گردی سے منسوب کردیا ۔ امریکا اور مغربی ممالک نے مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند تنظیموں کی حمایت کر نے والوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لئے دہشت گردی کا لیبل لگانا شروع کردیا اور بھارت میں ” را ” کی منظم سازشی کاروائیوں کا الزام پاکستان اور حریت پسند کشمیریوں پر عائد کر دیا ۔
پاکستان پر دبائو بڑھایا گیا کہ وہ کشمیر ی عوام کی اخلاقی و انسانی ہمدردی کی حمایت سے باز آجائے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر کسی بھی عالمی فورم میں کشمیری مسلمانوں کے لئے آواز بلند نہ کرے۔ امریکا کی جانب سے دوہرا معیار اختیار کرتے ہوئے پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں ہونے والے واقعات میں ملوث عناصر کی کمین گاہیں پاکستان میں ہیں ۔ جبکہ پاکستانی ریاست نے آپریشن ضرب ِ عضب میں دہشت گردی کمر توڑی اور بلا امتیاز تمام ایسی تنظیموں و کالعدم جماعتوں کے خلاف کاروائیاں کیں جنہوں نے آزاد سرحدی علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاک۔افغان سرحد ی علاقوں میں پناہ گائیں بنا لی تھی ۔ پاکستانی ریاست نے ماضی میں امریکا کی ہی خواہش پربنی داخلہ و خارجہ پالیسی کے مضمرات و نقصانات سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ۔ ماضی میں پاکستان نے افغان ۔سوویت جنگ میں امریکا کی خواہش کے مطابق پالیسی بنائی تھی جس کی غلطی کا اعتراف اعلیٰ سطح پر کیا جا چکا ہے ۔
اس بارپاکستان نے ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دوہرانے کے لئے ایک غیر جانب دار پالیسی کو اپنایا اور امریکا کی جانب سے چین اور ایران میں ” جہاد ” کے نام پر نئی جنگ کے لئے مسلح جتھوں کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ پاکستان 78کے بعد امریکا کا سب سے بڑا جنگی اتحاد بن کر امریکی مفادات کے لئے اپنی ملکی سرحدوں و بقا کی سلامتی کو دائو پر لگا چکا تھا۔جس کا خمیازہ پاکستان کو دہشت گردی کی صورت میں ملا اور پاکستان کے کونے کونے میں امریکی حلیف بننے کے ” جرم ” میں معصوم عوام ، عوامی مقامات اور قوم سلامتی کے اداروں پر دہشت گرد حملے اس قدر بڑھ گئے کہ کوئی دن ایسا نہیں گذرتا جب ملک میں ایک ہی دن دہشت گردی کے کئی واقعات پیش آتے۔عملی طور پر امریکا کے ” اتحادی” ہونے کے سبب پرائی جنگ ، پاکستان کی سلامتی و بقا کی جنگ میں تبدیل ہوتی چلی گئی اور پاکستان دنیا میں دہشت گردی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن گیا ۔سوویت یونین کی شکست و بخرے ہونے کے بعد امریکی خواہشات و ترجیحات تبدیل ہوگئیں اور امریکی کا رجحان بھارت کی جانب ہوگیا ۔امریکا نے بھارت کی خوشنودی کے لئے اپنی دوہری پالیسی کو اختیار کیا اور پاکستان کی تمام قربانیوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان پر الزامات اور ڈو مور کے مطالبات میں اضافہ کرتا چلا گیا ۔
پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں نے شمالی مغربی سرحدوں میں متواتر آپریشن کرکے کامیابیاں حاصل کیں اور اس آپریشن کا دائرہ کار پورے ملک میں پھیلاتے ہوئے آپریشن رد الفساد کا آغاز کردیا جو ہنوز جاری ہے۔دہشت گردوں نے پڑوسی ممالک میں اپنی کمین گاہیں بنا لیں اور خاص کر افغانستان سے ملکی سا لمیت کے دشمنوں کی شر انگیزیوں کو روکنے کے لئے ملکی تاریخ میں پہلی بار اپنی مدد آپ کے تحت 2600کلو میٹر طویل پاک۔ افغان سرحد پر باڑ لگانے کے مربوط پلان پر عمل درآمد شروع کردیا۔یہ عمل افغانستان اور بھارت کے لئے ناقابل قبول و ان کے مذموم ارادوں کی راہ میں سب سے بڑی رکائوٹ تھا اس لئے منظم سازش کے تحت کالعدم جماعتوں کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے سفاکانہ سازشوں میں اضافہ کردیا۔ قومی سلامتی کے اداروں نے تیزی کے ساتھ پاکستانی عوام کے تعاون بالخصوص (سابقا) فاٹا علاقوں کی غیور عوام کی قربانیوں سے دہشت گردی کے بڑے واقعات کو روکنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرلی۔چونکہ افغان حکومت کا دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر کاروائیاں کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اس لئے بلوچستان اور ( سابق) فاٹا کے علاقوں میں مسلح افواج اور پولیس پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جس میں سینکڑوں افسران و اہلکاروں نے اپنی جان کی دے کر دشمنوں کے مذموم ارادوں کو ناکام بنانے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔
ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ عالمی معاشی منظر نامے میں ایک بہت بڑا گیم چینجر بن کر امریکا ، افغانستان اور بھارت سمیت کئی ممالک کی آنکھوں میں کھٹکنا شروع ہوگیا ۔ پاکستان کو چین کے ساتھ سی پیک منصوبے میں تعاون کو روکنے کے لئے عالمی دبائو میں اضافہ شروع ہوگیا ۔ امریکا اور مغربی بلاک ، چین کی عالمی معیشت میں اکنامک سپر پاور بننے کے کردار سے خائف ہیں اس لئے امریکا نے سی پیک روٹ پر اعلانیہ مخالفانہ بیانات دے کر اپنے اصل عزائم کو عیاں کردیا۔یہ ایک بہت بڑا نمایاں اشارہ تھا ۔ جس کے لئے پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر عالمی سازشوں پر گہری توجہ دینے کی ضرورت تھی ۔ تاہم عالمی اسٹییبلشمنٹ نے ایک جانب شمالی مغربی سرحدوں سے پاکستانی سرحدی علاقوں کی عوام کو نشانہ بنانا شروع کردیا تو دوسری جانب مشرقی سرحدوں پر نہتے و معصوم شہریوں کو گولہ باری کرکے شہید کرنا شروع کردیا ۔ پاکستان کی بعض جماعتوں کو سیاسی انتشار و عدم استحکام کا شکار کرنے کا ٹاسک دے دیا گیا اور سرحد پار سے احکامات ملنے پرنام نہاد تحریکوں کو قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف پروپیگنڈوں کے لئے استعمال کرنا شروع کیا گیا ۔
نام نہاد تحریکوں کا قومی سلامتی کے اداروں و ریاست کے خلاف دھرنے ، مظاہروں اور مسلح افواج کے خلاف مذموم نعروں اور جلسوں کا مقصد دراصل پاکستان کو عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) میں امریکا کے لئے راہ ہموار کرنی تھی ۔ یہ اظہرمن الشمس ہے کہ پڑوسی ممالک کی ایما پر نام نہاد تحریکوں کی بعض قوم پرست سیاسی جماعتیں اس لئے حمایت کررہی تھی کیونکہ رواں ماہ عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کا اجلاس ہونا تھا جس میں پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لئے راہ ہموار کرنا تھی۔ گو کہ پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی کوشش ناکام ہوچکی ہے تاہم گرے لسٹ میں نام آنے سے بعض قوم پرست جماعتوں ، ان کی نام نہاد موومنٹ کا کردار کھل کر سامنے آچکا ہے۔خاص طور پر نیشنل ایکشن پلان کے مطابق ( سابق) فاٹا کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے خلاف جس قسم کا کردار ادا کیا گیا اس سے پاکستان کی سا لمیت کے دشمنوں کا کردار اور مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا۔ اس وقت پاکستان میں محدود اختیارات رکھنے والی ایک ایسی نگراں حکومت موجود ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرانے کی حتمی پوزیشن میںنہیں تھی۔ امریکا اور بھارت کو اسی موقع کا انتظار تھا اور اسی وقت کے لئے منصوبہ بندی کی گئی جب مملکت میں عوام کی منتخب کردہ حکومت نہ ہو اور تمام سیاسی جماعتوں کی توجہ ملکی انتخابات کی جانب رہے۔ دوسر ی جانب مسلح افواج کو پورے ملک میں سیکورٹی کو محفوظ بنانے کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ریاست کو تین اطراف کی ملکی سرحدوں کی حفاظت ، دہشت گردوں کو دوباہ منظم ہونے سے روکنا ، انتخابی عمل کو محفوظ بنانا شامل ہے تو دوسری جانب ہزاروں افراد کی قیمتی جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالرز کے مالی نقصان کے بعد امن کے ددور کو مستحکم و پائدار رکھنے کے عمل کو برقرار رکھنا بھی اہم ترین ٹاسک ہے۔
عالمی تنظیم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ( ایف اے ٹی ایف ) کو پاکستان کے سیاسی حالات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تھا ۔ امریکا اور بھارت کے دبائو میں آکر پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کرنے میں عجلت سے کام لیا گیا ۔ نگراں حکومت پر مالیاتی اداروں کی جانب سے ایسے معاہدے کرنے پر بھی دبائو ڈالا گیا جس پر عمل درآمد کئے جانے سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا ۔ تاہم نگراں وزیر اعظم نے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ایسے کسی معاہدے کی توثیق و شرکت سے انکار کرنے کا فیصلہ صائب و قابل تعریف عمل ہے۔اب جبکہ امریکا اور بھارت کے دبائو پر پاکستان کے حلیف ممالک پر بھی دبائو ڈال کر معتصبانہ فیصلہ کیا گیا ہے تو نگراں حکومت کو عالمی اسٹیبلشمنٹ کے دبائو کا شکار ہونے کے بجائے ان معاملات کو آنے والی نئی حکومت پر چھوڑ دینا چاہیے۔ اس وقت عام انتخابات کا وقت مقررہ پر ہونا انتہائی ضروری ہے۔ سیاسی جماعتوں کو مملکت کو درپیش مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے سیاسی عمل میں برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا ماحول بنانے سے گریز کرنا چاہیے جس سے عام انتخابات التوا یا تاخیر کا شکار ہوجائیں جس سے امریکا کو پاکستان پر دبائو بڑھانے کا موقع مل سکے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے سیکرٹری انکشاف کرچکے ہیں کہ عام انتخابات کو عالمی اسٹیبلشمنٹ سے خطرات لاحق ہیں۔سیا سی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے حوالے سے عدم برداشت کا رجحان ملک دشمن عناصر کے مذموم ایجنڈوں کی تکمیل کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔ اس لئے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکنان کو بھی ملکی مفاد کے خاطر برداشت و عدم تشدد سے کام لینا ہوگا ۔
پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ محمد اعظم نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف امریکہ اور بھارت کے شدید دباؤ میں ہے کہ پاکستان کا نام گرے لسٹ میں شامل کیا جائے، حتی کہ انہوں نے پاکستان کے قریبی اتحادیوں، چین اور سعودی عرب پر بھی اس سلسلے میں اپنے اعتراضات واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالا۔پچھلے ہفتے نگران وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ ان کی وزارت نے منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے ادارہ جاتی طریقہ کار کو بہتر بنا دیا ہے۔جبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی 2012 سے 2015 تک پاکستان کو گرے لسٹ کیا گیا تھا جس کے بعد ہم نے ایف اے ٹی ایف کے تمام مطالبات پورے کیے تھے تاہم اب اگر پاکستان کو گرے لسٹ کرتے بھی ہیں تو کوئی آفت نہیں آئے گی۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے اور گرے لسٹ ہونے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ماہ فروری میں ہی سابق وزیر خزانہ واضح کرچکے تھے ا کہ اجلاس میں ایک ہی راؤنڈ ہوتا ہے جس میں فیصلہ کرلیا جاتا ہے مگر اس بار ایسا نہیں ہوا جس پر ہمارے خدشات موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کو بلا وجہ زیادہ اہمیت دی جارہی ہے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ معیشت کا پہیہ چلتا رہیگا اور ہماری اسٹاک ایکسچینچ اسی طرح کام کرتی رہے گی۔
ملکی معیشت کے حوالے سے پاکستان آنے والے وقت میں مالیاتی دبائو کا یقینی سامنا کرے گا کیونکہ ملکی بھاری قرضوں کا ایک انبار سابق حکومت آنے والی مملکت کے لئے چھوڑ گئی ہے۔ سی پیک منصوبے کی راہ میں ملک دشمن عناصر جس قسم کی رکائوٹیں کھڑی کررہے ہیں اس کا پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچ سکتا ہے ۔ نیز ایسی تنظیمیں جن پر امریکا نے بھارت کی خوشنودی کے لئے دہشت گردی کا لیبل اور مملکت پر ان کی مالی معاونت کا الزام لگایا ہے۔ اس حوالے سے ریاست ملکی مفاد و غیر جانب داری کو مد نظر رکھے ۔ منی لانڈرنگ اور بلیک منی جیسے معاملات سے دنیا کے تمام ممالک متاثر ہیں۔ پاکستان کو عالمی دبائو میں آکر ایسے غیر مقبول فیصلے کرنے سے اجتناب کی راہ بھی اختیار کرنا ہوگی جس سے عالمی برادری کو یہ تاثر جائے کہ امریکا کا جھوٹا پروپیگنڈا دراصل اس کے فروعی مفادات ہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔
موجودہ نگراں حکومت سے اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ قلیل یا طویل مدتی پالیسی کوپارلیمنٹ کی عدم موجودگی اپنائے گی۔ کیونکہ یہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا حربہ رہا ہے وہ کمزور حکومت یا آمر کے مطلق العنان ہونے کا فائدہ اٹھا کر ایسے معاہدے کرلیتی ہے جس کے مضمرات سے پاکستان کو ہمیشہ نقصان پہنچتا ہے۔گو کہ اس وقت سیاسی حالات کا منظر نامہ ایک معلق پارلیمنٹ و مخلوط کمزور حکومت کی جانب اشارہ کررہا ہے ۔ اس لئے پاکستان کے تمام اداروں کو ایک صفحے پر آکر ریاست و عوام کی حفاظت کے لئے اپنے تمام اختلافات کو ایک جانب رکھنا ہوگا ۔ افغانستان میں امریکا کی موجودگی کی سبب خطے میں امن کو خطرات لاحق ہیں ۔ دوسری جانب روس نے ” داعش ” کے حوالے سے افغان حکومت پر ایک بار پھر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کئے ہیں وہ مستقبل کی منصوبہ بندی میں پاکستان کے لئے انتہائی دشوار حالات کی بھی نشان دہی کررہے ہیں۔ ریاست کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے موقف کو ٹھوس انداز میں عالمی برداری کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔
حلیف ممالک کی ترجیحات کا بنیادی مخرج ان کی ملکی مفادات ہیں۔ انہیں اعتماد میں لینا ہوگا اور امریکا سمیت بھارتی پروپیگنڈوں کا بھرپور جواب دینا ہوگا ۔ امریکا کی جانب سے بار بار افغان حکومت کے مخالف گروپوں کی پاکستان میں موجودگی کے الزامات کی اصل حقیقت کو جرات مندی سے سامنے لانا ہوگا کہ دراصل سی پیک منصوبے کی کامیابی سے پاکستان معاشی طور پر مضبوط ہوسکتا ہے ۔ اس لئے چین جیسے فطری دوست ملک کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔قطر جنگ اور ایران کے خلاف جنگ کا حصہ نہ بننے پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ناراضگی سے خائف ہونے کے بجائے ماضی کی پالیسیوں کو دوبارہ اپنانے کی گریز کی راہ اختیار کرنا پاکستان کے لئے اہم ہے۔ ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالنا امریکا و بھارتی گٹھ جوڑ کا نتیجہ اور وطن عزیز کے خلاف عالمی سازشوں کا ایک مذموم حصہ ہے۔ جسے ملک و قوم کو ملکر ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔