تحریر : منیر محمد کل پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے حتمی فیصلہ کرلیا کہ جون میں پاکستان کو دہشت گردی کے پروموٹرز کےطور پہ واچ لسٹ پہ رکھ دیا جائے گا، اگرچہ پاکستانی میڈیا اور آفیشلز اس بات کو غلط قرار دے رہے ہیں کیونکہ میٹنگ کے اعلامیے میں یہ بات شامل نہیں، اور نہ ہی اسکا اعلان کیاگیا ہے لیکن انڈین میڈیا کے بہت شور مچانے نے مجھے اس جانب متوجہ کیا تو انٹرنیشنل میڈیا بشمول راوٗٹرز اس بات کی تصدیق کررہا تھا کہ فیصلہ ہوچکا ہے لیکن چند ضروری مراحل باقی ہیں جن کی تکمیل تین ماہ میں ہوجائے گی جس کے بعد اسی سال جون میں پاکستان کو باضابطہ دہشت گردوں کے سپورٹر کے طور پہ نگرانی میں رکھا جائے گا۔ اس فیصلے سے پہلے پاکستان کو صفائی کا موقع دیا گیا لیکن پاکستان اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہا، چائنہ، ترکی اور گلف کوآپریشن کونسل نے اس امریکی تجویز پر اعتراضات اٹھائے لیکن بعد میں اپنے اعتراضات واپس لے لیے اور یوں ہم کہ ٹھہرے دہشت گرد۔ 2012 سے 2015 تک اس سے قبل بھی پاکستان اس لسٹ پہ رہ چکا ہے۔ حالانکہ دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں ہمارے اسی ہزار شہری شہید ہوچکے ہیں، ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد سمیت پچھلے پندرہ سالوں میں پاکستان اس جنگ میں120 بلین ڈالرز خرچ کرچکا ہے صرف کوئٹہ اور پارا چنار کی مثال لے لیں تو ایک ایک سانحے میں سینکڑوں شہری شہید ہوئے، سانحہ اے پی ایس میں پوری انٹرنیشنل برادری کی ہمدردیاں ہمارے ساتھ تھیں لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستانی حکومتوں نے کبھی بھی انٹرنیشنل لیول پہ پاکستان کا مقدمہ کامیابی سے نہیں لڑا اور نہ ان قربانیوں کو عالمی لیول پہ اجاگر کیا۔
البتہ بعض پاکستانی شخصیات اپنی زاتی حیثیت میں پاکستان کا دہشت گرد تشخص مٹانے کی اپنی سی کوشش کرتی رہی ہیں، ان میں سے ایک موثر آواز طاہر القادری کی ہے۔ ماڈل ٹاون مسئلے کو مناسب وقت نہ دینے کے بجائے دوسری سرگرمیوں میں وقت دینے کے علاوہ بھی مجھے طاہر القادری کی بہت سی باتوں سے شدید اختلاف ہے لیکن پچھلے بیس سال سے عالمی لیول پر پاکستان اور اسلام کے دفاع پر انکی کوششوں کی تعریف نہ کرنا بددیانتی ہوگی جس کی ابتدا1999 میں اوسلو میں عالمی امن کانفرنس سے ہوئی۔ اگلے سال استنبول میں یورپین یونین کی مسلم آف یورپ کانفرنس میں ساٹھ پروفیسرز مقررین کے درمیان پاکستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر قادری کی نوٹ سپیکر تھے۔
برطانوی پارلیمنٹ کے ہاوس آف کامنز کی ڈیفینس کمیٹی نے اپنے سیشن 2002-2003 کی چھٹی رپورٹ میں عالمی لیول پر انکی امن کی کوششوں کو سراہا۔ بعد ازاں ڈنمارک میں سکنڈے نیویا امن کانفرنس، امن کانفرنس سڈنی، اسٹریلین پارلیمنٹ میں امن پہ خطاب، انسٹیٹوٹ آف پیس امریکہ، جارج ٹاوٗن یونیورسٹی واشنگٹن میں خطابات، واروک یونیورسٹی برطانیہ میں تربیتی کیمپ برائے امن کوششوں کے مدنظر، اقوام متحدہ نے منہاج القرآن کو مشیر کا درجہ بھی دیا۔ سابقہ برس اوسلو میں امن کانفرنس ہوئی اور2018 یعنی اس سال میں کوپن ہیگن اور اور ہالینڈ میں الہدایہ کے نام سے امن کے تربیتی کیمپس میں بھی ڈاکٹر قادری پیس ٹریننگ کیمپس کے روح رواں ہونگے۔ یورپین یونین کے مختلف اجلاسوں میں منہاج القرآن کے نمائندگان کی شرکت بھی گزشتہ برس شروع ہوچکی اور امکانات ہیں کہ یورپین یونین میں بھی انکو مشیر کا درجہ مل سکتا ہے۔
اسکے علاوہ آج سے نو سال قبل ڈاکٹر قادری نے پاکستان سے دہشت گردی کے خلاف اتنی طاقتور آواز اٹھا دی تھی کہ کسی کے لیے اس سے اختلاف کی گنجائش نہیں بچی تھی کیونکہ انہوں نے قرآن پاک اور صحیح احادیث کا مستند نچوڑ چھ سو صفحات کے اس فتوے کی شکل میں پیش کردیا تھا، جو کہ بعد ازاں انگلش، نارویجن، فرنچ، عریبک اور بہت سی دوسری زبانوں میں شائع ترجمہ ہوکر عوام و خواص تک پہنچا۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کی نظریاتی جڑیں کاٹنے کے لیے پچیس کتابوں پہ مشتمل امن نصاب بھی دے دیا۔ جس سے پاکستان تو فائدہ نہ اٹھا سکا لیکن بھارت سے تعلق رکھنے والی 72سے زائد شخصیات نے اپنی حکومت کوایک مشترکہ خط لکھ کر سفارش کی دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مرتب کردہ نصاب سے فائدہ اٹھانے کی سفارش کی جس پر حکومت نے اس نصاب کاجائزہ لینے کے لیے معاملہ وزارت قانون کوارسال کرنے کافیصلہ کیا تاکہ وہ اس نصاب کاجائزہ لے کر اپنی سفارشات بھارتی حکومت کوارسال کرے جس کے بعد ہندوستان کے کچھ تعلیمی اداروں نے اس کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنالیا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہماری حکومتیں نہ صرف خارجہ کے محاز پہ اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں اور عالمی فورم پاکستان کا موثر دفاع کریں وہ ریمنڈ ڈیوس کا کیس ہو، کلبھوشن یادیو کا کیس ہو، سرحدوں پہ پڑوسی ملک کی جارحیت کا معاملہ ہو یا کشمیر میں ہونے والے مظالم ہوں۔ اندرونی محاز پہ کرنے کے کام، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور دہشت گردوں کے حق میں بیان دینے کی سزا عمر قید مقرر کی جائے۔ دینی مدارس، جماعتوں، تنظیموں اور شخصیات کو ملنے والے غیر ملکی فنڈنگ پر پابندی عائد کی جائے، دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے تمام ادارے فوج کے ماتحت کئے جائیں اور مدارس کے نصاب پر نظر ثانی کی جائے۔ دہشتگرد گروپوں اور ان کے حمایتیوں کے خاتمے کے لئے وار آن ٹیرر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پاکستان کی جنگ قرار دیا جائے۔ کالعدم تنظیموں کے نام پر ہی نہیں ان کے کام پر بھی عملاَ پابندی عائد کی جائے اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے لئے فوج کے بجٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ آئندہ کبھی ہم پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگانے کی بات نہ ہوبلکہ ہم آگے بڑھ کر ان ممالک کو دہشتگرد ثابت کریں جو کشمیر، فلسطین اور شام میں انسانیت کے قاتل ہیں تاکہ ہم آئندہ گرین رہیں اور اصل قاتل اس گرے لسٹ میں شامل کیے جائیں۔