تحریر : علی عمران شاہین بابا جی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک ایک دعا کی عملی تعبیر اگر دیکھنی ہو تو حرمین شریفین کا سفر ہی اس کا مظہر ہے۔ یہاں کے رہنے والے لوگوں کے بھی کیا ہی کہنے کہ یہاں کسی فرد کو سلام کہے یا سلام کا جواب دیئے بغیر گزرتا نہیں دیکھا۔ سڑک پر قدم رکھیں تو ہمہ وقت گزرتے عازمین حج و عمرہ کیلئے ٹریفک رک جاتی ہے، اگرچہ گزرنے والا ایک ہی کیوں نہ ہو۔ گاڑیوں میں سفر کرنے والے سبھی مقامی لوگ چہرے پر ہلکی مسکراہٹ سجائے اشارے سے سلام کہتے گزرتے ہیں۔ ساری سعودی قوم اور ان کی وجہ سے تارکین وطن نے یہ سبق پڑھ رکھا ہے کہ راستوں اور سڑکوں پر چلنے کا پہلا حق پیدل لوگوں کا ہے… مدینہ طیبہ میں ایک مرتبہ ہوٹل سے نکلنا ہوا، سامنے سڑک پر اتفاق سے ٹریفک پولیس کا ایک کھڑا تھا، ہماری ویل چیئر دیکھتے ہی اس نے ٹریفک ہی روک دی، پھر اشارے سے مسکرا کر سلام لیا اور جب ویل چیئر گزری تب دوبارہ ٹریفک رواں ہوئی۔وہی عرب قوم جو معمولی باتوں پر نسل در نسل قتل اور لڑائیاں کرتی تھی آج اس قدر مہذب، منظم اور مشفق و مہربان ہے کہ مہینوں اور برسوں میں باہم لڑائی جھگڑے یا قتل کی خبر دیکھنے سننے کو نہیں ملتی۔
پیارے نبی نے فرمایا کہ سوموار اور جمعرات کے روز انسانوں کے اعمال اللہ کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال پیش ہوں تو میں اس وقت روزے کی حالت میں ہوں… اسی روزے کا اہتمام اگر اس وقت دنیا کے کسی مقام پر صحیح طور پر ہوتا ہے تو وہ حرمین شریفین ہیں۔ دونوں ایام کی نماز عصر ادا ہوتے ہی مقامی لوگوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر کھجوروں کی تقسیم شروع ہو جاتی ہے۔ حرمین شریفین میں ہر طرف دستر خوان بچھ جاتے ہیں، جہاں کھجور، آب زم زم، قہوہ اور نرم روٹی وغیرہ سے ہلکی پھلکی افطاری کا اہتمام ہوتا ہے۔ یہ اہتمام مقامی لوگ اپنے طور پر کرتے ہیں تو ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عازمین اس کے دسترخوان پر اس کے مہمان بن کر بیٹھیں۔ غیر عرب خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں چونکہ حدیث پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی روایت انتہائی کم ہے، سو ہمارے خطے کے لوگ دستر خوان سجتے ہی جو سامنے آئے کھانا پینا شروع کر دیتے ہیں جس سے ماحول عجیب سا لگنے لگتا ہے۔
اس پر مستزاد کہ ہمارے جمعة المبارک کا روزہ رکھ لیتے ہیں کہ جناب آج تو مبارک دن ہے حالانکہ اس دن کا تو تنہا روزہ رکھنا منع کیا گیا ہے۔عازمین حج و عمرہ کی آمدورفت تو یہاں کا معمول ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے باسی ہر وقت ہر ایک مہمان سے ایسا سلوک کرتے ہیں کہ جیسے وہ پہلی اور آخری بار کسی مہمان کی مہمان نوازی کر رہے ہوں۔ ٹریفک جام اگر دیکھی تو وہ صرف مدینہ طیبہ میں دیکھی،جہاں گاڑیاں اس لئے دور تک کھڑی رہتی ہیں کہ یہاںسے عازمین عمرہ نے لگاتار گزرتے رہنے ہوتا ہے۔ یہاں بھی اگر کسی شخص کو ناک بھوں چڑھائے دیکھا نہیں جا سکتا کہ وہ اس عمل سے پریشان ہے۔ یہاں ایک نہیں ہزاروں لوگ ویل چیئرز لے کر چل رہے ہوتے ہیں لیکن مشکل مرحلے جہاں کہیں ویل چیئر کے اوپر چڑھنے میں دشواری آئے، اکثر و بیشتر مقامی لوگ فوراً لپک کر ویل چیئر اٹھا کر آگے بڑھا دیتے ہیں تو سلام بھی کہتے جاتے ہیں۔ یہاں سبھی لوگوں کی گٹھی میں ہے کہ سلام کہتے وقت پورا سلام ”السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ” اور جواب دیتے وقت پورا سلام ”وعلیکم السلام و رحمة اللہ و برکاتہ” کہنا ہے۔
Namaz
نماز اور تلاوت قرآن کی محبت اور تڑپ سعودی اور عرب قوم کی رگ و پے میں ہے۔ ہر گاڑی میں جائے نماز، چٹائی اور پانی کی بوتلیں ضرور ہوتی ہیں۔ جہاں کہیں نماز کا وقت ہو، بغیر انتظار کئے سڑک کنارے چٹائیاں اور جائے نماز بچھا کر نماز کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کیلئے کوئی اتنا بھی توقف نہیں کرتا کہ چند منٹ بعد ہوٹل یا مسجد پہنچ کر نماز ادا کریں گے کہ پتہ نہیں موت کب آ جائے اور اپنی نماز تو ادا کر کے رخصت ہوں… سبحان اللہ… اس قوم کے کیا ہی کہنے… ہر سعودی شہری کے موبائل میں قرآن ضرور ہوتا ہے اور حرمین کے اندر اور باہر عرب مرد و خواتین ہی سب سے زیادہ تلاوت قرآن میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کہیں سے کوئی فراغت ملی، وقت ضائع کئے بغیر قرآن کھولا اور تلاوت شروع کر دی، ان لوگوں کا سب سے بڑا شغل یہی ہے۔
سرزمین حرمین شریفین پہنچ کر اپنے ملک و آزادی کی قدر وقیمت کا بھی بڑا احساس ہوا۔ بیت اللہ کے پاس بیٹھے ایک ترک شہری سے گفتگو ہوئی، جسے عربی سے اچھی واقفیت تھی۔ اسی روز یہاں ترک صدر رجب طیب اَردوان بھی عمرہ کیلئے پہنچے تھے۔ میں نے سوال کیا کہ حرم مکی میں ترک شہری بہت زیادہ نظر آ رہے ہیں، اس کی وجہ…؟ وہ گویا ہوا کہ ابوجہل کی اولاد (مصطفی کمال اتاترک کے پیروکاروں) سے ہمیں اللہ نے نجات عطا کی ہے۔ رجب طیب اَردوان کے حکومت سنبھالنے کے بعد ہمیں آزادی ملی ہے تو ہر ترک ادھر ہی لپکتا ہے اور بار بار لپکتا ہے کہ زندگی میں جو پہلے کمی کوتاہی رہ گئی، اسے دور کر لیا جائے۔ ابو جہل کی باقیات اب بھی ہمارے ملک میں متحرک ہیں، اللہ انہیں نابود کرے۔
دنیا بھر کے مسلمان پاکستان کے بارے میں یہی کہتے پائے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے، یہاں اسلام اور اسلامی تحریکیں بڑی مضبوط و منظم ہیں، پاکستان ایٹمی قوت ہے، اس کی فوج بڑی منظم، مضبوط اور لوگ بڑے اسلام سے محبت کرنے والے ہیں۔ جدہ ایئرپورٹ پر تو ایک مصری نوجوان پاکستانی عازمین عمرہ کے مسلسل مشاہدہ کے بعد کہنے لگا کہ کیا پاکستان میں سبھی لوگوں کی داڑھیاں ہوتی ہیں؟ (اس کی وجہ حج و عمرہ کیلئے جانے والوں کی اکثریت کا دین کی جانب راغب ہونا یا پھر وہاں اکثر کا واپسی سے پہلے داڑھی رکھ لینا بھی ہے۔ باقی عالم اسلام میں تو داڑھی مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ ان کے ملکوں میں حالات نامواقف ہیں۔ اسلام پر عمل کی آزادی کی جو نعمت اہل پاکستان کو میسر ہے، اس کا تو اندازہ یہاں آنے کے بعد اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے ملنے اور ان کے حالات جاننے کے بعد صحیح طور پر ہوتا ہے)۔
Masjid e Nabvi
مسجد نبوی کے صحن میں بیت اللحم فلسطین کے ہائر سیکنڈری سکول کے طلبہ و اساتذہ کے ایک گروپ سے ملاقات ہوئی تو وہ جماعة الدعوة اور پاکستان کے بارے احوال جانے کے بعد بہت خوش ہوئے۔ استفسار پر کہنے لگے کہ اسرائیل سے ڈر کیسا…؟ درخت اگر بغیر پانی کے جواں نہیں ہوتا اور پھل نہیں دیتا تو آزادی بغیر خون دیئے کیسے مل سکتی ہے…؟ ہم تو بس اس آزادی کی منزل کیلئے شہادتوں کو گلے لگا رہے ہیں کہ ہماری کوئی نہ کوئی اگلی نسل تو ضرور آزادی کی فضائوں میں سانس لے گی۔ شب و روز کی لاتعداد دعائوں، التجائوں اور حسرتوں سے بسنے والی اس دنیا کے آج 21دن پورے ہو رہے ہیں۔ دل ایسا اداس ہے کہ جیسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ سانس ایسے گھٹ گھٹ کر آ رہی ہے کہ جیسے زندگی کے خوبصورت ترین دن اب مکمل ہو چکے اور اب آگے اندھیرا اور کانٹے ہیں۔ آج احساس ہو رہا تھا کہ دنیا کیوں بکری کا مردار و بدبودار بچہ ہے؟ کیوں قید خانہ ہے؟ کیوں دھوکہ کا سامان ہے؟ ہر قدم ہر گھڑی دل کی بے قراری اور اضطراب بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ انہی کیفیات میں نماز ظہر ادا کی تو آسرا تھا کہ ابھی تو نماز عصر باقی ہے۔ نماز عصر ادا کرنے کے بعد آخری بار کے طواف کے چکر شروع ہوئے۔ قدم بوجھل سے محسوس ہونے لگے۔ اعصاب وقویٰ ڈھیلے سے پڑنے لگے۔
اب تو آنسو اور آہیں روکنا اور آنکھوں اور سینے میں دبانا مشکل ہو رہا تھا۔ اس جدائی کا تصور نیزوں کی تیز نوکیلی انیوں کی طرح پیوست ہوتا محسوس ہو رہا تھا، اشکوں میں ڈوبی نگاہیں بیت اللہ سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہیں تھیں، لیکن کیا کریں کہ ہر آنے والے کو بہرطور جانا ہی تو ہے۔ پھر سے ملاقات کی آس جینے کا سہارا دیتی ہے ورنہ تو قلب و روح تک افسردگی اور غمناکی ہر قدم کے ساتھ گمبھیر تر ہوتی جاتی ہے۔ آخری دیدار اور پھر واپسی کیلئے قدم… ایک قدم آگے تو ساتھ ہی نگاہ بار بار پیچھے کہ چلتے چلتے کچھ دیدار اور سہی… لیکن پھر یہ بھی ختم… اور اب آب زم زم… جی بھر کے پیو، کہ پھر نجانے کب یہ آب شفا، آب دعا، آب غذا اس طرح، اس قدر ملے گا… قدم آگے بڑھے تو نگاہیں حرم کے درودیوار کو دیکھتے ہی جاتیں کہ انہیں بھی دیکھنا نجانے کب نصیب ہو۔ چلتے چلتے یوں لگے کہ جیسے ایسی کوئی متاع گم کر کے جا رہے ہیں جس کے بغیر جینا محال ہے۔ رات گئے طیارے نے اڑان بھری تو کیفیت وہی کہ کوئی سواری یا سفر کی دعا پڑھتا نہ پایا۔
تھکن سے نیند نے آ لیا۔ وضو، جائے نماز کا اہتمام تو نہ تھا، سو دبئی ایئرپورٹ پر نماز کا پروگرام بنا لیکن یہ کیا…؟ اس طیارے میں تو اکثروبیشتر تو عازمین عمرہ تھے جن میں سے کسی ایک نے بھی نماز فجر کی پروا نہیں کی۔ نماز فجر کیلئے مسجد میں سوائے میرے کوئی اور نہ تھا، اگرچہ یہاں قیام 4گھنٹے سے زائد تھا۔ پھر بھی ایسا ہی حشر نماز ظہر و عصر کے ساتھ کیا گیا کہ وقت ہوتے بھی کسی ایک کو نماز ادا کرتے نہ دیکھا کہ سفر آگے تو خیالات پیچھے ہی تھے اور انہی خیالوں اور پھیلتے اندھیروں میں طیارے نے سیالکوٹ کی زمین کو چھوا تو دل کی بے قراری نے ایک بار پھر آنکھوں کو آنسوئوں کا غسل دے کر سفر اختتام تک پہنچایا۔