تحریر : اریشہ فاروق مایہ ناز باکسر محمد علی کی نماز جنازہ کیلیفوریا میں ادا کردی گئی۔ نماز جنازہ میں 18 ہزار سے زائد افراد شریک تھے۔ جن میں دنیا کی کئی معروف شخصیات نے بھی شرکت کی۔ عظیم شخصیت محمد علی کے حوالے سے کچھ لکھنا ایسا ہوگا جیسے سورج کو چراغ دیکھانا، تاہم ان کی زندگی پر اگر ایک نظر ڈالنے کی جسارت کر رہی ہوں۔ محمد علی دنیا باکسنگ کے مایہ ناز باکسر 17جنوری 1942ءکو امریکی ریاست کنٹکی کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے ۔ والدین نے نام کیسیئس کلے رکھا۔ محمد علی نے 12 سال کی عمر میں ایک مقامی جمنازیم میں باکسنگ کرئیر کی آغاز کیا۔ انہوں نے 29 اکتوبر 1960 میں آبائی قصبے لوئسویل میں پہلا مقابلہ جیتا۔ 1960ءسے 1963ءتک کل 19 مقابلے کھیلے جن میں سے ایک میں بھی انہیں شکست نہیں ہوئی۔
1960ءمیں محمد علی نے اولمپک میں سونے کا تمغہ جیتا۔ جب وہ تمغہ لے کر واپس آئے تو ایک ریستوران میں انہیں صرف اس لیے نوکری نہ مل سکی کہ وہ سیاہ فام تھے۔ اس واقعے کے سبب انہوں نے اپنا سونے کا تمغہ دریا اوہائیوں میں پھینک دیا۔ بعد ازاں 1996ءمیں جب انہوں نے اٹلانٹا اولمپک کی مشعل اٹھائی تو انہیں ایک سونے کا تمغہ دیا گیا جو اس تمغے کا بدلہ تھا جو انہوں نے دریا میں پھینک دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ “impossible is potential Impossible is temporary Impossible is nothing
اکھاڑے میں کیسیئس کلے کا کردار غیر معمولی رہا۔ وہ اپنے مخالفیں کو کھلا چیلنج دیتے اور جیتتے۔ باکسنگ میں باکسرز کے عام انداز ”ہاتھ چہرے پہ رکھ کر دفاع کرنا“کے برخلاف کیسیئس کلے ایک منفرد انداز کے حامل تھے۔ 1964ءمیں کیسیئس کلے نے اسوقت کے چمپئن،سونی لسٹن، کو کھلا چیلنج کیا اور اسوقت کے مایہ ناز باکسر کو مسلسل سات مقابلوں میں زیر کیا۔ اس وقت کی فتح کے بعد کیسیئس کلے نے اسلام قبول کر لیا اور محمد علی بن گئے۔ ان کے مطابق کیسئیس کلے ایک غلامانہ نام تھا۔ 40 سال کی عمر میں محمد علی ریٹائر ہو گئے۔ انہوں نے باکسنگ کے بیس سالہ کرئیر کے دوران 61 مقابلے کھیلے جن میں سے 56 میں فتح ہوئی اور صرف پانچ میں شکست۔ انہیں تین مرتبہ دنیا کا سب سے بڑا اعزاز ”ورلے ہیوی ویٹ باکسنگ چمپئن“ ملا اور تین مرتبہ یہ اعزاز حاصل کرنے والے آپ واحد کھلاڑی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چمپئن شپ بھی جیتی۔
Muhammad Ali
برطانیہ میں بی بی سی ٹیلیویژن اور illustrated امریکی رسالے نے انہیں بیسویں صدی کا عظیم کھلاڑی قرار دیا۔ محمد علی نہ صرف عظیم باکسر تھے بلکہ ایک بہت اچھے مسلمان، ایک شاعر، انسانی حقوق کے علمبردار اور ایک مشفق باپ بھی تھے۔ اسلام سے آپ کو خاص رغبت تھی۔ 2002 ءمیں لیجینڈ باکسر کو جب ہالی وے آف فیم میں انٹری دینے کا فیصلہ ہوا تو آپ نے آقائے دو جہاں کے نام کی بے حرمتی کے خدشے کی وجہ سے اپنا نام زمین پر لکھنے کی اجازت نہ دی۔ اس واقعے کی وجہ سے ہالی وئے آف فیم کی انتظامیہ نے آپ کے نام کا ستارہ زمین پر لگانے کی بجائے دیوار پر لگا لیا۔ اور یہ ہالی وئے آف فیم کا واحد ستارہ ہے جو زمین پر نہیں دیوار پر ہے۔
ایک دفعہ ایک انٹرویو کے دوران محمد علی نے کہا میں سگریٹ نہیں پیتا مگر ایک ماچس ضرور اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ جب میرا گناہ کرنے کو دل کرتا ایک تیلی جلا کر اپنے ہاتھ پہ رکھ لیتا ہوں اور خود سے سوال کرتا ہوں محمد علی یہ آگ نہیں برداشت کر سکتے دوزخ کی کیسے کرو گے۔ ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ آپ حاضر جواب بھی تھے۔
Muhammad Ali
ایک امریکی صحافی نے آپ سے پوچھا کہ آپ کو اسامہ بن لادن کے ہم مہذہب ہونے پہ کتنی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔ آپ نے مکا دکھا کر جواب دیا۔ آپ کو ہٹلر کے ہم مہذہب ہونے پہ کتنی شرم محسوس ہوتی ہے۔ آپ فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے تھے۔ اور نسل پرستی کے مخالف تھے۔ سانس کی تکلیف کی وجہ سے انہیں 2 جون 2016ءکو اسپتال شفٹ کیا گیا۔ اور 3 جون 2016 ءکو دنیا نہ صرف ایک عظیم باکسر بلکہ ایک عظیم انسان سے بھی محروم ہو گئی۔ وہ چلے تو گئے ہیں مگر اپنے چاہنے والوں کے دلوں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔