تحریر : حفیظ خٹک یہ بتائیں بابا کہ ہم پاکستان کی 70ویں یوم آزادی منا رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟ مجھے کچھ نہیں کہنا ہے ، کیوں بابا، ایسا کیوں ؟ دیکھا جب یہ ملک بنا تھا اس کے ایک سال کے بعد میری پیدائش ہوئی اور اب جبکہ اس ملک کی 70ویں سالگرہ آپ منا رہے ہیں تو میری عمر 60برس ہوگئی ہے اور آج تک میں نے کبھی اپنی سالگرہ نہیںمنائی ہے اور نہ ہی مجھے یہ یاد ہے کہ میں نے اس ملک کی سالگرہ منائی ہو۔ میںنے تو جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے کام ہی کر رہا ہوں۔ آپ یہ باتیں چھوڑیں اور بتائیں کہ آپ میرے ریڑھی میں رکھے پھلوں میں سے کیا لینا چاہتے ہیں ، وہ لیں اور اپنا وقت ضائع نہ کریں ۔بابا کی ان باتوں نے وہاں موجود افراد کو اپنی جانب متوجہ کردیا ۔ اس دوران چند لمحوں کیلئے خاموشی ہوئی تاہم سینے پر اک جھنڈا لگائے نوجوان نے کہا کہ بابا آپ یہ کسی باتیں کررہے ہیں ؟ ہم پاکستانی ہیں اور ہمیں اپنے ملک پر ناز ہے ۔ ہم اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہمارا ملک اسلام کے نام پر آزاد ہوا اور اس کی تعمیر میں بڑی قربانیاںدی گئیں ۔ آج جبکہ اس کا یوم آزادی قریب آرہا ہے اور آپ مایوسی کی سی باتیں کر رہے ہیں۔
بابا نے اس بار سب کی جانب دیکھا اور کہا کہ دیکھو پہلے یہ ایک صاحب آئے اور انہوں نے مجھ سے چیز لینے کے بجائے اسی حوالے سے بات کا آغازکردیا اب جبکہ یہ ایک فرد نہیں ہے اور ان کے ساتھ آپ سب جمع ہوگئے ہیں تو میں اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔ میں ایک مزدور ہوں اور برسوں سے محنت کررہا ہوں ،یہ کام ہمارے نہیں ہیں ۔ ہم نے تو یہ دیکھنا ہے کہ ہمارے پھل فروخت ہوں اور ہم سورج ڈھلنے سے قبل گھر اپنی مزدوری لے کر پہنچ جائیں ۔ کچھ وقت اپنے بچوں کے ساتھ گذاریں اور پھر اگلے دن کی تیاری کریں۔ میں یہ باتیں اس لئے کر رہاہوںکہ میں آپ سب کا اور اپنا وقت ان باتوں میں ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ میں تو یہ چاہتا ہوں کہ آپ مجھ سے پھل خریدیں اور اپنا راستہ لیں ،آگے بڑھیںاور زندگی میں مصروف ہوجائیں ۔ بابا کا انداز اس بار کچھ جارہانہ سا لگا ، دو افراد تو اسی وقت چلے گئے باقی میں سے کچھ نے پھل خریدے اور وہ بھی چل دیئے ۔ تاہم راقم وہیں پر موجود رہا ۔ بابا نے نظر اٹھا کر آسمان کی جانب دیکھا اور لب ہلائے پھر اپنے پھلوں کو ترتیب سے رکھتے ہوئے کچھ مزید پڑھنے لگے ۔ چند لمحوں کے اس عمل کے بعد ان کی نظر راقم پر پڑی اور گویا ہوئے ، جی آپ نہیں گئے ،کیوں ؟ اگر آپ کی پھل لینے کی گنجائش ذرا کم ہے تو بھی مجھے بتادیں اور اگربالکل نہیں ہے تو بھی میں آپ کو پھل دیدونگا ۔ نہیں ، بابا مجھے آپ کے پھل نہیں چاہئے ، میں یہاں جو کھڑا رہا وہ چند باتوں کیلئے ہی کھڑا ہواہوں ، اب اگر آپ اجازت دیں تو میں بات کروں بصورت دیگر میں بھی چلا جاتا ہوں ۔ بابا مسکرائے اور کہا کہ دیکھو اور کوئی ضرور کرنا یہ ملک کی ،اور اسکی سالگرہ کی باتیں نہ کرنا ۔ بابا ،ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ؟
مجھے یہ جان کر عجب سا لگ رہا ہے ، ایک جانب مجھے ہر فرد ہی سینے پر قومی جھنڈالگائے نظر آتاہے ، گاڑیوں پر چھوٹے اور بڑے جھنڈے نظر آرہے ہیں ، حتیَ کہ آپ کے ارد گرد بھی جو دیگر پھل فروش ہیں وہ بھی پاکستان کے جھنڈے لگائے ہوئے اور آپ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے ہیں ، کیوں ؟ دیکھو ، ہر بات کی تہہ میںایک بات ہوتی ہے اور میری اس بات کی تہہ میں بھی اک بات ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائے اور اپنے پھلوں پر کپڑا مارتے ہوئے میری بات کو نظر انداز کرنے لگے ۔ تاہم اس بار راقم قدرے جذباتی سا ہوا اور ان سے کہا کہ اب اگر آپ نہیں بتائیں گے تو یہ میرے سینے پر آ پ جھنڈا دیکھ رہے ہیں نا، میں اسے اتاردونگا۔ بابا یکدم راقم کی جانب غور دے دیکھنے لگے اور کہا کہ نہیں ہرگز نہیں آپ ایسا قطعی نہیں کریں گے ۔ یہ جھنڈا اس قابل نہیں ہے کہ اسے اتار دیاجائے بلکہ اس جھنڈے کا مقام تو آسمان کی بلندیاں ہیں ۔ اسے جھنڈے کو تو اللہ بلندرکھنے کی ذمہ داری دی ہیں ۔ اس ملک جھنڈا ہے کہ جو کہ اسی اللہ کے نام پر ، اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اور اس کے دین کے نام پر بنا ۔ آخر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ میرے سامنے آپ اس جھنڈے کو سینے سے اتاریں ۔ میں تو اس جھنڈے کو زمین سے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھتا ہوں ، جھنڈے کو کیا میں تو اس ملک کے نام کو بھی نیچے پڑا دیکھتا ہوں تو اسے بھی اٹھا کر رکھتاہوں ، اور اس وقت آپ مجھے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اسے سینے سے اتار دیں گے ۔ میںایسا آپ کو نہیںکرنے دونگا۔
بابا ، اس با رخاصے جذباتی ہوگئے ۔ آسمان کی جانب دیکھااور پھر اپنی چادر ،چہرے پر پھیرتے ہوئے بولے کہ اب آپ پوچھیں ، جو جی میں آئے پوچھیں ۔ راقم نے ان کی آنکھوںمیں آنسوﺅں کو دیکھا اور اک لمحے کو یہ خیال آیا کہ بابا کو اسی حالت میں چھوڑ کر چل دینا مناسب ہوگا کیونکہ کسی کی آنکھوں میں نمی آجائے اور وہ بھی ایسی کسی بات پر جس کا علم نہیں، بہرحال راقم نے ان سے پوچھا کہ آپ صرف ایک سوال کا جواب دیدیں اور سوال یہ ہے کہ آپ یوم آزادی کو کیوں نہیں مناتے ؟ بس یہی سوال ہے اور کوئی بات ہے تو وہ بھی پوچھ لیں کیونکہ میں آپ کے اس سے زیادہ سوالوں کے جواب دینے کا پابند نہیں ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرادیئے ۔ نہیں بابا اور کوئی سوال نہیں بس آپ جواب دیں اور اس جواب کا آغاز کر دیں۔
بابا نے ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا اور پھر کہنے لگے کہ دیکھو ، میں ایک مزدور ہوں روزانہ مزدوری کرتاہوںاور اس طرح سے اپنی ذمہ دارریاں پوری کر رہا ہوں ۔ ملک کے حالات پر میری نظر رہتی ہی نہیں گہری نظر رہتی ہے ۔ میں قیام سے اب تلک کے حالات سے باخبر ہوں ۔ میںجانتا ہوں کہ اس ملک کے سیا ستدان کس طرح کام کرتے ہیں اور ان کے ساتھ حکومت کس طرح کام کررہی ہے۔ دینی جماعتیں کس طرح کام کررہی ہیں اور غیر سیاسی تنظیمیں جنہیں آپ این جی اووز کہتے ہیں وہ کس طرح سے کام کررہی ہیں ؟ اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں اسلام کے نفاذ کیلئے کیا کام ہورہا ہے اور اب تلک ہمارا ملک کیسے چل رہا ہے؟ بابا کی اچانک سے یہ ساری باتیں سن کر راقم تو جیسے سکتے میں آگیا ہو، کچھ اسی طرح کی کیفیت ہوگئی کیونکہ بظاہر مزدور نظر آنے والا یہ بابا اس قدر گہری نظروں سے ملک کے حالات کا کو دیکھتے ہیں ۔ بہرکیف ،راقم نے ان سے کہا کہ بابا آپ اپنی بات کوجاری رکھیں ۔ دیکھو اس ملک کے وزیر اعظم ہیں بلکہ اب تو وہ سابق ہوگئے ہیں ان کا نام نواز شریف ہے ، انہوںنے اس ملک پر دیکھا جائے تو اک طویل مدت سے حکمرانی کی ہے ۔ پنجاب صوبہ میں برسوں سے انہی کی ہی حکومت رہی ہے آپ ان کا حال دیکھیں اور ان کا کردار دیکھیں ۔ انہیں اس ملک کی سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا اور یہ بات یونہی نہیں کہی سپریم کورٹ نے بلکہ اس فیصلے کیلئے طویل عرصے تک تحقیقات ہوئیں اور اس کے بعد فیصلہ ہوا۔ نواز شریف کے وکلاءبھی تھے جنہوںنے بھاری رقمیں لے کر وزیراعظم کا مقدمہ لڑا لیکن سپریم کورٹ نے دونوں جانب کی باتیں اور دلائل سننے کے بعد انہیں ناہل قرار دیدیا ۔ اب اس بات انہیں یہ شور نہیں کرنا چاہئے جو وہ گذشتہ کئی دنوںسے کررہے ہیں۔ اسی نواز شریف کی ایک اور بات بھی میں بتاچلوں اور وہ یہ ہے کہاس نے وزیر اعظم بننے کے بعد کراچی میں سندھ گورنر ہاﺅس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ سے ملاقات کی تھی اور انہیں یہ کہا تھاکہ میں ان کی بیٹی کو امریکی سے جلد رہائی دلواکر وطن واپس لے آﺅنگا۔
آپ جانتے ہو کہ یہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کون ہے ؟ راقم نے ہلکا سا سر ہلا کر کہا کہ جی میں جانتا ہوں ۔ اس کے بعد بابا نے مزید کہاکہ نواز شریف نے آج تلکوہ وعدہ پورا نہیں کیا، کیوں ؟ وہ اللہ کو کیا جواب دے گا ؟ جبکہ مین یہ بات جانتا ہوں کہ وہ مظلوم ہے اور اس نے کوئی ایساجرم نہیںکیا کہ جس کے بل پر انہیں اس قدر طویل سزا دی گئی ہے۔ وہ اک ماہر تعلیم تھیں اوراس ملک میں وہ اس ملک کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتی تھیں لیکن ایسا نہیں ہوا اور انہیں منظم منصوبہ بندی کے ذریعے 86برسوں کی سزا سنادی گئی ۔ اب ایسا لگ رہاہے کہ اس ملک کی سیاسی ، مذہبی اور دیگر سب جماعتیں سو گئیں ہیں کسی کو بھی ان کا خیال نہیں ہے۔
بہرحال اس بات کو بھی ایک جانب رکھیں آپ یہ دیکھیں کہ اس ملک کو جس سائنسدان نے ایٹمی قوت بنایا اس کے ساتھ ہماری حکومت نے کیا سلوک کیا اور وہ آج بھی کس حال میں ہے۔ جبکہ یہ دیکھا جانا چاہئے کہ پڑوسی ملک بھارت میں انہوں نے اپنے اس سیاستدان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا اور یہاں ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ اس کے بعد ایک اور خاتون کا بھی میں ذکر ضرور کرنا چاہوںگا ، وہ خاتون کہ جس کے شوہر کو اس سے بچھڑے 12برس ہوگئے ہیں اور وہ اس شوہر کی تلاس میں گھر سے نکلیں ۔ اس کا نام امنہ مسعود جنجوعہ ہے اور وہ اس کی جدوجہد کے نتیجے میں اب تلک 800سے زائد لاپتہ افراد اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہیں لیکن اس کا شوہر ابھی تک لاپتہ ہے ۔ وہ آج بھی یہ بات کرتی ہیںکہ اگر ان کے شوہر نے کوئی بھی غلط کام کیا ہے تو اسے عدالت میںلایاجائے اور انہیں اس غلطی کی سزا دی جائے لیکن انہیں لاپتہ تو نہ رکھا جائے نا۔۔۔میں اور کس کی بات کروں ۔ اس ملک میں غلطیاں ، کوتاہیاں سب کو نظر آتی ہیں اور ہوتا یہ ہے کہ کوئی اس پر بات نہیں کرتا ہے ۔ کوئی بھی اس کی نشاندہی نہیں کرتاہے ۔ اس کے ساتھ اچھائیاں کسی کو بھی نظر نہیں آتی ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس ملک کا میڈیا دیکھو ، یہ لوگ عوام کو کن راستوں پر لے کر جارہے ہیں ؟ کشمیر کی صورتحال دیکھو ، وہاں وہ لوگ برسوں سے آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں اور ہمارا یہ میڈیا اس بھارت کے ڈرامے اور فلمیں اپنے چینلزپر دیکھاتا رہا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ اشتہارات تک میں ان کے لوگوں کو دیکھایا جاتا ہے ۔ ایسا کیوں کرتے ہیں یہ لوگ انہیں اپنے کشمیری بھائیوں کا ، بہنوں کا کوئی ہوش نہیں کوئی احساس نہیں ، کیوں ، آخر کیوں ؟ اور تو اور یہ دیکھو کہ جو بندہ کشمیر کی آزادی کی بات کرتا ہے اس کیلئے آواز اٹھاتا ہے اسے انہوںنے 180سے زائد دنوںسے گھر میں بند کیا ہوا ہے ۔ کیوں ؟ پھر کشمیر کمیٹی ایک بنی ہوئی اور اس کمیٹی کا سربراہ ایک مذہبی جماعت کا سربراہ ہے جسے کشمیر کا کوئی احساس نہیں ہے۔ بابا ، چند لمحوں کیلئے خاموش ہوئے اور ایک بار پھر آسمان کی جانب دیکھا اور کہنے لگے کہ دیکھو میرا سینا اس ملک کی محبت سے بھرا پڑا ہے ۔ میں اس ملک کا بے رودی والا سپاہی ہوں ، جو کچھ میں اس ملک کیلئے کر سکتا ہوں کر تاہوں ۔ شدید محنت کرتاہوں اور اپنے بچوں کو پڑھاتا ہوں ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس اسکول میں میرے بچے پڑھتے ہیں بسا اوقات میں وہیں پر یہ پھل بیچتے ہوئے پہنچ جاتا ہوں ۔ اپنے بچے کو پڑھا کر اس ملک کی خدمت کیلئے انہیں تیارکر رہا ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا وقت آئے گا کہ جب وہ اس ملک کیلئے مجھ سے زیادہ محنت کریں گے اور اس ملک نام روشن کریں گے ۔ آپ دیکھیں اس ملک کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ، کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے کہ جس میں ہمارے باصلاحیت نوجوان موجود نہ ہوں ، ہمارا ملک صلاحیتوں سے بھرا ہوا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو مثبت انداز میں نہ صرف استعمال کیا جائے بلکہ ان کی منا سب رہنمائی کی جائے ۔ ایسا کریں گے تو آپ دیکھئے گا کہ یہ ملک جس مقصد کیلئے حاصل ہوا تھا وہ مقاصد حاصل ہوجائینگے۔ ان شاءاللہ بس اب آپ بھی جائیں اور مجھے بھی جانے دیں۔
میں اپنا کام کرونگا اور آپ بھی اپنا وقت ضائع نہ کریں اپنا کام کریں اپنے لئے اپنے اس ملک کیلئے ۔ پرچم لگانے یا نہ لگانے سے کوئی فرق نہیں پڑتاہے ۔ پرچم کو بلند کرنا ہے اس عزم کے ساتھ آپ بھی اپنا کام کریں اور مجھے بھی اسی مقصد کیلئے کام کرنے دیں ۔ یہ کہتے ہوئے بابا چل پڑے ۔ راقم ان کے آگے کھڑاہوا اور ان سے پوچھا کہ بس ایک سوال کا اور جواب دیدیں ۔ آپ بار بار آسمان کی جانب کیوں دیکھتے ہیں اور پھر آپ کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں ، کیوں ؟ بابا ایک بار پھر کھڑا ہوا اور آسمان کی جانب ہی دیکھتے ہوئے بولے ، آسمان کی جانب میں اس لئے دیکھتا ہوں کہ میں اللہ سے اس لمحے دعا کرتا ہوں ، اس ذات عظیم سے بات کرتا ہوں ، اس سے مانگتا ہوں ، اس کا ذکر کرتا ہوں بس اس لمحے میرا جی چاہتا ہے کہ میں آسمان کی جانب دیکھوں اور یہ سب کروں جس کا میں نے ذکر کیا ۔ اسی دوران میری آنکھوں میں نمی بھی آجاتی ہے اور میرا حوصلہ بھی بڑھتا ہے ۔ میں مایوسی کو کفر سمجھتا ہوں اور اللہ پر یقین رکھتے ہوئے اس سے دعائیں کرتاہوں ، اپنے لئے ، اپنے ملک کیلئے امنہ مسعود جنجوعہ کیلئے ، حافظ سعید کیلئے ، کشمیر کیلئے ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیلئے اور سب سے بڑھ کر اس وطن عزیز کیلئے اس عظیم ملک کیلئے اور اس عظیم ملک کے عظیم پرچم کیلئے ۔۔