عظیم انسان کیسے سوچتے ہیں

Asking Questions

Asking Questions

تحریر: شاہ فیصل نعیم
آج کےانسان کا سب سے بڑا مسئلہ حالات و واقعات اور انسانوں کے بارے میں اُس کی منفی سوچ ہے۔ دنیا کے بہت سے مسائل انسا ن کی چھوٹی سوچ کا ہی ثمر ہیں ۔ وہ سوچوں ہی سوچوں میں مرتا بھی ہے مارتا بھی ہے، سنوارتا بھی ہے بگاڑتا بھی ہے، کافر بنتا بھی ہے بناتا بھی اور بہت سی مشکلات کو جنم دیتا بھی ہے سدھارتا بھی ہے۔ انسان کو جن حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے یا جن انسانوں سے اُس کا واسطہ پڑتا ہے وہ انسان کو اُس وقت بُرے تو ضرور لگتے ہیں مگر اُن کےنتائج انسان کے حق میں بہتر ہوتے ہیں یہی بات زندگی کے مختلف موڑوں پہ ملنے والے انسانوں پہ بھی صادق آتی ہے،

کوئی انسان کیسا بھی بُرا کیوں نا ہو وہ مکمل بُرا نہیں ہو سکتا اُس میں کوئی نا کوئی اچھائی ضرور ہوتی ہے جو اُس کی بقا کی دلیل بھی ہے۔ کوئی انسان جتنا عظیم ہو گا وہ اُسی تناسب سے مثبت سوچ کا حامل ہو گا۔ مختلف عظیم انسانوں کی زندگی سے حالات و واقعات، انسانوں اور زندگی کے بارے میں اُن کی مثبت سوچ کے کچھ واقعات میرے ہاتھ لگے ہیں جو میں آپ کے لیے تحریر کر رہا ہوں۔

یہ طائف کے لوگوں کے ناروا سلوک کے ستائے ہوئے اور سفری مشکلات سے تھک کر طائف کی وادی میں پناہ لینے والے محسنﷺ کی زندگی کے سنہرےباب کا ایک عظیم انسان کیسے سوچتے ہیں حسین واقعہ ہے۔حضورﷺ کے پاؤں مبارک زخمی ہیں ایسے میں روح الامین ؑ حاضر ہوتے ہیں اور عرض کرتے ہیں: “حضورﷺ ! اگر آپ کاحکم ہو تو میں طائف کے لوگوں کو ان دو پہاڑو ں کے درمیاں پیس کر رکھ دوں”؟ مگر محسنِ انسانیت ﷺ کا جواب سنیئے :”نہیں جبرئیل ! یہ نہیں جانتے میں کون ہوں ؟ مگر مجھے یقین ہے ان کے بعد میں آنے والے لوگ ضرور اسلام کے ماننے والے ہوں گے”۔

مجھے کسی انسان کی زندگی میں اس سے بڑی مثبت سوچ کا واقعہ آج تک نہیں ملا۔ وہ کسی ایسی چیز کی ایجا د کے لیے تگ ودو کر رہا تھا جو اُس کا نام باقی رکھ سکے اسی کوشش میں وہ 1000 سے زائد غلطیاں کر چکا تھا مگر وہ ابھی تک کامیاب نہیں ہوا تھا ایک دن وہ لیبارٹری سے باہر کسی کام میں مصروف تھا جب اُس کے اسسٹنٹ نے اُسے آکر یہ خبر دی: “سر ہماری لیب میں آگ لگی ہے اور کچھ باقی نہیں رہا”۔ اس خبر کو پاکر اُس عظیم شخص کے تاثرات کیا تھے اُن کو تاریخ نے الفاظ کی صورت میں اپنے سینے میں محفوظ کیا ہے ان کو بار بار پڑھیں اور جب بھی آپ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ آجائے کہ جس مقصد کے لیے آپ جی رہے ہیں اُس کے لیے جمع کردہ سامانِ سفر جل کر راکھ ہوجائے تو اپنی زندگی ختم نا کرلینا بلکہ اس عظیم انسان کے الفاظ سامنے رکھنا اور ان سے رہنمائی طلب کرنا۔

Mistakes

Mistakes

“میں اپنے خدا کو بے حد شکر گزار ہوں جس نے وہ تمام غلطیاں جلا کر راکھ کر دی جو میں نے ابھی تک کی تھیں اور اب میں ایک نئے سرے سے ابتدا کروں گا” یہ وہ الفاظ تھے جو تھامس ایڈیسن نے اپنے اسسٹنٹ کو کہے تھے اور پھر یہی ایڈیسن دنیا کو بلب جیسی عظیم ایجاد سمیت انفرادی طور پر 1089 ایجادات دے گیا۔ اُسے زندگی کے لیے کوئی مقصد چاہیے تھا وہ عام انسانوں کی طرح نہیں جینا چاہتا تھا وہ چاہتا تھا کہ میں کوئی ایسا کام کروں کے میرے مرنے کے بعد بھی دنیا مجھے یاد کرے۔ سترہ سال bکی عمر میں وہ ایک دن اپنے کمرے میں لیٹا ہوا تھا جب ایک جدا سوچ نے اُس کے دماغ میں جنم لیا ۔ اُس نے سوچا: “ایک دن آئے گا اور میں دنیا میں مزید باقی نہیں رہوں گا۔۔۔۔۔۔جب میں نے اس دنیا سے جانا ہی ہے تو کیوں نا دنیا کو بدل کر جاؤں”؟؟ پھر وہ شخص وقت کے قید سے آزاد کام کرتا رہا اور دنیا کو 300 سے زائد ایجادات دے گیا آج دنیا اُس شخص کو سٹیو جابز کے نام سے جانتی ہے۔ وہ کوئی چھوٹا سا کام کرنا چاہتا تھا تاکہ گھر کا خرچ چلا سکے

وہ پیسے ہاتھ میں لیے کراچی کی سڑکوں پر گھوم رہا تھا جب اُس کے سامنے ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے اُس کی زندگی کا رخ بدل کر رکھ دیا۔ وہ سڑک پر ہی تھا کہ ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور ایک شخص کو روندتی ہوئی نکل گئی ۔ لوگ بھاگ کو تڑ پتے ہوئے شخص کے ارد گرد جمع ہوگئے تاکہ اُسے کسی ہسپتال منتقل کر سکیں ۔ وہ ان سب حالات کو بغور دیکھ رہا تھا جب اُس کے دماغ میں ایک منفرد سوچ نے جنم لیا اُس ن سوچا: “دنیا میں دو طرح کے انسان ہوتے ہیں ایک وہ جو انسانوں کو روندتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور دوسرے وہ جو تڑپتے ہوئے انسانوں کو ہسپتال تک پہنچاتے ہیں۔ میں موخرالذکر جیسا بنوں وہ جو پیسے لیے کوئی کام شروع کرنے نکلا تھا اُس نے کچھ پیسے اور اکھٹے کیے اور ایک ایمبولینس خرید لی جو آگے جا کر دنیا کی سب سے بڑی فلاحی تنظیم کا روپ دھار گئی ۔ عبدالستار ایدھی آج بھی اپنی زندگی انسانوں کے لیے وقف کیے ہوئے ہے ، وہ آج بھی مخلوقِ خدا کے لیے جی رہا ہے، وہ ان گنت لوگوں کی زندگیا ں بچا چکا ہے۔ مگر یہ سب اُس نے کیسے کیا؟؟؟ فقط واقعات کے بارے میں منفرد سوچ اپنانے سے۔

وہ 21 سال کی عمر میں مفلوج ہو گیا تھا ڈاکٹروں نے جب اُس سے کہاکہ تمہاری تمام تر صلاحیتیں جلد ختم ہو جائیں گی تمہارے پاس زندگی کے صرف 2 سال مزید ہیں۔ یہ باتیں سننے کے بعد اُس نے ڈاکٹر سے ایک سوال کیا تھا: “میرے دماغ کے بارے میں کیا خیا ل ہے”؟ ڈاکٹر نے جواب دیا: “دماغ کو کچھ نہیں ہو گا” ۔ اس جواب کو پا کر اُس کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ کائنات کے رازوں سے پردے ہٹانے میں جُت گیا۔ وہ شخص جس کو ڈاکٹروں نے کہا تھا تم صرف 2 سال اور زندہ رہو گے اُس کی عمر 73 سال ہوچکی ہے۔ دنیا اُسے نیوٹن اور آئن سٹائن کے بعد سب بڑا سائنس دان مان چکی۔ مگر سٹیفن ہاکنگ ابھی تھکا نہیں اُس کی سوچ آج بھی کئی سوچوں میں ارتعاش پیدا کیے ہوئے ہے۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم