آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد میں خطبہ جمعہ کے لئے مسجد کی جانب پیدل روانہ ہوئے تو راستے میں ایک خیمہ بستی کے اندر سے گزرنے کا اتفاق ہوا خیمہ بستی کے بیچوں بیچ بنے اس جبری راستے پر چلتے ادھر ادھر دیکھ کر لگتا تھا کہ اس کے مکین کو کوئی عارضی نہیں بلکہ جیسے طویل عرصہ سے یہاں رہ رہے ہیں کیونکہ خیموں میں بجلی کی تاریں بھی لٹک رہی تھیں اور خیموں کی شکل و ہیت اور یہاں رہنے والوں کا بودوباش و طرز زندگی بھی اسی کی گواہی دے رہا تھا۔ گندے کپڑے پہنے ننھے منے معصوم لیکن گورے گورے بچے اور روز مرہ کے کاموں میں مصروف خواتین چلتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ بستی سے متصل مسجد پہنچ کر اور وہاں سے واپسی تک یہی خیمہ بستی اور اسکے مکین ذہن پر چھائے رہے کہ ان کی حالت ہی اس قدر خستہ تھی جو سوچوں کو کرید کرید کر زخمی کرتی رہی۔ واپسی پر دوبار اسی راستے سے گزرے تو دوستوں سے پوچھ لیا کہ یہ کون لوگ ہیں کہ جو یہاں رہ رہے ہیں؟ جواب دل دہلانے اور تن بدن میں کپکپی طاری کر دینے کے لئے کافی تھا۔
بتایا گیا کہ یہ وہ کشمیری مہاجرین ہیں کہ جو بھارت سے آزادی کی امید لے کر 1989ء میں مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے آزاد کشمیر پہنچے تھے اور آج ان کی دوسری نسل آزادی کا خواب آنکھوں میں سجائے انہی بوسیدہ، گلے سڑے اور زندگی کی تمام سہولیات سے دور اور لوگوں کے پائوں تلے کچل کچل اور مسل مسل کر ان خیموں میں پل کر جوان ہو رہی ہے۔ ابھی تو مئی کا آغاز تھا اور قریبی مسجد جس کی چھت لوہے کی چادروں سے بنی تھی، کی گرمی پسینے میں شرابور کر رہی تھی۔ معاً خیال آیا کہ یہاں کشمیر کی ان ادھ کھلی گلیوں کا سخت گرمی میں ان بوسیدہ خیموں کے اندر کیا حال ہوتا ہو گا یہ بستی تو دریا کنارے ہے اور مظفر آباد کی سردی بھی ہم نے بارہا دیکھ رکھی ہے کہ 2 بڑے دریائوں کے سنگم اور ان کے اردگرد پھیلے اس شہر میں اس موسم کی خنکی کس قدر ہڈیوں کے گودے میں اترنے والی روح فرسا ہوتی ہے۔ خیال آیا کہ اگر ہمیں اس طرح کبھی گھرسے باہر خیموں میں سارے خاندان کے ہمراہ کچھ دن گزارنے پڑ جائیں تو کیا ہو گا…؟ اور یہ کشمیری قوم 25 سال سے انہی حالات کا سامنا کرتی آ رہی ہے۔ یہاں ان حالات میں ٹھہرے ان کشمیریوں کی تعداد کوئی کم نہیں بلکہ 30 ہزار سے زائد ہے۔ بھارت نے سال 2010ء سے ان کشمیریوں کو بہکانے کے لئے ایک بڑی مہم شروع کی اور انہیں لالچ دیا کہ وہ اگر واپس آنا چاہیں تو انہیں نہ صرف خوش آمدید کہا جائے گا بلکہ انہیں دوبارہ سے گھر بسانے اور معاشرے کا حصہ بنانے میں بھر پور مدد و تعاون بھی فراہم کیا جائے گا لیکن بھارت کے لئے 67 سال سے لوہے کا چنا ثابت ہونے والی اس کشمیری قوم نے بھارت کی اس پیش کش کو جوتے کی نوک پر رکھا اور دنیا میں جس قدر کسمپرسی، مشکل، امتحان و مصائب سوچے جا سکتے ہیں، انہیں گلے لگانا تو گوارہ کر لیا لیکن جسے انہوں نے ذلت سمجھا، اسے قبول نہ کیا۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد آج تک لگ بھگ 5 سے 6 لاکھ کشمیری جانوں پر کھیل چکے ہیں۔ 31 جولائی 1988ء کو سرینگر میں دو دھماکوں سے شروع ہونے والی موجودہ تحریک میں اب تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔ یتیم بچوں کی تعداد سوا لاکھ سے زیادہ، جلا کر تباہ کی جانے والی املاک ڈیڑھ لاکھ، بے آبرو کی جانے والی خواتین 28 ہزار سے زائد اور گرفتار و اغواء کر کے لاپتہ کئے جانے والے کشمیری نوجوانوں کی تعداد 10 ہزار سے زائد ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا اس وقت کوئی گھرانہ ایسا نہیں ہے کہ جس سے اس تحریک آزادی جو 1988ء میں شروع ہوئی، کے دوران کوئی جنازہ نہ اٹھا ہو یا اس کے گھر کا زخمی و لاپتہ نہ ہوا یاانہیں جلا کر بے خانماں نہ کیا گیا۔ اس پر مستزاد بھارتی فوج نے تو بے شمار گھرانوں اور خاندانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا لیکن صدائے حریت پہلے سے روز افزوں عروج پر ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 10 لاکھ فورسز متعین ہیں۔ یوں اگر دیکھا جائے تو مقبوضہ کشمیر گزشتہ 20 سال سے دنیا اور تاریخ عالم کا وہ چھوٹا ترین خطہ بن چکا ہے کہ جہاں اتنے لمبے عرصہ سے اتنی بڑی تعداد میں فورسز لوگوں کی گردن پر ہمہ وقت بندوق تانے کھڑی ہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب نکالا جائے تو حقیقت یوں نظر آتی ہے کہ ہر کشمیری مرد و جوان کی گردن پر ایک فوجی بندوق لئے کھڑا ہے کہ اگر اس نے ان کی مرضی کے خلاف کوئی حرکت کی تو اس کا بھیجا اڑا دیا جائے گا اور بھارتی فوج کرتی بھی ایسا ہی ہے لیکن کشمیری پیچھے ہٹنے تو کجا اپنی صدائے حق تک پست کرنے پر تیار نہیں۔
Kashmir
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جتنا بجٹ مختص کر رکھا ہے، وہ سارے کا سارا صرف خطہ کشمیر پر قبضہ مستحکم و مضبوط کرنے کے لئے ہے۔ سارا مقبوضہ کشمیر کا انفرانسٹرکچر کھنڈر بنا ہوا ہے۔ ترقی کا دوردور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آتا۔ مقبوضہ وادی کو تو چھوڑئیے، بھارت کے اندر داخل ہونے والے کشمیریوں کا بھی تعاقب کیا اور انہیں ذلیل یا پھر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ قوم راہ حق پر ڈٹی ہوئی ہے۔
دنیا میں آزادی کی منزل پانے کے لئے جتنے پیمانے اور معیار عالم انسانی کی تاریخ میں مقرر کئے گئے یا آج بھی متعین ہیں، ان سب پر سالہاسال سے کشمیری قوم بارہا اور بار بار پورا اتر چکی ہے… ان کے بعد دوسروں کے اشاروں پر علیحدگی کی معمولی آواز بلند کرنے والے مشرقی تیمور کے بعد جنوبی سوڈان کو ساری دنیا نے مل کر ”آزادی” دلوا دی… کیونکہ ان کا وجود مسلم ممالک کا توڑ کر ایک عیسائی ریاست کی شکل میں سامنے آنا تھا لیکن کشمیریوں کی قسمت پر یہ در آج تک کھلنے کے قریب ہی نظر نہیں آتا ہے۔ جی ہاں وہی کشمیر کہ جس کے سینے سے پاکستان کو سیراب کرنے والے دریا نکل کر آتے ہیں اور کشمیری ان میں اپنا خون شامل کر کے ہمارے جسم کو توانا بنانے والی خوراک میں حصہ ڈالتے ہیں۔ وہی کشمیر کہ جسے بانی پاکستان نے ملک کی شہ رگ قرار دیا تھا اور اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل گریسی کو بھارت کے جواب میں فوج داخل کر کے جنگ کرنے میں کشمیر حاصل کرنے کا حکم دے کر فیصلہ سنا دیا تھا کہ کشمیر کے حصول کے لئے ہمیں جنگ ہی لڑنی ہے۔ لیکن اس نمک حرام جرنیل نے نافرمانی کی اور بھارتی سازش کا حصہ بن گیا۔ قارئین کے استفادے کے لئے دنیا کی اس مظلوم ترین قوم کے خطے کا کچھ تعارف پیش خدمت ہے۔
مقبوضہ جموں کشمیر تین بڑے خطوں کشمیر، جموں اور لداخ پر مشتمل ہے۔ یہ تینوں خطے موسمی، ماحولیاتی، زرعی، تہذیبی، ادبی اور سیاحتی اعتبار سے ایک دوسرے سے کچھ جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ وادی کشمیر کو وادی گلپوش بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کا موسم اکثر معتدل اور خوشگوار رہتا ہے۔ یہاں کی مٹی زرخیز اور قابل کاشت ہے۔ اخروٹ اور بادام جیسے خشک پھل اور سیب، چیری اور ناشپاتی جیسے تر پھل یہاں کے اہم میوے ہیں۔ کشمیری، کشمیریوں کی مادری زبان ہے۔ یہ زبان بھارت کی چنیدہ تسلیم شدہ زبانوں میں باضابطہ طور پر شامل ہے۔ یہ زبان دنیا کی قدیم ترین زبانوں میںشمار کی جاتی ہے۔ اس زبان میں علم، ادب، تاریخ، شاعری اور لٹریچر کا انمول خزانہ موجود ہے۔ کشمیری زبان دنیا کی آٹھ ایسی زبانوں میں شامل ہے جن کی گرائمر ہر لحاظ سے مکمل اور مفصل ہے۔ سیاحتی لحاظ سے مقبوضہ وادی دنیا بھر میں سب سے بہترین اور دلکش مقام کی حیثیت رکھتی ہے۔
مقبوضہ جموں کا خطہ موسمی اعتبار سے گرم ہے۔ یہاں کی زمین ریتلی اور پتھریلی ہے۔ اس خطہ میں ڈوگرہ آبادی اکثریت میں رہائش پذیر ہے۔ اگرچہ جموں شہر کو عرف عام میں مندروں کا شہر یعنی (The city of temples) کہا جاتا ہے لیکن خطے کے پہاڑی اضلاع پونچھ، راجوری، ڈوڈہ، رام بن اور بھدرواہ میں مسلمانوں کی آبادی اکثریت میں ہے۔ آم اور امرود یہاں کے اہم پھل ہیں۔
لداخ ریاست کا تیسرا اہم خطہ ہے۔ یہ خطہ آبادی کے لحاظ سے ریاست کا سب سے چھوٹا جبکہ رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑا خطہ ہے۔ یہاں کی آبادی لگ بھگ ایک لاکھ ہے۔ لداخ کو دنیا کے سرد ترین مقامات میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ خطہ سطح سمندر سے تقریباً چھ ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ لداخ پتھریلی پہاڑیوں پر آباد ہے اس لئے یہاں پر کوئی خاص فصل اگائی نہیں جا سکتی ہے۔ لیکن خوبانی کا پھل یہاں پر کثرت سے لگایا جاتا ہے۔ اس خطے میں بودھ مت کے پیروکاروں کی آبادی بھی کافی رہائش پذیر ہے لیکن مسلمان بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ حیران کن طور پر مقبوضہ کشمیر کے ان تمام لوگوں اور ثقافتوں کا بھارت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن بھارت یہاں جبراً قابض ہے لیکن تابکے؟