تحریر : رانا اعجاز حسین 25 دسمبر 1876ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کراچی کے وزیر مینشن میں جنم لیا تو کسے معلوم تھا کہ یہ بچہ آ گے چل کر برصغیر کے مسلمانوں کا عظیم رہبر بنے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کا اہل پاکستان پر یہ احسان ہے کہ انہوں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک آزاد، خودمختار ریاست کے قیام کے لئے بھر پور جدوجہد کی اور اپنی ساری زندگی اسی جدوجہد میں وقف کردی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایک عہد آفرین شخصیت، عظیم قانون دان، بااصول سیاستدان اور بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل اور غیر متزلزل غرم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ 1896ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی لیکن کچھ عرصے بعد انہیں احساس ہوا کہ کانگریس صرف ہندوؤں کی نمائندہ جماعت ہے جہاں مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
چنانچہ 1913ء میں انہوں نے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور یہاں سے علیحدہ وطن کی باقاعدہ تحریک کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانشورانہ صلاحیتوں، گہرے مدبرانہ فہم و ادراک اور انتہائی مضبوط فولادی اعصاب کی مسلسل اور انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلاموں کا طوق ہمیشہ کے لئے اتارا اور مسلمانوں کو حصول پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کر کے انہیں آزادی کی جدوجہد میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی راہ پر راغب کیا۔اس کے نتیجے میں برصغیر کے مسلمان مسلم لیگ کے جھنڈے تلے یکجا ہوئے۔ قائداعظم محمد علی جناح عام سیاسی لیڈروں کے مقابلے میں انتہائی صاف گو تھے۔ وہ ہر معاملے کو پوری دیانتداری سے پرکھتے اور اس کے بعد اپنے فیصلے کا اظہار وقتی مصلحتوں سے بالاتر ہوکر پوری جرائت اور صاف گوئی سے کرتے تھے۔
سیاسی کانفرنسوں اور مجلسوں میں بعض دفعہ ان کی صاف گوئی قدرے تلخی بھی پیدا کردیتی تھی، لیکن وہ اپنے واضح موقف سے کسی طور بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔ قائد اعظم کی خود اعتمادی ہر سیاسی کانفرنس اوربات چیت میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی تھی۔ یہی خوداعتمادی ہر قدم پر انھیں فتح وکامرانی سے ہمکنار کرتی تھی،یہی وجہ تھی کہ بالآخر قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں جدوجہد آزادی رنگ لائی اور انگریزوں کو ہندو مسلم علیحدہ قومیت یعنی دو قومی نظرئیہ کو تسلیم کرنا پڑا۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ا پنی قوم کے مسائل کو اچھے طریقے سے سمجھتے تھے اور ان کے دل میں مسلمانوں کی تمام سیاسی، سماجی اور مجلسی مشکلات کا احساس موجود تھا۔ وہ ہر سیاسی اور غیرسیاسی مسئلے کو اپنے خلوص کے آئینے میں ڈھال کر اس کا حل دریافت کرتے اور قوم کے سامنے پیش کرتے تھے۔
ان کے اس خلوص کے باعث ہی قوم کا ہر فردان کے ہر فیصلے اور حکم پر سر تسلیم خم کردیتا تھا۔ ان کی پوری سیاسی زندگی میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا جب قوم کے کسی فرد نے اپن کی نیک نیتی اور خلوص پر شبہ کیا ہو۔ یہ ایک حقیقی امر ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے شروع کی جانے والی جدوجہد آزادی کے مختلف مراحل پر کسی بھی مسلمان رہنما کو اپنی قوم کی طرف سے اطاعت شعاری کا وہ جذبہ اور مظاہرہ نصیب نہیں ہوا جو بابائے قوم کو حصول پاکستان کے لیے کی جانے والی بے لوث اور شبانہ روز جدوجہد کے دوران میسر آیا۔
Quaid-e-Azam Day 25 December
قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح سستی شہرت اور نعرے بازی سے سخت نفرت کرتے تھے۔ جب بھی وہ کسی جگہ تشریف لے جاتے تو ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان کی آمد کا پروگرام کم سے لوگوں کو معلوم ہو۔ اس سے یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ انھیں اپنی قوم کے افراد سے محبت نہیں تھی یا وہ قوم کے دلی جذبات کا احترام نہیں کرتے تھے۔ وہ دراصل ظاہری نمائش، نعروں اور جلسوں کو محض تضیع اوقات سمجھتے تھے۔ ان کی دلی خواہش یہ تھی کہ قوم کا ہر فرد اپنے فرائض کی انجام دہی کو اپنا اولین فرض سمجھے اور نعرے بازی کی بجائے ہر لمحہ ملک اور قوم کی تعمیر وترقی کے لیے جدوجہد میں صرف کرے۔ وہ زندگی بھر خود بھی اس اصول کے سختی سے پابند رہے۔ یہاں تک کہ وہ طویل سفر کے دوران میں بھی اپنی ضروری فائلوں اور کاغذات کا مطالعہ کرتے رہتے تھے۔
ہندوستان کے تمام لیڈروں کو ایک کانفرنس کے سلسلے میں لندن بلایا گیا، تو اس خاص ہوائی جہاز میںقائداعظم کے علاوہ پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار بلدیوسنگھ بھی سفر کر رہے تھے۔ قائداعظم تمام سفر کے دوران اپنے ساتھیوں کی موجودگی کا احساس کیے بغیر ضروری دستاویزات اور کاغذات کے مطالعہ میں منہمک رہے۔قائداعظم کو اپنے فرض کا احساس اس قدر شدید ہوتا تھا کہ معمولی بیماری اور طبیعت کی ناسازی ان کے روز مرہ کام میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی تھی۔ زندگی کے آخری ایام میں جب وہ مسلسل کام کی وجہ سے خاصے کمزور ہوگئے تھے۔ انھوں نے ڈاکٹروں کے اصرار کے باوجود اپنا کام جاری رکھا۔ بلند ہمتی اور قوم کی فلاح سے گہری لگن کی ایسی مثالیں بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہیں۔
پر عزم جدوجہد آزادی کے دوران بانی پاکستان کی صحت مسلسل گرتی رہی ، قائد اعظم محمد علی جناح 1930 ء سے تپ دق کے مرض کا شکار چلے آرہے تھے اور اس بیماری سے متعلق صرف ان کی بہن اور چند قریبی ساتھی جانتے تھے مگر بانی پاکستان نے بیماری کی حالت میں بھی جدوجہد آزادی کا کوئی جلسہ ترک نہیں کیا۔ اور یوں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے محض ایک سال بعد 11 ستمبر 1948ء کی صبح کے 10بجکر 25 منٹ پربانی پاکستان محمد علی جناح انتقال فرماگئے۔ بانی پاکستان کی نمازجنازہ ان کی وصیت کے مطابق علامہ شبیر احمد عثمانی نے پڑھائی۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے مسلمانوں کے گلے سے غلامی کا طوق اتار کر جو احسان کیاہے، پوری پاکستانی قوم رہتی دنیا تک اس احسان کو یاد رکھے گی۔اللہ تعالیٰ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
Rana AIjaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033