تحریر : وقار النساء قائد اعظم دنیا کے نقسشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی حیثیت سے متعارف کروانے والے عظیم قائد۔ ان جیسے سچے اور بلند حوصلہ لیڈر کسی خوش نصیب ملک و قوم کو نصیب ہوتے ہیں۔جنہوں نے مسلمانوں کو سیاسی معاشی معاشرتی اور مذھبی حقوق سے بہرہ ور کر کے ان کو آزادی کی نعمت سے ہمکنار کیا ۔الگ وطن کے خواب کو تکمیل دینے کے لئے انتھک جدو جہد کی۔کیونکہ وہ چاہتے تھے مسلمانوں کا ایک الگ قومی تشخص ہو ۔اسی لئے انہوں نے ھمیشہ برصغیر میں بسنے والی ہر دو قوموں کو جدا قرار دیا۔اور الگ وطن کا مطا لبہ کیا تعلیم ملازمت ہر جگہ مسلمانوں سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ اسی لئے آپ نے الگ وطن کے قیام پر زور دیا تاکہ مسلمان اپنے مذھب کے مطابق آزادی سے زندگی گزاریں وران کی کوششیں بارآور ہوئیں اس طرح انکی ولولہ انگیز قیادت نے ایک آزاد ملک دیا۔
انہوں نے اس مقصد کے حصول کے لئے اپنا آرام اور سکون تج دیا ۔بقول ابوالخیر کشفی کے وہ رات بھر اپنے کمرے میں جاگا کرتے ان سے جب اس کا سبب دریافت کیا گیا تو جواب دیا دوسری قومیں جاگ رہی ہیں جبکہ ان کے لیڈر سو رہے ہیں اور میری قوم سو رہی ہے میں جاگ رہا ہوں۔
وہ فہم وفراست رکھنے والے دلیر اور دور اندیش لیڈر تھے جنہوں قوم کو بھی عزم ہمت اور تنظیم کا سبق دیا ۔اور اپنے عمل سے عظیم لیڈر ثابت کیا ۔اپنے لئے کسی پروٹوکول کے طالب نہ ہوئے پاکستان کے قیام سے پہلے آپ شملہ تشریف لے گئے تو کارکنوں نے آپ کی حفاظت کے پیش نظر حفاظتی اقدامات کرنے کی اجازت چاہی آپ نے منع کرتے ہوئے فرمایا مجھے اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے وہی میرا محافظ اور چارہ گر ہے۔آپ فکرمند نہ ہوں۔
آپ وقت کی بہت قدر اور پابندی کرتے اور قوم کو بھی اس کی تلقین کرتے ۔پاکستان میں اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں قائد اعظم مہمان خصوصی تھے ۔تقریب میں شرکت کرنے والوں کو جو دعوت نامے بھجوائے گئے ان پر درج تھا کہ وقت کی پابندی کی جائے آپ خودعلالت کے باوجود وقت پر پہنچے ۔اس وقت وزیراعظم لیاقت علی خان تھے جو بروقت نہ پہنچ سکے ان کے لئے اور ان کے رفقا کے لئے پہلی رو میں نشستیں خالی رکھی گئی تھیں۔
تقریب شروع ہوئی اور جب قائدداعظم تقریر کے کھڑے ہوئے اورخالی کرسیوں پر نظر پڑی تو ان کو اٹھانے کا حکم دیا۔اسی اثنا میں وزیراعظم اپنے رفقا کے ہمراہ پہنچ گئے قائداعظم نے انہیں دیکھا اور تقریر جاری رکھی۔اس طرح بر وقت نہ پہنچنے پر وزیر اعظم کو اپنے رفقا کے ہمراہ کھڑے رہ کر تقریر سننی پڑی۔اپنے لئے بھی انہی اصولوں پر کاربند تھے ۔ایک دفعہ آپ نماز عید کی ادائیگی کے لئے آنے میں آپ کو تاخیر ہو گئی کیونکہ گاڑی ٹریفک کے رش کی وجہ سے جلد نہ نکل سکی مولانا ظہورالحسن نے نماز پڑھانی تھی۔۔انہیں کہا گیا کہ کچھ دیر انتظار کر لیں مولانا نے جواب دیا میں نے نماز اللہ کے لئے پڑھانی ہے قائداعظم کے لئے نہیں اور نماز شروع کر دی اسکے فورا بعدقائد اعظم پہنچ گئے اور آکر آخری صف میں کھڑے ہو کر نماز میں شامل ہو گئے۔
نماز کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ انکے ساتھ بعد میں آکر کھڑے ہونے والا شحص کوئی عام آدمی نہیں بلکہ اس ملک کا سربراہ ہے آپ نے نماز کے بعدسب سے گلے مل کر عید مبارک کہا اور پھر آگے جاکر مولانا سے ملے ان کے جذبہ ایمانی کی تعریف کی او ر خوش ہو کر فرمایاعلما کو اسی کردار کا حامل ہونا چاہیے اس ملک کے بانی نے اپنے لئے کبھی مراعات نہ لیں اور نہ اپنے لئے الگ اصول رکھے۔آج با نی پاکستان کے اتحاد ایمان اور تنظیم کے سبق کو بھلا کراقتدار کی حرص اور ذاتی مفاد اور عناد نے ملک کو خلفشار کا شکار کر رکھا ہے ۔اصول کو مقدم رکھنے والے قائد کے اس ملک میں اصول اور ضوابط کا اطلاق غریب عوام پر ہے صاحب ثروت اور اعلی عہدے داران اس سے آزاد ہیں۔
قائد اعظم کے اس ملک خداداد میں آج خود کو لیڈر کہلوانے والوں کے لئے گھنٹوں کے حساب سے ٹریفک روک دی جاتی ہے جب تک پروٹوکول کے لئے ھمراہ درجنوں گاڑیاں نہ گزر جائیں کوئی کتنی پریشانی میں مبتلا ہو اسے گزرنے کی اجازت نہیں۔ کوئی مریض بر وقت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے دم توڑ دے یا کوئی حاملہ رستے میں بچے کو جنم دے دے ۔اپنی جمع پونجی تعلیم پر لگا کر بچوں کے اچھے مستقبل کی آس لگائے والدین کا بچہ کمرہ امتحان تک اور امیدوں کا مرکز نوجوان انٹر ویو کے لئے نہ پہنچ پائے یا گھر میں روٹی کی آس پر بھوکے بیٹھے بچوں کے لئے ایک مزدور دیہاڑی نہ لگا پائے۔اسے انتظار کرنا ہے کاش ملک عزیز وہی پاکستان بن جائے جہاں لوگ ایک اسلام کے نام پر بلا تفریق ایک جھنڈے تلے جمع ہوئے تھے جہاں سب کی عزت سانجھی تھی سب کی تڑپ ایک دوسرے کی بہن بیٹی کے لئے وہی تھی جو اپنی بہن اور بیٹی کے لئے تھی ۔ہر کسی کی خواہش ہے اسی پاکستان کی وہی قائد اعظم کا پاکستان ھم سب کا پاکستان۔