یونان (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ ماہ کے آغاز میں بدنام زمانہ موریا مہاجر کیمپ میں آتشزدگی کے واقعے کے بعد چھت تک سے محروم ہو جانے والے مہاجرین صحت کی انتہائی تشویشناک صورتحال کے ساتھ جرمنی پہنچ گئے ہیں۔
یونان کے موریا کیمپ کے جل جانے کے نتیجے میں کیمپ کے بے سرو سامان مہاجرین میں سے 139 جرمنی کے شمالی شہر ہنوور پہنچ گئے ہیں۔ ان میں بغیر کسی سرپرست کے بچے، سخت بیمار بچے اور سنگین صحت کے مسائل سے دوچار اور ان کی فیملی کے قریبی اراکین شامل ہیں۔ ان میں سے کم از کم 51 افراد پر مشتمل مہاجرین کا گروپ بدنام زمانہ موریا کیمپ سے آیا ہے جبکہ بقیہ مہاجرین کا تعلق یونان کے مختلف جزیروں پر قائم انتہائی گنجان مہاجر کیمپوں سے ہے۔
یونان کے ہجرت کے امور کے متبادل وزیر گیورگوس کوموٹساکوس نے کہا ہے کہ یونان کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ ‘موریا کیمپ‘ کے جل جانے کے بعد یہ مہاجرین کی دوبارہ آباد کاری کے ان کی پہلی پرواز ہے۔
موریا کیمپ میں آتشزدگی کے بعد اُس میں مقیم مہاجرین کو زندگی سڑکوں پر گزارنا پڑ رہی ہے۔ موسم سرما کی آمد اور کورونا وائرس کی وبا جیسے انتہائی خطرناک مسائل کے سبب یورپی یونین نے ان بے سرو سامان اور بے یار و مددگار انسانوں کی بقا کے لیے ممکنہ اقدامات کے سلسلے میں مذاکرات کیے جس کے بعد یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے کُل 400 بچوں کو بطور مہاجرین مختلف ممالک میں لانے پر آمادگی ظاہر کی۔ جرمن حکومت نے ان میں سے 150 تک بچوں کو اپنے ہاں لانے کا وعدہ کیا تھا۔
جرمنی کی وزارت داخلہ کے مطابق موریا کیمپ میں آتشزدگی سے قبل بھی 17 بیمار بچے اور ان کی فیملی کو جرمنی لایا گیا تھا۔ یہ اقدام دراصل جرمنی کی طرف سے طبی امداد کے شدید ضرورت مند ایسے 243 بچوں کو جرمنی لاکر انہیں علاج و معالجے کی سہولت فراہم کرنے کے وعدے کے تحت کیے گئے۔ جرمن وزارت نے 2020 ء میں یونان کے مہاجر کیمپوں سے جرمنی لائے جانے والے مہاجرین کی تعداد کے بارے میں مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ مجموعی طور پر اس سال 713 افراد، جن میں 104 بغیر کسی سرپرست کے نو عمر بچے اور 142 ایسے بچے جنہیں صحت کے شدید مسائل کا سامنا تھا، یونان سے جرمنی بذریعہ ہوائی جہاز لائے گئے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ یونان کے تباہ شدہ مہاجر کیمپ سے بچوں کو جرمنی لے کر آنے کا عمل انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر کیا جانے والا اقدام ہے تاہم یہ ” طویل المدتی عمل نہیں ہے۔‘‘ بُدھ کو جرمن چانسلر نے جرمن قانون سازوں سے مذاکرات کے دوران کہا، ” ہم نے حالیہ دنوں میں یورپی یونین کے رکن ملک یونان کے جزیرے لیسبوس کی خوفناک تصاویر دیکھیں۔ میں سمجھتی ہوں جرمنی نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر مدد کے لیےجو قدم اُٹھایا وہ بالکل صحیح تھا، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ان مسائل کا کوئی پائیدار حل نہیں ہے۔‘‘ میرکل نے مزید کہا کہ وہ یورپی یونین کی طرف سے مہاجرین کے بحران کے حل سے متعلق دی گئی حالیہ تجاویز کے لیے شکر گزار ہیں۔ میرکل نے کہا، ”یہ مسائل بہت پیچیدہ ہیں اور یہ محض دو تین سال کی بات نہیں بلکہ میری پیشنگوئی ہے کہ یہ موضوع آئندہ دہائیوں تک ہمیں مصروف رکھے گا۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے یورپی سطح پر ایک مشترکہ پالیسی کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ میرکل نے کہا،”اگر ہم ہجرت اور مہاجرین کے سوال پر یورپی یونین کے رکن ممالک کے مابین مشترکہ بنیادی موقف نہیں رکھ سکتے تو یہ یورپی یونین کی مشترکہ عمل کی صلاحیت پر بھاری بوجھ بنے گا۔‘‘ میرکل کے پیغام کی تائید اور حمایت کرتے ہوئے ان ہی کی جماعت سی ڈی یو کے دفتر خارجہ کے وزیر مملکت میشائل روتھ نے یورپی ریاستوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ”یورپی ازائلم لاء‘‘ یا ”یورپ کی پناہ کے متلاشی افراد سے متعلق قانون‘‘ میں اصلاحات کے لیے کھلے ذہن کا مظاہرہ کریں۔
میشائل روتھ نے وفاقی جرمن پارلیمان میں ایک عام بحث کے دوران کہا ، ”اگر ہم مشترکہ یورپی حل تلاش کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو یہ آخرکار قوم پرستوں اور عوام پرستوں کی جیت ہوگی۔‘‘ روتھ نے کہا کہ 30 سال قبل جرمنی کے دوبارہ اتحاد کے بعد ملک کو ایک خاص ذمہ داری ملی تھی۔ انہوں نے کہا،”ہم متحدہ، مربوط اور خودمختار یورپ کے لیے خصوصی کوشش کرتے رہیں گے۔‘‘
ساتھ ہی انہوں نے زور دے کر کہا،”ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ یورپ اب بھی دوسرے ویلیو ماڈلز کے ساتھ مقابلے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس میں صرف متحدہ یورپی قوتوں کے ساتھ مل کر ہی کامیابی حاصل ہو گی۔‘‘ یونان کے مہاجر کیمپوں سے مہاجرین کو جرمنی لانے کے تازہ ترین اقدام کے تحت جرمنی پہنچنے والوں کو خاندانی روابط اور خصوصی طبی ضروریات کی بنیاد کے مطابق متعدد جرمن ریاستوں میں تقسیم کیا جائے گا۔