یونان (اصل میڈیا ڈیسک) یونان کے جزیرے لیسبوس پر قائم سب سے بڑے موریا کیمپ میں متعدد مقامات پر آگ لگ گئی جہاں تقریبا 12 ہزار مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے۔ انسانی حقوق کے گروپ کیمپ میں زیادہ بھیڑ بھاڑ کے لیے یونانی حکام پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
یونان میں لیسبوس جزیرے پر قائم مہاجرین کے سب سے بڑے موریا کیمپ میں بدھ نو ستمبر کو کئی مقامات پر آگ لگ گئی جس پر قابو پانے کے لیے آگ بجھانے والے عملے کو کافی محنت کرنی پڑی۔ عملے میں شامل بعض افراد کا کہنا تھا کہ آگ بجھانے کے دوران کیمپ میں مقیم بعض افراد سے انہیں مزاحت کا سامنا کرنا پڑا۔ یونان میں حکام کا کہنا ہے کہ آگ لگنے کے اسباب کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔
لیکن بعض مقامی میڈیا کی خبروں کے مطابق ممکن ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کی روک تھام کے لیے حکام کی جانب سے جو پابندیاں اس ہفتے عائد کی گئی تھیں اس کے خلاف بطور احتجاج دانستہ طور کیمپ میں یہ آگ لگائی گئی ہو۔ اس ہفتے ٹیسٹ کے دوران موریا کیمپ میں مقیم ایک صومالی مہاجر کو کورونا وائرس سے متاثر پایا گیا تھا جس کے بعد حکام نے کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے لاک ڈاؤن جیسی سخت بندشیں عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد کیمپ میں مقیم رہائشیوں کی ٹیسٹنگ شروع ہوئی اور گزشتہ منگل تک کیمپ میں مقیم 35 افراد میں کورونا انفیکشن کی تصدیق ہوئی تھی۔
لیسبوس کے موریا کیمپ میں بارہ ہزار سے بھی زیادہ مہاجرین نے پناہ لے رکھی ہے، اس میں سے بیشتر افراد 2015 اور 2016 میں شام اور عراق میں ہونے والی جنگو ں سے جان بچا کر یہاں پہنچے تھے۔ اس کیمپ میں اصولی طور پر تین ہزار افراد تک کے رہنے کی گنجائش ہے لیکن بارہ ہزار سے زیادہ افراد رہتے ہیں۔ اس میں پانی جیسی بنیادی سہولیات کی قلت ہے اور حفظان صحت سے متعلق اصولوں پر پابندی محال ہے۔
انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں یونان پر زور دیتی رہی ہیں کہ وہ ان کیمپوں میں گنجائش سے زیادہ افراد کو اندرون ملک کے ان کیمپوں میں منتقل کرے جن میں نسبتا ًبھیڑ کم ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ ایک ریسرچر کاس گریس کہتے ہیں کہ ان کیمپوں میں اس قدر بھیڑ ہے کہ تمام کوششوں کے باوجود بھی کورونا وائرس کی وبا کے ماحول میں انفیکشن سے بچنے کے لیے صحت سے متعلق جو اصول و ضوابط ہیں ان پر عمل کرنا تقریبا ًنا ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”زبردست بھیڑ والے ایسے کیمپوں میں جہاں زندگی گزارنا ہی مشکل ہے، وہاں ہزاروں خواتین، مرد اور بچوں پر پابندیا ں عائد کردینے سے جو افراد متاثر ہیں انہیں کیسے الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے، یا پھر ایسے ماحول میں وہ سوشل ڈسٹینسنگ جیسی حفاظتی تدابیر پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟”
ایک جرمن رکن پارلیمان ایرک مارکواڈ کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر یورپ موریا جیسے زبردست بھیڑ والے کیمپوں سے نمٹنے میں ناکام ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ان کیمپوں میں آگ تو پہلے بھی لگتی رہی ہے تاہم، ”یہ آگ مختلف نوعیت کی ہے۔ موریا جل رہا ہے۔”
ہر برس ہزاروں کی تعداد میں مہاجرین ترکی کے راستے بذریعہ سمندر یونانی جزیروں تک پہنچتے ہیں تاکہ یہاں سے آگے دیگر یورپی ممالک تک پہنچ سکیں لیکن ایک بڑی تعداد میں وہ یونان کے ایسے کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔