تحریر : شاہ بانو میر فادرز ڈے کے دن ہر کوئی اپنے والد کی قربانیوں کو یاد کر رہا ہے٬ ان کی عظمت کے گن گا رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے والدین وہی کچھ ہمارے لئے کرتے جس پر فطرت نے انہیں مقرر کیا ہے٬ ممتا اور پدرانہ شفقت نکاح کے بعد اولاد جیسی نعمت کو پا کر خود بخود عود کر آتی ہیں ٬ کہیں غربت اور اولاد کیلئے باپ اپنے منہ سے نوالہ نکال کر بچوں کے منہ میں ڈالتا ہے۔
کہیں امارت ایسی کہ کوئی پرواہ نہیں کہاں کیا کب اولاد پر کیا خرچ کیا٬ کیونکہ ان کا بچہ جو پہنے گا اوڑھے گا وہ ان کی امارت کیلئے باعث افتخار ہو گا٬ ہر والد اپنی زندگی کو مشکل سے یا آسانی سے جیسے بھی حالات ہوں وہ اپنی زندگی کو اولاد کے بعد اس پر قربان کر کے اس کے اچھے مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر ممکن سہولت فراہم کرتا ہے٬ مگر ذرا سوچئے کسی کی اپنی اولاد بھی نہ ہو مگر وہ دوسروں کے بچوں کیلئے وہی درد وہی ہمدردی وہی احساس رکھتے ہوں؟ ایسے انسان دنیا میں بہت کم ہیں جو اپنی زندگی کو خدمت خلق کیلئے وقف کر دیتے ہیں ٬ یہ لوگ از خود نہیں بنتے انہیں خالق کائنات نے خاص بڑے مقاصد کیلئے بنایا ہوتا ہے۔
ان کے حالات اچھے ہوں یا برے انہیں اس سے کوئی غرض نہیں یہ مجبور ہیں اپنی اُس فطرت سلیم سے جو اللہ پاک نے ان کو چن کر ان کے وجود کا حصہ بنا دیا ہے ٬ یہ اپنی اولاد ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے اُن بچوں پر غور کرتے ہیں ٬ جن کے سروں پر والدین کا سایہ اٹھ چکا ہے اور جو حالات کی نا مہربانی کا شکار ہوتے ہیں٬ جو کل کے بد ترین انسان بن سکتے ہیں۔
Allah
مگر ایسے مہربان وجود انہیں اچھی تربیت دے کر اچھے انسان بنا کر معاشرے پر احسان کرتے ہیں جو پھر انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کیلئے مفید ثابت ہوتے ہیں٬ حادثات ہوں یا قدرتی آفات آپ ان کو دیکھتے ہیں٬ جن کو ان کے پیارے دیکھ کر منہ موڑ کر چلے جاتے ہیں ان گلے سڑے وجودوں کو محبت سے احترام سے آخری آرامگاہ تک پہنچاتے ہیں٬ وہ بچے جو یتیمی کا یا انسانی المیے کا شکار ہوتے ہیں یا تو ان کا نصیب کوئی کچرا گھاٹ ہوتا ہے۔
جہاں کتے انہیں بھنبھوڑ کر دنیا سے رخصت کر دیتے ہیں ٬ مگر جن بچوں کو اللہ پاک نے بچانا ہو اورانہیں اچھا مستقبل دے کر مستقبل میں بڑا کام لینا ہو انہیں ایدھی کا جھولا میسر آجاتا ہے ٬ اور وہ محفوظ مطمئین اور پرسکون زندگی کی ابتداء انسانیت کی سوچ کے ساتھ کرتے ہیں٬ عبدل الستار ایدھی ٬ ایک ایسا نام ایک ایسا اعتبار انسانیت کا جو سب کیلئے ہے خواہ پاکستان ہو یا بیرونی دنیا سب کیلئے انتہائی قابل احترام وجود ہے ٬ محترم ایسا کہ یتیم و یسیر بچوں کے ابو جان ہیں سلام آپکو قوم کے بچوں کے ابو جان”” ہیپی فادرز ڈے “” نومبر 2009 یادگار پیرس کا وہ دن جب اقوام متحدہ کا شاندار آڈیٹوریم جہاں پوری دنیا کے بڑے بڑے ٹی وی اداروں کے ممبران اخبارات کے نمائیندگان موجود تھے اور وہ لمحہ جب سادہ سیاہ لباس میں ملبوس ایدھی صاحب کی زندگی ان کے رفاحی کاموں پر تفصیلی فلم دکھائی جا رہی تھی٬ ان کو سیلاب میں نڈر ہو کر کام کرتے دکھایا جا رہا تھا۔
ان کو بے گورو کفن لاشیں اٹھاتے دیکھا جا سکتا تھا٬بچوں کو گود میں محبت سے کھلاتے ہوئے٬انہی کے درمیان انہی کے ساتھ وہی سادہ کھانا کھاتے ہوئے بوڑھے لاچار قریب المرگ افراد کو سنبھالتے ہوئے انہیں دلاسہ دیتے ہوئے ذہنی عارضوں میں مبتلا وہ لوگ جو لوگوں کے پتھروں کا نشانہ تھے آج محفوظ عمارتوں میں زندگی گزار رہے ہیںوہ عورتیں جو گھریل تشدد کی بنا پر یا شوہر کی اذیت سے تھک کر گھروں سے چلی جاتی ہیں۔
ایک مشفق جوڑا ماں اور باپ بن کر انہیں حتی الوسع تحفظ فراہم کرتے ہیں٬ بوڑھے نحیف وجود کے ساتھ سڑک پے بھیک مانگتے ہوئے دکھا رہے تھے٬ ہر پاکستانی غریب خواہ امیر سب ہی ان کو پیسے دے رہے تھے کیونکہ مستحکم اعتبار ہے ان پر ان کے کام پر٬ اسی وجہ سے تو آج پیرس میں ان کے اعزاز میں اتنی بڑی محفل کا انعقاد کیا گیا ہے۔
دنیا پاکستان کو دہشت گردی کے نام سے جانتی ہے مگر پیرس کے اس شاندار ہال میں بین القوامی اہم شخصیات کے ہجوم میں سکرین پر یہ قوم کا قابل فخر سچا کھرا بیٹا اپنے تمام تر اخلاص کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا ٬ ہال میں موجود وہ تمام سریہ زدہ گردنیں جھک گئیں اس انسان کی عظمت کے سامنے جیسے ہی فلم ختم ہوئی ہمارے چہرے اپنے لوگوں کی غربت پر آنسوؤں سے تر تھے مگر یہ کیا ہال میں گل کی ہوئی روشنیاں جگمگا اٹھیں اور پورا ہال سامنے بیٹھے نحیف ایدھی صاحب کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے کھڑے ہو کر پر زور تالیاں بجا کر خراج تحسین پیش کر رہے تھے ٬ اللہ کے حضور شکر ادا کیا کہ ابھی بھی کوئی ہے جو قابل فخر انسان ہے۔
Abdul Sattar Edhi
ایدھی صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی٬ ان کا پیغام سفارت خانہ پاکستان کے ایک آفیسر نے پڑھا اس میں خاص طور سے جو بات بہت اچھی لگی وہ یہ تھی کہ میں نے ہمیشہ بیرونی مدد کو ٹھکرایا ہے اور پاکستانیوں سے لے کر اپنے تمام کام سنوارے ہیں ٬ لیکن ابھیجیت یونیسکو کی جانب سے بہت اصرار کی وجہ سے پہلی بار یہ امدادی چیک لینے کہیں آیا ہوں ٬ 50 لاکھ ڈالر کا وہ امدادی چیک گویا ان کی صداقت کا ان کی لیاقت کا برملا اعلان تھا٬ بچپن میں دو پیسے جیب خرچ روزانہ میں سے 1 پیسہ کسی ضرورت مند کو دینے والا یہ انسان ایک غریب انسان تھا اسکی امیرانہ سوچ نے طبیعت نے اسے آج دنیا کا انسانیت کا جزبات کا امیر ترین انسان ثابت کر دیا ٬ جس کی محبت میں اخلاص میں گزرتے دن کے ساتھ مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
فلم چل رہی تھی ہال میں مکمل سکوت تھا کہ سوئی گرے تو آواز آ جائے یہ پاکستان کا الگ رخ تھا جو بہت پرسوز بہت دلگداز تھا ہمارے دشمن ذہن پہلی بار الجھ گئے تھے کہ ایسا اعلیٰ رفاحی کام پاکستان میں کیا ممکن ہے ؟ جھٹلانا ممکن نہ تھا کیونکہ مکمل ثبوت سامنے سکرین پر دیکھ رہے تھے امدادی فلاحی اداروں کا جالم پورے ملک میں بچھانے والا یہ انسان تاریخی نام بن چکا ہے٬ ایمبولینس چلا کر جاں بلب لوگوں کی جان بچانے والا آج ہیلی کاپٹر کا مالک بن چکا ہے ٬ مگر آج بھی وہی کسر نفسی وہی عاجزی جو ہمارے رب کو بہت پسند ہے جو کامیابی کی اصل کنجی ہے۔
پروگرام ختم ہوا مجھے شرف حاصل ہوا کہ میں نے ان سے بات کی جو علیل ہونے کی وجہ سے بہت مختصر تھی٬ لیکن ایسے عظیم المرتبت شخص سے یہ چند جملے میری زندگی کے یادگار لمحات میں سے ایک ہیں٬ آج فادرز ڈے ہے اپنے ڈیڈی جان پر لکھنا چاہوں تو صفحات ختم ہو جائیں مگر میرے ڈیڈی جان کی محبت ان کی شفقت انکی تعلیمی سوچ کو نہیں لکھ پاؤں گی ٬ لیکن آج حق اس انسان کی عظمت کو سلام کرنے کا ہے جس انسان نے اپنی اولاد ہوتے ہوئے دوسرے بچوں کو اپنی زندگی کے قیمتی لمحات دئے انہیں سنوارا انہیں اچھا انسان بنایا۔ سلام ہے قوم کے ابو جان !!