تحریر: محمد عتیق الرحمن براعظم ایشیا کے بڑے پہاڑی سلسلے کوہ ہمالیہ میں واقع خطہ جموں و کشمیر جسے دنیا کبھی جنت ارضی ،کبھی ایران صغیراورکبھی ایشیا کی انگوٹھی کا نگینہ جیسے القابات سے یادکرتی ہے ۔اسی کشمیر کے جلوئوں کو دیکھ کر مغل بادشاہ جہانگیرنے کہاتھا کہ
گر فردوس بر روئے زمین است ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
اس خطہ ارضی کی سرحدیں پاکستان،افغانستان ،چین اور بھارت سے ملتی ہیں ۔ اس وقت خطہ کشمیرکا تنازعہ 3ملکوں پاکستان ،بھارت اور چین کے درمیان ہے ۔ بھارتی مقبوضہ علاقے کو جغرافیائی حدود کے اعتبار سے 3حصوں یعنی وادی کشمیر،جموں اور لداخ میں تقسیم کیاجاتاہے ۔پاکستانی زیرانتظام کشمیر میں آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات شامل ہیں ۔ جموں کشمیر کا ایک علاقہ اقصائے چین بھی ہے جو 1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد سے چین کے زیرقبضہ ہے ۔1846ء کی جغرافیائی تقسیم کے مطابق جموں کشمیر کا کل رقبہ دولاکھ چوبیس ہزار سات سو اٹھتہرمربع کلومیٹر ہے ۔ جس میں بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کا رقبہ1 لاکھ1 ہزار3 سو87 مربع کلومیٹر ہے۔آزاد جموں وکشمیر بشمول گلگت بلتستان 85 ہزار8 سو 46مربع کلومیٹر جبکہ چینی مقبوضہ کشمیرکارقبہ37 ہزار5 سو55 مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے ۔بھارت کے زیر قبضہ علاقہ کی آبادی تقریباََ 95لاکھ سے زائد ہے جس میں نصف سے زائد لوگ وادی کشمیر میں بستے ہیں جن میں سے 97%کے قریب مسلمان اورباقی ہندواورسکھ وغیرہ ہیں ۔جموں کی آبادی 35لاکھ سے زائد ہے جس میں 40%مسلمان جبکہ 55%ہندو ہیں باقی 5%دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔جموں میں 1947ء تک مسلمانوں کی آبادی کا تناسب ہندوئوں سے کہیں زیادہ تھا جوکہ بعد میں مسلم نسل کشی ،ہندوئوں کی آبادکاری اور دیگر اقدامات کے ذریعے بھارت نے مسلمانوں کی آبادی کا تناسب جموں میں کم کردیا۔
Pakistan
کشمیروہ علاقہ ہے جو قیام پاکستان سے بھی قبل اپنی آزادی کی جنگ لڑرہاتھا ۔کشمیری قوم پاکستان سے الحاق کا نعرہ لگاچکی تھی لیکن کشمیر کے ہندوراجہ نے کشمیری قوم کی امنگوں کاخون کرتے ہوئے کشمیرکاالحاق بھارت سے زبردستی کردیا۔یوں کشمیریوں کی وہ حریت کی جنگ شروع ہوئی جو آج تک زوروشور سے جذبوں ،ولولوں اور امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے جاری وساری ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تیزی آرہی ہے ۔مستقبل کامورخ اگرکبھی کشمیر کی تارٰیخ لکھے گا تو مقبوضہ جموں وکشمیر اسے ایک بند جیل کی صورت میں نظر آئے گا جہاں ہر مسلم کشمیر ی کے سر پر ایک بھارتی فوجی گن تانے کھڑا ہے ۔بھارت نے 27اکتوبر 47ء کو اپنی افواج کشمیری مہاراجے کی درخواست پرکشمیر میں داخل کردیں ۔
بھارت کی طرف سے اس طرح کی بزدلانہ اور مکارانہ کاروائی پر قائداعظم نے اس وقت کے پاکستانی افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی کو حکم دیا کہ وہ کشمیرکو بھارتی تسلط سے آزادکروائیں لیکن جنرل گریسی نے تکمیل پاکستان کو نامکمل ایجنڈا کرنے کی راہ ہموار کرتے ہوئے انکارکردیا ۔بھارتی قبضے کے ردعمل میں کشمیری نوجوانوں ،قبائلی علاقوں کے پٹھانوں نے بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہوئے آواز حق بلند کی اور بھارتی افواج کو بتایا کہ پاکستان کی تکمیل کشمیرکے بغیر نامکمل ہے ۔بھارت نے جب دیکھا کہ مجاہدین سے لڑنا اس سے ناممکن ہے تو ہندوبنیاء اپنی روایتی مکارانہ سوچ کے زیراثر 17جنوری47ء کو اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی درخواست لے کر پہنچا اور یہ وعدہ کیا کہ کشمیریوں کوان کا حق خودارادیت دے گا ۔25جنوری کو کشمیر کمیشن کا تقرر ہوا اور 4فروری کو سیکیورٹی کونسل نے فیصلہ دیا کہ کشمیری مسئلے کا حل استصواب رائے سے کرایا جائے گا۔تاہم جنگ بندی کی قرار دار پر یکم جنوی 1949ء کو عمل کیا گیا۔اس سارے واقعے کے بعد کشمیریوں کی وہ روشن تاریخ شروع ہوتی ہے جو فلسطینیوں کو نکال کردنیاکی کسی بھی قوم کے حصے میں نہیں آسکتی ۔
United Nations
راجہ ڈوگرہ کے ظلم وستم کے خلاف کشمیری مسلمانوں نے بغاوت کی جس کے جرم میں13جولائی 1931ء کو13افرادکوسری نگر کی جیل کے سامنے قتل کردیا گیا ۔قیام پاکستان کے بعد اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کودنیاجہاں کے ظلم سے دبانے کی کوشش کی ہوئی ہے ۔پاکستانی ہمیشہ سے کشمیریوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں ۔قائداعظم کے فرمودات کے مطابق کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔یوم یکجہتی کشمیر کادن بھی اسی محبت کا ایک ذریعہ ہے جسے پہلی بار جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے 5جنوری 89ء کوپریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی 5فروری کو ہڑتال کی اپیل کرکے یوم کشمیر منانے کا کہا ۔اس وقت کے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف اور بعد میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بھرپور تائید کی ۔یوں 89ء میں پہلی مرتبہ اور 90ء میں تمام سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیرمنایا گیا ۔اور دنیا کو عمومااور بھارت کو خصوصاََپیغام ملا کہ کشمیر کے متعلق تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر ہیں ۔کشمیر میں بھارتی ظلم وستم اس قدر بڑھ گیاہے کہ امریکہ کو بھی تشویش کا اظہارکرنا پڑتا ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 89ء سے لے کر دسمبر15ء تک بھارت 94,296بیگناہ ،نہتے اور معصوم کشمیریوں کو شہیدکرچکاہے یاد رہے کہ ان میں 7,038کشمیری ایسے بھی شامل ہیں جنہیں بھارتی فوج اورپولیس نے جعلی مقابلوں میں شہید کیاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2015ء میں 156نہتے کشمیریوں کو بھارتی سورمائوںنے شہید کیا ۔1,32,448بے گناہ کشمیری گرفتار ہیں جبکہ کشمیری بیوائوں کی تعداد22,806تک پہنچ چکی ہے ۔یتیم کشمیری بچوں کی تعداد 1,07,545ہے اور کشمیری مائوں بہنوں کے گینگ ریپ سے متاثرہ تعداد 10,167کے لگ بھگ ہے اور 50,000سے زائد افراد گمشدہ ہیں ۔ یہ وہ گم شدہ ہیں جن کا کوئی اتاپتہ نہیں ۔ان کی مائیں ،بہنیں اور گھر کے افراد مایوس ہوچکے ہیں اور جب مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی قبر کاپتہ چلتاہے تو ان کے گھروں کہرام مچ جاتاہے کیونکہ بھارت کاکوئی قانون انہیں ان کے بچے نہیں دے سکتا ۔ شاید ہی کوئی جمعہ جاتا ہے جب کشمیری نماز جمعہ کے بعد” کشمیربنے گاپاکستان” ،”پاکستان سے رشتہ کیا ؟لاالہ الااللہ ”اور”ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان ہمارا ہے ” جیسے نعرے نہیں لگتے اور مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا جھنڈا نہیں لہرایاجا تا ۔مندرجہ بالا رپورٹ کوسامنے رکھتے ہوئے ذرا ہاتھ دل پررکھتے ہوئے سوچیں کہ اتنی قربانیوں کے بعد بھی وہ کون سی چیز ہے جو کشمیریوں کو آزادی کی طرف گامزن کئے ہوئے ہے ۔وہ چیز دوقومی نظریہ ہے جس کی بنیادپر پاکستان معرض وجود میں آیا تھا ۔
Indian Aggression
پاکستان کاموقف ہمیشہ سے ہی کشمیرپر دوٹوک رہاہے گوکچھ سیاست دانوں نے بیک ڈور کی بنیاد پر اسے اپنے طور پر حل کرنے اور کچھ سیاست دان نمانام نہاد دانش وروں نے کشمیر کے مسئلے کو اپناماننے سے ہی انکار کردیا لیکن تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ پاکستانی عوام اور مذہبی طبقے نے کبھی بھی کشمیرکواپنے سے الگ تصور نہیں کیا ۔بلکہ جب بھی کوئی حکومت کشمیر کے مسئلے پر کام کرنا چاہتی ہے تو پاکستانی عوام کی امیدوں کا محوربن جاتی ہے ۔یوم یکجہتی کشمیر کا مسئلہ کوئی سیاسی یاجذباتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ۔یوم یکجہتی کشمیر کے دن اس بطل حریت کوخراج تحسین پیش نہ کرنا زیادتی ہوگی جس نے اس دن کا اعلان کرکے پاکستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پرلاکھڑاکیا اور آج پوری دنیا میں 5فروری کو پاکستانی اور کشمیری بھارتی مظالم کے خلاف اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیر یوں کو حق خودارادیت نہ دینے کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانے کے ساتھ ساتھ ورلڈمیڈیا کوجنجھوڑتے ہیں کہ کشمیری بھی انسان ہیں جنہیں بھارت نے بدترین ریاستی دہشت گردی اور کالے قانون سے دبانے کی کوشش کی ہوئی ہے ۔بھارتی میڈیا اپنے حکمرانوں کی روش پرچلتے ہوئے کشمیریوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے ،۔
انہیں دہشت گرد کہنے اور نہتے کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرنے اور انہیں دہشت گرد ثابت کرکے عالمی میڈیا کی ہمدردیاں حاصل کرتاہے ۔آج مقبوضہ کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جس کا کوئی فردشہیدیازخمی نہ ہواہویاجس کی کسی ماں ،بہن یابیٹی کی عصمت نہ لٹ چکی ہو۔اسی طرح لاکھوں کی تعداد میں کشمیری اپاہج ہوچکے ہیں ۔مقبوضہ جموں وکشمیر میںبستیوں کی بستیاں ویرانے میں تبدیل ہوچکی ہیں ۔کشمیر جو جنت ارضی کہلاتا تھا آج بھارت کی دہشت گردی اور عالمی طاقتوں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے موت کی وادی بن چکا ہے ۔کشمیری عوام نے یہ سب قربانیاں حق خوداردایت اور تکمیل پاکستان کی بقا ء کے لئے دی ہیں۔پاکستان کشمیر کا وکیل ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کامحافظ بھی ہے ۔ اس لئے حکومت وقت کو چاہییے کہ مقبوضہ کشمیر کامسئلہ اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے اٹھائے اور بھارت کے مظالم کو میڈیاسامنے لائے تاکہ کشمیریوں کی قربانیوں اور بھارتی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے لایا جائے ۔