کیا واقعی ہماری پاکستانی قوم کے پاس اِس کے علاوہ کرنے کو کچھ نہیں ہے؟ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آج کیا چھوٹی چھوٹی باتوں کو اُچھال کر ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے کیا واقعی ہماری قوم کے پاس کسی کی پگڑی اُچھالنے کے اور کچھ کام نہیں ہے؟ جیسا کہ پچھلے کئی دِنوں سے ہمارے یہاں یہ ہو رہا ہے کہ ایک ادارے اور اِس کے افراد کی جانب سے کوئی غلطی ہو گئی ہے یا اِس غلطی کی وجہ سے لوگوں کے جذبات کو کوئی ٹھیس پہنچی ہے تو سب ہی اُس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں جب کہ اُس ادارے اور افراد کی طرف سے معافی بھی مانگ لی گئی ہے مگر اِس کے باوجود بھی ہم ہیں کہ پھر کیوں؟اور کس لئے اُس ادارے اور افراد کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں؟
اگرچہ آج ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ اگر کسی کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اور وہ فوراََ معافی مانگ لے تو ہمارا مذہب بھی یہ کہتا ہے کہ اُسے معاف کر دو اور عفو و درگزر سے کام لواگر کسی کی معافی تلافی کے بعد بھی ہم اپنے کسی بغض کی وجہ سے اِس کے خلاف پروپیگنڈا جاری رکھیں تو پھر ہم اپنے ہی مذہب کی تعلیمات اور اخلاق کی دھجیاں خودہی بکھیر رہے ہیں تو ایسے میں، میںایک بار پھریہ کہہ کر آگے بڑھوں گا کہ اُوہ یار!چھوڑواِن ساری باتوں کو اور بھی غم ہیں زمانے میں ایک یہی نہیں ہے کہ اِسی کو ہی سینے میں دباکر بیٹھ جائیں اوراپنے سارے کام ٹھپ کر دیں۔
بہرحال آج ایسے لگتا ہے کہ جیسے ہماری قوم کا ایک ایک فرد حکمرانوں سے لے کر ایک عام پاکستانی شہری تک سب ہی اپنی اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھا چکے ہیں اور سب ہی اپنے تمام مسائل کا حل نکال کر ہر قسم کے جھمیلوں سے فارغ ہو چکے ہیں، اور یوں بھی لگتا ہے کہ جیسے میری قوم کے پاس اور کوئی کام ہی نہیں ہے، سوائے اِس کے کہ یہ کبھی کسی کے؟ تو کبھی کسی کے اِس کام کے علاوہ میری قوم کے پاس اور کوئی کام ہی نہیں رہ گیا ہے، ماضی پر نظرڈالیں تو معلوم ہو گا کہ روس افغان جنگ میں بھی میری قوم کے لوگوں نے ایساہی کیا تھااور کسی کی جنگ کو گود لے کر اپنی جنگ بنالی تھی، تب ہمارے ہی لوگوں نے مذہبی جذبات بھڑکا کر ساری دنیا میں ایساواویلا کیا تھا کہ اُس وقت کے دنیا بھر کے جذباتی مذہبی انتہاپسنداپنااپنا بوریا بستراسمیٹ کر پاکستان کی جانب رخ کر کے چلتے بنے تھے۔
یہ یہاں سے افغانستان میں گھس کر روس سے لڑتے رہے اور بالآخر اِنہوں نے بہادروں کی طرح لڑکر روسیوں کو شک دی اور روس کے خاتمے کے بعدنوبت یہ آ گئی ہے کہ اَب یہ لوگ ہم سے ہی اپنی بقا کی جنگ چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کی شکل میں لڑ رہے ہیں،آج ہمیں یہ بات بھی تسلیم کر لینی چاہئے کہ ہم ماضی میں امریکا کے کہنے پر روس افغان جنگ میں فضول میں گود گئے اور روس افغان جنگ کا حصہ بن گئے آج ہم موجودہ حالات و واقعات میں جن ہولناکیوں سے گزر رہے ہیں یہ یقینا ہمارے اُس وقت کے حکمرانوں سے سر زد ہونے والی وہ فاش غلطی تھی جس نے ہمیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے اوراِسی کے ساتھ ہی اِس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ آج ہماری ساری قوم اُس غلطی کا خمیازہ اُن ہی شدت پسندوں کی طرف سے اپنی سرزمین پر ہونے والی دہشت گردی اور خون خراب میں نہتے اور معصوم اِنسانوں کے لاشیں اُٹھانے کی صورت میں بھگت رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ کہ ابھی ہماری پاکستانی قوم روس افغان جنگ کے بعد اپنے اُوپر مسلط ہونے والے افغان مہاجرین اور اِن کی شکل میں خود پر گزرنے والے عذاب سے نکل بھی نہیں پائی تھی کہ امریکا نے اپنی زمین پر نائن الیون کو دو طیاروں سے تباہ ہونے والی عمارتوں کاالزام بھی افغانستان اور پاکستان میں روپوش ہونے والے افغان اور طالبان انتہاپسندوں کے سربھی دے مارااور امریکا نے ایک فون کال کے ذریعے ہمارے اُس وقت کے آمر جنرل کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر یہ کہتے ہوئے مجبور کر دیا کہ اگر ہماری اِس مصیبت کے وقت پاکستان نے ہماراساتھ نہ دیا تو پھر پاکستان کو قبل ِ مسیح کے پتھر کے دور میں پہنچا دیا جائے گا یوں ہمارے تیزمگر ہر لحاظ سے مصالحت سے کام لینے والے آمر جنرل جواُس وقت پاکستان کے صدر بھی تھے اُنہوں نے بس ایک امریکی کال پر امریکا کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی اور پھر یوں امریکا نے سات سمندر پار بیٹھ کر پاکستان کو زبردستی اپنی جنگ میں فرنٹ لائین کی ذمہ داریاں سونپ دیں۔
America
پاکستان آج تک ایک مرتبہ بھر امریکی سازش کا حصہ بن کر اپنا سب کچھ امریکا پر قربان کر رہا ہے مگر اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی پاکستان کے حصے میں کچھ نہیں آ رہا ہے، آج بھی پاکستان جب کبھی پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو اِس کے پاس سوائے خالی ہاتھ اور کفِ افسوس کے کچھ نہیں دکھائی دیتا ہے، بات یہیں ختم نہیں ہوتی ہے، اِس کے علاوہ بھی پاکستانی قوم اور اِس کے حکمران بغیر سوچے سمجھے دوسروں کے معاملے میں چھلانگیں لگانے میں مہارت رکھتے ہیں۔
آج بھی ایسی بہت سی مثالیں موجودہیں جب پاکستانی حکمران اور پاکستانی عوام دنیاکے کسی بھی خطے میں اِنسانوں پر ہونے والے مظالم اور زیاتیوں کے خلاف اپنا دردسمجھ کر چیخ پڑتے ہیں، اِن کے ایسے جذبات اور احساسات پر کبھی کبھی ایسابھی لگتا ہے کہ یا تو پاکستانی بہت زیادہ حساس دل ہیں اور یہ عالمِ انسانیت سے بے پناہ محبت کرنے والے کروڑوں اِنسانوں کا وہ ٹولہ ہے جسے عالم اِنسانیت سے بلاکسی غرض اور فائدے کی بے لوث محبت ہے اوریہ لگ بھگ بیس کروڑ اِنسانوں کا یہ ٹولہ عالمِ اِنسانیت کو درپیش مسائل اور اِن کی پریشانیوں اور الُجھنوں کو اپنا محسوس کر کے فوری حل نکالنے کے لئے اپنا تن من اور دھن داؤ پر لگا دیتا ہے اور بیس کروڑ پاکستانیوں کا یہ ٹولہ دنیا کے کسی بھی مُلک کے اِنسانوں کا کیسابھی معاملہ کیوں نہ ہو مگر بیس کروڑ پاکستانی کسی اور کے ایشوز کو بھی عالمی سطح پر ایسے اُجاگر کرتے ہیں کہ جیسے دنیا کے سارے مسئلے اور مسائل اور پریشانیاں اور اُلجھنیں اِن کی اپنی ہیں۔
جبکہ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ضرور ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اِس حساسیت اور جذباتیت کو دنیا پاگل پن سے جانتی ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا ہماری ایسی حرکات سکنات کو بھی پسندن ہیں کرتی ہے اور اِسی وجہ سے دنیا ہمیں جذباتی اور جنونی کہہ کر بھی پکارتی ہے مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی یہ ہم پاکستانیوں کا ہی اعلیٰ ظرف ہے کہ ہم اِنسان و اِنسانیت اور مذہب و ملت کے حوالوں سے عالمِ اِنسانیت کا درد رکھتے ہیں ایک ایسا درد جس سے دنیا کے بڑے بڑے امیرترین اور ترقی یافتہ ممالک اور معاشرے کے لوگ بھی خالی ہیں مگر بحیثیت مسلمان اور ایک اللہ عزوجل، ایک رسول اور ایک قرآن پریقین رکھنے کی وجہ سے ہم بیشک عالمِ انسانیت کا احترام کرتے ہیں، ہمارامنشوراور ہمارایہ یقین ہے کہ اِنسان زمین پر امن و آشتی،اخوت ومحبت، اتحادویکجہتی، بھائی چارگی اور یگانگت کے لئے پھیلائے گئے ہیں، اِس لئے بحیثیت مسلمان اور ایک پاکستانی کے ہمارایہ ایمان ہے کہ ہمیں دنیاکے لوگ کچھ بھی کہیں مگر ہم دنیاکو امن محبت اور بھائی چارگی کا گہوارِ عظیم بنا کر ہی دم لیں گے۔
ہمیں اِس سے بھی کوئی سروکار نہیں ہے کہ ہمارے کتنے مسائل ہیں اور ہم کب سے اور کب تک اپنے مسلے مسائل میں گھیرے ہیں اور پریشانیوں میں گھیرے رہیں گے؟ یہ تو ہم خود بھی نہیں جانتے ہیں مگر بس ہم یہ جانتے ہیں کہ ہمارے اندرعالمِ انسانیت سے بے لوث محبت ہے اور ہم ہر مذہب و ملت اور فرقے کی تعلیمات اور رسم ورواج کا بھی احترام کرنااپنے دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق خود پرلازم سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے۔
ہم کسی بھی مذہب اور فرقے کے خلاف کچھ کہنا گناہ تصور کرتے ہیں مگر پھر بھی اگر ہماری آہستیوں میں چھپ کر کچھ ناسمجھ قسم کے عقل کے اندھے شیطان کے آلہ ء کار بن جائیں اور کچھ ایسی ویسی حرکت کر بیٹھیں تو اِس سے نہ مسلمانوں کا کوئی تعلق ہے اور نہ ہی وہ پاکستانی کہلانے کے حقدار ہیں کیوں کہ ہم یہ بات اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ مسلمان اور پاکستانی تو محبت اور بھائی چارگی کو آپس میں پروان چڑھانے والے ہوتے ہیں اِن کا کام لڑائی جھگڑے کرنا اور انارگی پھیلانا نہیں ہے بلکہ محبتیں باٹنااور ایک دوسرے اِنسان کی مدد کرنا ہے۔