تحریر: مریم ثمر عجلہ عروسی کا خوب سجا سجایا کمرہ، گلاب اور موتیوں کے پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔ دیواروں کو سرخ، سبز ،سنہری، اور نیلی چمکیلی لڑیوں سے سجا رکھا تھا۔ مصنوعی گلاب ایک قرینے سے ان کے درمیان کہیں کہیں چسپاں کئے گئے تھے۔ ٹینس بال جتنے چھوٹے چھوٹے چمکتے دمکتے بلب بھی کہیں کہیں لٹک رہے تھے۔
ماہ رخ سرخ جوڑے میں دلہن بنی بیٹھی تھی۔ گورے گورے مہندی سے رچے اور سونے کی چوڑیوں سے بھرے ہاتھ اس کی امارت اور خوبصورتی کا پتہ دیتے تھے ۔انیس سال کی نرم و نازک اور حسین دوشیزہ اپنے خوابوں کے شہزادے کے انتظار میں تھی ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دل کی دھڑکن نجانے کیوں تیز ہو رہی تھی ۔ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز نے جیسے اسے بالکل ہی بے قابو سا کر دیا ۔قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ قریب آکر رک گئی ۔ ”آداب عرض ہے ۔ ”نوید کی شوخ اور شرارت سے بھری آواز کمرے میں گونجی ۔ ماہ رخ نے صرف سر ہلانے پر ہی اکتفا کیا۔
نویدگورا چٹا دبلا پتلا خوبصورت نوجوان تھا ۔ ۔ سنہری شیروانی اس پر خوب جچ رہی تھی اس نے پگڑی اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی اور نپے تلے قدم اٹھاتا ماہ رخ کی طرف بڑھا ۔ گلاب اور موتیوں کی لڑیوں کو سمیٹ کر ایک طرف کیا اوراس کے کے بالمقابل بیٹھ گیا ۔ نوید نے اس کا نرم نازک ہاتھ تھاما اور ہیرے کی انگوٹھی انگلی میں انتہائی پیار اور چاہت کے ساتھ پہنا دی ۔ ماہ رخ نے شرما کر اپنا ہاتھ دوبٹے میںچھپانے کی ناکام کوشش کی ۔ نوید نے اس کے ہاتھ کو پکڑ کربوسہ دیا اور اپنی گال کے ساتھ لگا لیا ۔ ماہ رخ کے دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہوگئیں ۔ پورے جسم میں سنسی سے دوڑ گئی ۔ پیار کے اس احساس نے اسے خود سے بیگانہ سا کر دیا۔
نوید نے آہستہ آہستہ اس کے دوبٹے کو سرکانا شروع کیا ۔ ماہ رخ جو پہلے ہی چھوئی موئی بنی تھی مزید سمٹ کر رہ گئی ۔ وہ اس کی ایک ایک ادا کو دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا ۔آنکھوں میں پیار کے دیپ روشن تھے ۔مزید صبر کیئے بغیر اب وہ اسے اپنے بازووں کے مضبوط حصار میں لینا چاہتا تھا ۔۔نوید نے بے تابی سے ماہ رخ کا دوبٹااتاردیا ۔ اور ایک لمحہ کو ساکت ہوگیا ۔ آج تو ماہ رخ کا حسن گویا قیامت ڈھا رہا تھا ۔ نرم نازک ہونٹوں پر سرخ لپ اسٹک یو ں لگ رہی تھی جیسے کسی نے کھلتا ہوا گلاب رکھ دیا ہو ۔ پلکیں شرم و حیا کے بوجھ سے مسلسل لرز رہیں تھیں ۔ گورے نازک گالوں پر بلش آن سے بھی زیادہ شرم و حیا کی لالی نمایا ں تھی۔
” ماہ رخ ”۔ نوید نے بے تابی سے پکارا ۔ ” جج جی ”.. ۔ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی ۔ ”بہت پیاری لگ رہی ہو۔” وہ مسکرا کر بولا ۔ ماہ رخ گھبراہٹ میں یونہی چوڑیوں کو گھمانے لگی ۔
” اچھا ایسا کرو تم کپڑے تبدیل کر لو تھک بھی گئی ہوگی ۔ اور ہاں زرا جلدی آجانا مجھ سے اب اور انتظار نہیں ہوتا ۔” اس نے ماہ رخ کی طرف جھکتے ہوئے سرگوشی کے انداز میں کہا ۔ اس کی آواز میں خوشی صاف محسوس کی جاسکتی تھی ۔ ماہ رخ سر ہلا کے رہ گئی ۔اور اپنا بھاری بھرکم شادی کا جوڑا اتار نے وش روم میں چلی گئی۔ نوید بھی اس دوران شب خوابی کا لباس تبدیل کرچکا تھا ۔ ماہ رخ جونہی باہر آئی وہ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا ۔ لمبے گھنے بالوں سے شبنم کی طرح ٹپکتے پانی کے قطروں اور ماتھے پر پڑی گیلی لٹ نے تو جیسے اس کے حسن کو اور بھی نکھار دیا تھا ۔ ۔ وہ بے تابی سے آگے بڑھا ۔ اور اسے اپنے ساتھ لپٹائے ہوئے بیڈ تک لے آیا نوجوانی کی محبت کا نشہ اپنے پورے جوبن پر تھا۔
Grief
” ماہ رخ آج ہماری زندگی کا سب سے قیمتی اور یاد گار دن ہے ۔ میں اس دن کو اور بھی یاد گار بنانا چاہتا ہوں اپنی تمام تر محبت اور چاہتوں کا بھر پور اظہار کرکے ۔ کیا تم مجھے اسکی اجازت دو گی’ ‘۔ نوید نے اس کی تھوڑی نرمی سے اٹھاتے ہوئے کہا ۔ ماہ رخ نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا نوید کی آنکھوں میں پیار کی والہانہ چمک دیکھ کر شرما گئی ۔ نوید اٹھا اور اسے آرام سے بیڈ پر لٹا دیا ۔خود دوسری طرف سے آکے اس کے پہلو میں لیٹ گیا ۔ ” ماہ رخ مجھے تمہاری یہ نیلی آنکھیں بہت پسند ہیں ۔”اس نے اپنا ہاتھ اس کی آنکھوں پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ انگلیوں کو حرکت دینے لگا ۔ ”مجھے تمہارے یہ ہونٹ بھی بہت پسند ہیں ۔ ایسا لگتا ہے سار ا شہد ان میں گھول دیا ہو” ۔اب وہ ماہ رخ کے ایک ایک لمس کو محسوس کرتے ہوئے واہلانہ محبت کا اظہا ر کر رہا تھا ۔ اس کی تشنگی اس کی پیاس کم ہونے میں نہیں آرہی تھی ۔ ماہ رخ بھی اس کے پیار میں مکمل طور پر ڈوب چکی تھی۔
پیار و محبت کا ایک سال کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا ۔ اسی دوران ماہ رخ نے ایک بہت ہی پیاری بیٹی کو جنم دیا جو بالکل اسکی فوٹو کاپی معلوم ہوتی تھی ۔ اسی کی طرح حسین و خوبصورت ۔ایک دن طوفان اور تیزبارش کا خوب زور تھا ۔ ہوا سے کھڑکیاں دروازے بج رہے تھے ۔جنہیں بند کرنے کے بعدماہ رخ اپنے کمرے میں آئی اور ڈیک آن کر دیا ۔ موسم کی مناسبت سے گانا کمرے میں گونجنے لگا ۔ موسم ہے عاشقانہ اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ ھ لانا ۔ وہ ساتھ ساتھ خود بھی گنگناتی جارہی تھی اور کچھ سوچ کر کبھی مسکراتی تو کبھی شرما جاتی ۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ مگر نوید ابھی تک گھر نہیں پہنچا تھا ۔ ماہ رخ کی تشویش بڑھتی جارہی تھی ۔ پانی لینے کچن میں گئی فرج کھولا ۔ نجانے کس طرح گلاس اس کے ہاتھ سے پھسلا اور فرش پر گر گیا ۔ یا اللہ خیر ! بے اختیار اس کے منہ سے نکلا ۔وہ اور بھی پریشان ہوگئی ۔ آخر اس سے رہا نا گیا اور اپنے بابا کو فون ملایا ۔”بابا نوید ابھی تک نہیں آئے” وہ روہانسی ہوگئی۔
” آجائیںگے بیٹا فکر نا کرو دیر سویر ہوہی جاتی ہے ۔ ” بابا نے تسلی دیتے ہوئے کہا ”جی بابا جانی مگر انہوں نے آج تک اتنی دیر نہیں کی ۔ اگر دیر ہوبھی جائے تو فون پہ بتا دیتے ہیں ۔ مگر ابھی تک کوئی فون بھی نہیں آیا ۔” اور پھر ان کا فون بھی بند جارہا ہے۔ ”ماہ رخ کے لہجے میں فکر اور تشویش کے آثار نمایا ں ہوتے جارہے تھے ۔ اماوس کی اس رات کے علاوہ انتظار دکھ اور کرب کی اور بھی کئی راتیں یونہی گزر گئیں ۔نوید کو بچھڑے سترہ سال ہورہے تھے اس کا کہیں کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔زمین کھا گئی کہ آسمان کہیں سے کوئی خبر نا ملی ۔ ماہ رخ ابھی بھی جوانی کی دہلیز پر تھی ماں باپ کو اس کی شادی کی فکر ستانے لگی ۔ نوید کے انتظار میں اس کی نیلی آنکھوں میں اب مایوسی اور ناامیدی اتر آئی تھی ۔ وہ دوسری شادی کے لئے تیار نہیں تھی ۔ مگر گھر والوں نے کسی نا کسی طرح شادی پر رضا مند کر لیا ۔ ایک شادی شدہ عورت اور بیٹی کا ساتھ ۔ ایسے میں اچھے رشتوں کا کال پڑ جاتا ہے ۔ پھر ”جہاں ہے جیسا ہے” کہ بنیاد پر بس بیٹی کو ایک سہارا مل جائے یہی والدین کے نزدیک غنیمت ہوتا ہے۔ بہت سے رشتے آئے مگر سب بال بچوں والے غربت کے مارے یا پھر کوئی چٹا ان پڑھ ۔ آخر بہت کوششوں کے بعد ایک جگہ رشتہ طے پاگیا ۔ ناناابو نے ماہ رخ کی بیٹی کو اپنے پاس رکھ کر اسے پالنے کی زمہ داری لے لی تھی جو خوب اچھی طرح نبھائی۔
ماہ رخ پھر سے ایک نئی دنیا کا خواب سجائے پیا دیس سدھار گئی ۔ اس کا دوسرا شوہر متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا ۔اتنا کما لیتا تھا کہ بمشکل گزارا ہو رہا تھا ۔ ماہ رخ کے جزبات و احساسات سر د ہوچکے تھے اسے اس بات کی بالکل بھی پرواہ نہیں تھی کہ نازو نعم میں پلی اب کس ماحول میں زندگی گزارے گی ۔ ایک سال بعد ہی ماہ رخ کے شوہر کو نشہ کی لت لگ گئی ،۔ اب وہ ماہ رخ پر تشدد کرنے لگا روز اسے مارتا اور نشے کے لئے پیسے طلب کرنا اس کا معمول بنتا جارہا تھا ۔پیسے نا ملنے پر اس کے نرم و نازک جسم کو سگرٹ سے داغ دیتا ۔ وہ کراہتی اور اپنے درد اور دکھ کی تمام تکالیف کو اپنے اندر دفن کر دیتی ۔ اس کے بابا جو اس کی ذرا سی تکلیف برداشت نا کرتے تھے ۔ جہاں نوید کی محبت اور پیار سے اس کا جسم سراپا محبت بنا ہوا تھا ۔ اب سیگرٹ اور لگائی گئی چوٹوںکے نشان چھوڑتا جارہا تھا ۔ ماہ رخ آخر کب تک اس ظلم کو برداشت کرتی ۔ اس کے اندر صبر اور حوصلہ کی طاقت بالکل ہی جواب دے چکی تھی ۔دوسرے شوہر سے اس کے ایک بیٹی اور دو بیٹے تھے جب بچوں کی طرف دیکھتی تو ان کے مستقبل کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوجاتی ۔روز روز کی مار کٹائی اور بڑھتے ہوئے نشے کے باعث آخر اس نے دوسرے شوہر سے علحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔۔ اور بچوں کو لے کر ایک کرائے کے گھر میں رہائیش اختیار کرلی۔ ماہ رخ کی خوبصورت اور حسین بیٹی اب سولہ سال کی ہوچکی تھی ۔ اس کے رشتے آنے شروع ہوگئے ۔ ایک دن رشتے کروانے والی خالہ ماہ رخ کے پاس کچھ تصویریںلے کر آئی ۔ ماہ رخ نے جب ان تصویروں کو دیکھا تو ٹھٹھک کر رہ گئی اس کے چہرے پرایک رنگ آرہا تھا اور ایک جارہا تھا ۔ خالہ نے اس کی اس بدلتی کیفیت دیکھ کر تشویش سے پوچھا ۔ ”ماہ رخ بیٹی خیریت تو ہے ۔”؟ کیا ہوا ۔؟؟طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔ ؟” آخر کچھ بتاو تو سہی کیا ہوا ۔ خالہ ایک ہی سانس میں سوال کیئے جارہی تھیں ۔ ”آں ہاں” ۔ وہ جیسے اپنے خیالوں سے چونکی ۔
Marriage
”خ خااالہ یہ ۔ نن نوید ہیں” ۔ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔ ”کیا کہہ رہی ہو ?”کیا نوید زندہ ہے ۔ ”خالہ حیرت سے کبھی ماہ رخ کو اور کبھی اس کی گود میں رکھی تصویروں کو دیکھتیں ۔ ماہ رخ کے چچا اور بابا کا مالی تعاون اس کے ساتھ تھا ۔بابا کے انتقال کے بعد چچا نے ماہ رخ کو کسی قسم کی کمی محسوس نا ہونے دی ۔ مگر ایک دن اچانک ہارٹ اٹیک سے ان کی بھی وفات ہوگئی ۔ یہ خبرماہ رخ پر بجلی بن کر گری ۔ ہمت کرکے بچوں کو تیار کیا اور افسو س کے لئے چچا کے گھر آگئی ۔ محلے والوں کے جانے کے بعد وہ باہر صحن میںنکل آئی ۔ جہاںایک کرسی پڑی ہوئی تھی ۔ ماہ رخ ابھی اس کرسی پر بیٹھی بھی نا تھی کہ ایک جانی پہچانی اور مانوس آواز نے اسے چونکا دیا ۔” ماہ رخ ”۔ آواز دوبارہ سنائی دی اس نے پلٹ کر دیکھا تو نوید اپنی تمام حشرسامانیوں کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھا ۔ ماہ رخ نے فورا کرسی کا سہارا لیا ”تت تم۔۔۔۔ ” ماہ رخ کے سامنے جیسے سارے گزرے مناظر ایک فلم کی طرح چلنے لگے ۔ نوید بے تابی سے آگے بڑھا ”ماہ رخ میں آگیا ہوں ۔دیکھو میں آگیا ۔” ماہ رخ نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ۔اور کمرے کی طرف پلٹ گئی ۔ ضبط کیئے ہوئے آنسو شدت غم تکلیف اور دکھ سے کسی جھرنے کی طرح بہہ نکلے۔
ماہ رخ اپنے گھر آگئی ۔ اسے اپنا آپ بکھرتا ہوا محسوس ہورہا تھا ۔ سر درد کی گولی لی اور لیٹ گئی ۔ شام دیر تک سونے کی وجہ سے اب وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی تھی ۔ نوید کے ساتھ گزرے پیار و محبت کے لحموں کو یاد کرکے تڑپ کے رہ جاتی ۔ مگر ساتھ ہی دوسرے شوہر کا ظلم اور تشدد اس کے اندر مردوں سے نفرت کو بڑھاوا دے رہا تھا ۔ نوید نے نجانے کس طرح ماہ رخ کا فون نمبر لیا اور اسے فون کیا ۔” ماہ رخ پلیز میں تم سے ملنا چاہتا ہوں ۔ میری بات سنو” ۔ ماہ رخ نے بے رخی سے فون بند کر دیا ۔ اس نے دوبارہ فون کیا اور بولا” اگر تمہیں میری محبت پر ذرا سا بھی یقین ہے تو آج ہی مجھ سے ملو میں تمہیں خود پر گزری داستان سنانا چاہتا ہوں ۔” ماہ رخ غصے سے پھنکاری ۔ مجھے تم سے اور تمہاری کہانی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تمہاری وجہ سے میری زندگی عذاب بنی اب رہ کیا گیا ہے سنانے کو مجھے کچھ نہیں سننا ۔”ایک دو دن کے بعد ماہ رخ کی خالہ اس کے گھر آئیں اور اسے بتایا کہ کیسے پولیس اس کو پکڑ کر لے گئی ۔ اور اس پر تشدد بھی کرتی رہی ۔ وہ اتنے عرصہ کس طرح تکلیف میں رہا ۔ماہ رخ بیٹی وہ اب بھی تمہیں چاہتا ہے تم سے پیار کرتا ہے ۔ اس کے پیار کو ٹھکراو مت ۔۔۔۔۔۔اس سے شادی کر لو۔۔ ۔ ماہ رخ حیرت سے یہ سب سن رہی تھی ۔ خالہ کے جانے کے بعد وہ کمرے میں آئی ڈیک آن کیا ۔اوربے دم سی ہوکر بستر پر لیٹ گئی ۔ کمرے میں غزل گونجنے لگی ۔۔ غم کا فسانہ تیرا بھی ہے میرا بھی۔ دل دیوانہ تیرا بھی ہے میرا بھی۔