غمِ دنیا کے ماروں پر ذرا ماتم کیا جائے چلو ہم بے سہاروں پر ذرا ماتم کیا جائے جہاں ہرگام پہ مقتل سجے ہیں بے زبانی کے کبھی اُن رہگزاروں پر ذرا ماتم کیا جائے رہی ہر شاخ بے برگ و ثمر جِن کے نصیبوں کی اُنہی اجڑی بہاروں پر ذرا ماتم کیا جائے فقط اِک بار تو اِس زندگانی کی عداوت میں محبت کے مزاروں پر ذرا ماتم کیا جائے جنہیں گھیرا ہے اب بھی ہوش کے خدشات نے ساقی تیرے اُن بادہ خواروں پر ذرا ماتم کیا جائے نگلنے آئے ہیں اب کے اندھیرے اِس تمدن کے میرے اِن مہ پاروں پر ذرا ماتم کیا جائے ڈبو آئے ہیں جن کو ناخدا اُن کے لئے ساحل کھڑے ہوکر کناروں پر ذرا ماتم کیا جائے