تحریر : حاجی زاہد حسین خان 1990ء میں جب میرا پہلا کالم جنگ کراچی میں چھپا تو میری خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ تب پھر اسی سال عالمی ختم نبوت کے زیر انتظام مقابلہ مضمون نویسی بعنوان (قادیانیت انگریزوں کا خود کاشتہ پودا) میں راقم نے حصہ لیا پوری دنیا سے پانچ سو اردو دانوں نے مقابلہ میں حصہ لیا جس میں میرا گیارہواں نمبر آیا مجھے انعامی کتابیں اور سند امتیاز جدہ میں پہنچائی گئیں۔ جس پر مہر ختم نبوت کندہ تھی تب پھر بڑی خوشی ہوئی ۔ اہل علم حلقہ باراں وسیع ہوا۔ ویکلی مجلس اور بحث و مباحثے شروع ہوئے۔ تب نوائے وقت راولپنڈی اور منظر کشمیر میگزین اردو نیوز جدہ میں میرے کالم لگنے شروع ہوئے ۔ اور یہ سلسلہ کتابت پندرہ سال جاری رہا۔ ساتھیوں دوستوں نے بھی بڑی حوصلہ افزائی کی یہ وہ دور تھا جب پاکستان کے نامور دانشور ادیب اور کالم نویس جن میں تکبیر کے مولانا صلاح الدین تھے۔ جکائیت کے عنائیت اللہ اور اردو ڈائجیسٹ کے الطاف حسین قریشی تھے۔ جنگ کے حسین احمد حقانی اور نوائے وقت کے زیڈ اے سلہری اور پھر خبریں کے ضیاء شاہد اور خان آصف کی دلنشین تحریریں عروج پر تھیں۔ ہم نے ان سے اور انکی تحریروں سے بڑا کچھ سیکھا ۔ ملک کے کونے کونے اور باہر ان قلمکاروںکی بڑی عزت تھی ۔ حکمرانوں سیاستدانوں میں ایک بڑا نام تھا۔ پھر وہ باری باری رخصت ہو گئے 2008ء میں ہم بھی سعودی عرب سے اپنے و طن منتقل ہو گئے ۔ یہاں ہمارا لکھنے لکھانے کا کوئی پروگرا م نہ تھا ۔ ایک سال خاموشی سے گذرا مگر انڈیا حیدآباد دکن کے انجینئر محمد علی کے وہ الفاظ یاد آئے جو آتے وقت انہوں نے مجھے کہے تھے۔
زاہد صاحب آپ یہ لکھنے لکھانے کا کام نہ چھوڑنا آپ کی تحریروں میں معاشرے کے لئے ہم مسلمانوں کیل ئے عوام کے لئے بڑا سبق ہوتا ہے۔ مدبر انہ دانشورانہ اور تعمیرانہ تجاویز ہوتی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری و ساری رکھنا آخر کار میں نے یہاں کے مقامی اخباری نمائندوں سے رابطہ کیا جو کہ میرے لئے اور میں ان کے لیے اجنبی تھے۔ مگر کسی نے بھی حوصلہ افزائی نہ کی کسی نے کہا ہمارے لئے لکھیں کسی نے اپنے نام سے لکھنے کا کہا۔ بڑی اخباروں نے دو چار دماغوں کو قید کر رکھا تھا۔ وہ نئے لکھاریوں کو جگہ نہ دیتے تھے۔ مگر چند روزناموں نے ہر اچھے لکھاریوں کو اپنے اپنے روزناموں میں دعوت دے رکھی تھی۔ میں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا اپنی تحریریں ان کے اسی میلز پر سینڈ کر نا شروع کر دیں۔ اللہ انکا بھلا کرے انہوں نے موضوع اور معیار دیکھ کر اپنے اپنے روزناموں میں شائع کرنا شروع کر دیں۔ نہ تعلق نہ واسطہ نہ سفارشیں بس قارئین کی پسند ید گی نے انہیں مجھ جیسے قلمکاروں کی نئی نئی تحریریں پڑھنے کو ملنے لگیں۔ اخبارات کی ریٹنگ بھی بڑھنے لگی ۔ جو چند بڑے روزنامے اپنے تنخواہ دار چند کالم نویسوں کو لے کر بیٹھ گئے اور مقامی اور ملکی عام روزنامے بازی لیتے گئے۔
قارئین اللہ کے فضل و کرم سے آج کشمیر و پاکستان کے دو درجن روزناموں کے لگ بھگ ہفتہ وار ہماری تحریریں شائع ہوتی ہیں۔ پڑھی اور پسند کی جاتی ہیں۔ اللہ ان اخبارات کے مالکان ایڈیٹر وں چیف ایڈیٹروں کو جذائے خیر دے وہ بھی اور ہم بھی بلا کسی لالچ اور مشائیرے کے عوامی خدمت کر رہے ہیں۔ علاوہ اسکے سوشل میڈیا پر بھی ملک میں اور عرب و افریقہ اوریورپ کے ملک میں بھی ہماری یہ تحریریں ٹرانسلیٹ ہو کر پڑھی لکھی جاتی ہیں۔ اور قارئین اپنی پسندیدگی کا اظہار فرما کرہمیںداد دے کر حوصلہ افزائی کرتے اور حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے ۔ لیکن ملک کے ہزاروں قلمکار میرے جیسے بھائی جو اپنی تحریروں تجاویزوں اور تعمیری تنقید کے ذریعے اپنے عوام اور ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ ان کا کوئی پرسان حال نہیں سوائے چند تنخواہ دار قلمکاروں کے یہ گھر سے روکھا سوکھا کھا کر اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے روزانہ اپنے اپنے کالموں تحریروں کے پلاٹ بنانے اور لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔
Government
ہماری حکومت اور حکومتی اداروں انتظامی اداروں میں ان کی کوئی قدر شناسی نہیں۔ خدمت نہیں حوصلہ افزائی اور قدرومنزلت نہیں۔ حتی کہ علاج معالجہ اور نہ ہی ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں فوج اور دیگر سرکاری ملازمین کی طرح کی رعایت میسر ہے۔ ماہانہ مشائیرہ نہ تنخواہ اور نہ بڑھاپے میں کوئی مالی امداد تک میسر ہے۔ عوام تو مقامی اور ملکی سطح پر ان اہل علم دانشور طبقے کو قدرومنزلت کی نگاہ سے تو دیکھتے ہیںپسند کرتے ہیں۔ مگر حکمران طبقے میں ان کی کوئی پہچان اور حوصلہ افزائی نہیں جبکہ بیرون ملک دنیا عرب و افریقہ یورپ و افریقہ میں اس پڑھے لکھے دانشور طبقے کو سر آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے۔ اور مفت علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولت کے علاوہ گھر بیٹھے معقول معاوضہ سرکاری طور پر دیا جاتا ہے۔ علاوہ اس کے ان قلمکاروں کی ملک و عوام کیل ئے لکھی گئی تحریروں اور تجاویزاور تعمیری تنقید وں سے استفادہ حاصل کیا جاتا ہے۔ اور عزت افزائی کی جاتی ہے۔ تب جا کر یہ ملک وریاستیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ ہاکروں اخبارفروشوں تنخواہ دار صحافیوں اور سرکاری زر خرید طبقے کو تو نوازہ جاتا ہے لیکن ان بکھرے ہوئے عالی دماغوں کالم نگاروں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دراصل ریاست کا چوتھا ستون ان ہی قلمکاروں کو سمجھا جاتا ہے جو روزمرہ بلا لالچ اور تنخواہ کے عوام کو باشعور اور ملک کی راہیں متعین کرتے رہتے ہیں۔
حکومت کے اچھے کاموں میں حوصلہ افزائی اور غلط کاموں پالیسیوں پر تنقید کر کے انہیں صحیح اور درست سمت کی طرف لیکر جاتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں پاکستان کے ہونہار قلمکار اور دانشور جناب ملک محمد سلیمان اور انکے ساتھیوں نے بین الاقوامی اور ملکی سطح پر ملک بھر کے قلمکاروں کو پاکستان فیڈریشن ااف کالمیسٹ کا ادارہ بنا کر انہیں ایک چھتری مہیا کی ہے جس مین روز مرہ سینکڑوں قلمکار شمولیت اختیار کر رہے ہیں۔ جس کا میں بھی ممبر ہوں۔ اس پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کا منشور بھی بڑا خوش آئین ہے جس میں ایک قلمکار کو مقامی صوبائی اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانا اسکی تحریروں کو سرکاری غیر سرکاری اداروںحکمرانوں تک پہنچانا اور ان سے استفادہ حاصل کرنا ۔ انہیں ان کی پہچان اور ان کا حق دلانا علاج معالجہ اور بچوں کی تعلیمی سہولتیں اور سفری اخراجات میں رعایت دلانا ہے۔ اور مناسب ماہوار مشائیرہ اور بڑھاپے میں معقول امداد مہیا کرنا شامل ہے۔
اللہ کرے اس ملکی اور غیر ملکی سطح پر قائم ہونے والی پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ تنظیم کو اور اس کے سرپرستوں کو اور اس کے ممبران کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی نصیب ہو تاکہ یہ ریاست کا چوتھا اور اہم ستون یہ مدبر اور دانشور قلمکار اپنی ذاتی مسائل سے بالا تر ہو کر عوام اور ملک کی خدمت می دن رات لکھیں اور ملکی ترقی کے لئے نت نئے راستے متعین کریں۔ اور عوام کو باشعور اور معاشرے کو بیدار کریں۔ اور اللہ کرے ہماری حکومت بھی مقامی صوبائی اور ملکی سطح پر ان کالم نگاروں کی حوصلہ افزائی قدر افزائی اور ان کے مستقبل کے بارے میں ضرور ترجیح بنیادوں پر کام شروع کرے گی ۔ اور اس ریاست کے چوتھے اور اہم ستون کالم نگار محروم طبقے کی کارآمد تحریروں کالموں اور گزارشات سے روزمرہ فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ انکی مالی معاونت اور مستقل مشائیرے کی ادائیگی ممکن بنائے گی انشاء اللہ۔
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان hajizahid.palandri@gmail.com