فرقہ واریت کو ہوا کیوں؟

Terrorism

Terrorism

اکیسویں صدی میں داخل ہوئے 13واںسال شروع ہوگیا ہے۔دنیا کا ہرروز نئی سے نئی اشیا جدید آرہی ہے۔ انسان نے چاند کو چھو لیا ہے اور چاند کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاروں پر آباد ہونے جارہے ہیں۔ سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ جو کام کبھی دس افراد مل کر کرتے تھے اب اس کی بدولت ایک آدمی ہی یہ سارے کام مکمل کرلیتا ہے۔وقت جس رفتار سے چل رہا ہے اسی رفتار انسان ترقی کے منازل طے کر رہا ہے۔ ہر ملک اپنے دفاع کے لیے جدید سے جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے۔ اسلحے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس صدی میں انسان کوجس چیز کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ دہشت گردی ہے ۔دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہومگر اس میں نقصان تو انسانیت کو پہنچ رہا ہے۔ اموات تو جاندار کی ہورہی ہیں۔ اس وقت دہشت گردی کا شکار پوری دنیا میں سب سے زیادہ جو ملک ہورہا ہے وہ پاکستان ہے۔پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ یہ اسلام کے نام پر بنایا گیا تاکہ مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیںمگر شروع سے آج تک غیر مسلم مسلمانوں کے خلاف ہی رہے۔ نبیوں کے دورسے لیکر آج تک کفارمسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھاتے رہے ہیں۔کیونکہ پاکستان کی بنیاد اسلام کے نام پر رکھی گئی ہے اسی لیے شاید غیر مسلم طاقتیں پاکستان کے خلاف اکٹھی ہوگئیںہیں۔ اسکے بعد سونے پر سہاگہ پاکستان ایٹمی طاقت بن گیا جوکفار کو بالکل پسند نہیں اور اب ان کی نظر ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی پرہے۔

پاکستان جو امن کا گہوارہ ہے اس کو ایک سازش کے تحت دہشت گردی کا مرکز بنا دیاگیا ہے۔ دنیاکے کسی بھی حصے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو تو اس کی ذمہ داری فوراً پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر بھی یہی ملک ہوا ہے جوابھی تک دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے۔پاکستان میں دہشت گردی میں جو بیرونی اور اندرونی عوامل شامل ہیں ان سے تمام ذی شعور انسان بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کو جو عناصر ہوا دے رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ہزاروں معصوم شہری اس دہشت ناک دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ کئی گھر اجڑے ، کئی سہاگ اجڑے اور کئی ماوئوں کی گود خالی ہوگئیں۔ حکومت پاکستان اس کے سد باب کے لیے جو اقدامات کررہی ہے وہ بھی سبھی لوگوں کے علم میں ہے۔ لیکن بحیثیت قوم اور پاکستانی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل جل کر اس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

آج پھر پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے۔پاکستان کے مختلف علاقوں دھماکے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ٹارگیٹ کلینگ تو ایسے ہورہی ہے جیسے بچے ویڈیو گیم کھیلتے ہوئے روڈ پرسرعام مارتے ہیں۔ پہلے بلوچستان میں شیعہ مسلک کے پروگرام میں دھماکہ کرایا گیا جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ لاشیں کئی دن تک روڈ پر رکھ کر احتجاج کیا گیا۔ یہ احتجاج شیعہ برادری کا نہیں تھا بلکہ اس میں تمام مکاتب فکرکے لوگ شامل تھے۔ اس کے بعد اب کراچی میں عباسیہ ٹاؤن میں دھماکا کرکے پھر فرقہ وارانہ دہشت پھیلائی گئی ہے ۔ اس دھماکے کے احتجاج میں ایک بار پھر پاکستان بھر سے سیاسی ،سماجی اور مذہبی تنظیموں نے بھرپور شرکت کی اور یہ ثابت کردیا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے خلاف سب ایک ہیں۔یہ حکومت کودیکھنا چاہیے کہ اس میں مذہبی عناصر شامل ہیں یا بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے؟

Terrorism Karachi

Terrorism Karachi

پاکستانی ہونے کے ناطے سب پاکستانیوںکے ذہین میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نہتے انفرادی طور پر کیونکر دہشت گردی سے نمٹ سکتے ہیں؟ اگر تھوڑا غور کیا جائے تو یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے کہ ہم اکیلے کیسے ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرسکتے ہیںمگر کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جن کی بدولت ہم نا صرف انہیں روک سکتے ہیں بلکہ ختم بھی کرسکتے ہیں۔ یہ حقیقت تو واضح ہے کہ دہشت گردی میں ملک دشمن اور بیرونی طاقتیں کار فرما ہیں لیکن یہ بھی کسی حدتک درست ہے کہ ان عناصر کو کامیاب بنانے میں اندرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ دہشت گرد کوئی خلائی شٹل یا غیبی علم کے ذریعے کامیاب نہیں ہورہے بلکہ وہ ہمارے اردگرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو پہچانتے نہیں ۔ اگر تھوڑا سا ان لوگوں پر نظر رکھی جائے تو کسی حد تک ہم ان کی غیر انسانی حرکات کو پہچان بھی سکتے ہیں۔ اکثر آپ لوگوں نے میڈیا کے ذریعے یہ سنا یا پڑھا ہوگا کہ کہ پولیس نے چھاپہ مار کر کئی من یاٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کرلیاہے اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ وہ مواد لانے والے کون تھے؟ اگر وہ کوئی اور ہیں تو پھر یہ ٹرک چلانے والا کون تھا ؟ اگر وہ اس شہر کا ہی ٹرک ڈرائیور ہے تو اس نے بغیر چھان بین کے ٹرک میں سامان کیوں لوڈ کیا؟ پھر اس کے بعد ناجانے کتنے پولیس ناکے کراس کرکے وہ وہاں تک پہنچا تو پھر وہ پولیس ناکو ں پر کیا کررہی تھی اس نے کیوں نہیں ان کو گرفتار کیا؟ یہ مواد کس طرح پاکستان کے کونے کونے میں ذخیرہ ہوتا ہے؟ دراصل انہیں سوالات کے جوابات کے لیے ہر
پاکستانی کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہونگی اور اس کے لیے کچھ باتیں اپنے ذہین میں رکھنا ہونگی۔
) ہمیں اپنے اردگرد کے افراد پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔
) مشکوک افراد کے متعلق فوراًپولیس کو اطلاع دینا ہونگی۔
) اپنی املاک کو کرایہ پر دیتے ہوئے خاص احتیاط سے کام لیں اور کرایہ دار کے مکمل کوائف اپنے پاس رکھیں اور ان کے جانے کے بعد بھی ریکارڈ اپنے پاس محفوظ رکھیں۔
) اپنا فون کسی اجنبی شخص کو کال کرنے کے لیے ہرگز نہ دیں۔
) استاد اپنے طالب علموں کو دہشت گردی کے متعلق لیکچر دیںا ور ان کو ذہینی طور پر تیار کریں کہ دہشت گرد ملک کے دشمن ہیںاور ان سے ہم نے اپنے ملک کو بچانا ہے۔
) بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں پر نظر رکھیں اور اس کے متعلق فوراًپولیس کو اطلاع دیں۔
) حکومت کو ہر مین جگہ پر سی سی کیمرے نسب کرنے چاہیے۔
) پولیس کسی بھی غیر قانونی کام میں ملوث افراد کو عدالتی حکم کے بغیر نا چھوڑے۔
) حکومت دہشت گرد ی میں ملوث افراد کو جلد از جلد سزا دے تاکہ اس کے ساتھیوں کو دوبارہ متحد ہونے کا موقع نہ مل سکے۔
) مقامی انتظامیہ ہر شہر قصبہ ،گاؤں اور حتٰی کہ دوردراز کھیتوںمیںرہنے والے افراد کا بھی ڈیٹا تیارکرے اور لوکل سطح پر کمیٹی بنانی چاہیے جو ہر نئے آنے والے پر ناصرف نظر رکھے بلکہ اس کا بیک گراؤنڈ اور اس علاقے میں آنے کی وجہ بھی پوچھے۔

اگر ہم سب پاکستانی دہشت گردی کے مسئلے کو اپناذاتی مسئلہ سمجھ کر اس کو حل کرنے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریںاور انتظامیہ عوام کے ساتھ تعاون کرے تواس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔چند ٹکوں کی خاطرملک سے غداری کرنے والوں سے سختی سے نمٹاجائے۔ پاکستان کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ دہشت گردی کو سیاسی یا مذہبی رنگ دیکر ہم اپنے ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے اگر ملک سے وفاداری نبھانی ہے تو پھر تمام لوگوں کو مل کر ان عناصر کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ملک کے خلاف کام کررہے ہیں۔

Aqeel

Aqeel

تحریر: عقیل خان
svpresidentccp@gmail.com
0301-4251658