اکیسویں صدی میں داخل ہوئے 13واںسال شروع ہوگیا ہے اور اس صدی میں انسان کوجس چیز کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑرہا ہے وہ دہشت گردی ہے ۔ دہشت گردی خواہ وہ کسی بھی ملک میں ہورہی ہو مگر اس کا شکار پوری دنیا میں سب سے زیادہ پاکستان ہوا ہے۔ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ یہ اسلام کے نام پر بنایا گیا تاکہ مسلمان اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ پاکستان جو امن کا گہوارہ ہے اس کو ایک سازش کے تحت دہشت گردی کا مرکز بنا دیاگیا ہے۔ دنیاکے کسی بھی حصے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما ہو تو اس کی ذمہ داری فوراً پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر بھی یہ ہی ملک ہوا ہے جوابھی تک دہشت گردی کے خلاف نبردآزما ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی میں جو بیرونی اور اندرونی عوامل شامل ہیں وہ تمام ذی شعور انسان بخوبی واقف ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کو جو عناصر ہوا دے رہے ہیں وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ہزاروں معصوم شہری اس دہشت ناک دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ کئی گھر اجڑے ، کئی سہاگ اجڑے اور کئی ماوئوں کی گود خالی ہوگئیں۔ حکومت پاکستان اس کے سد باب کے لیے جو اقدامات کررہی ہے وہ بھی سبھی لوگوں کے علم میں ہے۔ لیکن بحیثیت قوم اور پاکستانی یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم سب مل جل کر اس دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
اس وقت پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی جارہی ہے۔ پہلے بلوچستان میں شیعہ مسلک کے پروگرام میں دھماکہ کرایا گیا جس کی وجہ سے پاکستان بھر میں ہڑتالوں اور احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ لاشیں کئی دن تک روڈ پر رکھ کر احتجاج کیا گیا۔ یہ احتجاج شیعہ برادری کا نہیں تھا بلکہ اس میں تمام مسلک کے لوگ شامل تھے۔ اس کے بعد اب کراچی میں عباسیہ ٹاؤن میں دھماکا کرکے پھر فرقہ وارانہ دہشت پھیلائی گئی ہے ۔ اس دھماکے کے احتجاج میں ایک بار پھر پاکستان بھر سے سیاسی ،سماجی اور مذہبی تنظیموں نے بھرپور شرکت کی اور یہ ثابت کردیا کہ پاکستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے خلاف سب ایک ہیں۔یہ حکومت کودیکھنا چاہیے کہ اس میں مذہبی عناصر شامل ہیں یا بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے؟
External forces
اس بات کے جواب میں ہمارے اذہان میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم نہتے انفرادی طور پر کیونکر دہشت گردی سے نمٹ سکتے ہیں؟ یہ حقیقت تو واضح ہے کہ دہشت گردی میں ملک دشمن اور بیرونی طاقتیں کار فرما ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان عناصر کو کامیاب بنانے میں اندرونی عناصر بھی شامل ہیں۔ دہشت گرد کوئی خلائی شٹل یا غیبی علم کے ذریعے کامیاب نہیں ہورہے بلکہ وہ ہمارے اردگرد ہی موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان کو پہچانتے نہیں ۔ اگر تھوڑا سا ان لوگوں پر نظر رکھی جائے تو کسی حد تک ہم ان کی غیر انسانی حرکات کو پہچان بھی سکتے ہیں۔ اکثر آپ لوگوں نے میڈیا کے ذریعے یہ سنا یا پڑھا ہوگا کہ کہ پولیس نے چھاپہ مار کر کئی من یاٹن دھماکہ خیز مواد برآمد کرلیاہے اب سوال یہ ابھرتا ہے کہ مواد کس طرح پاکستان کے کونے کونے میں ذخیرہ ہوتا ہے؟ دراصل انہیں سوالات کے جوابات کے لیے ہمیں اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہونگی اور اس کے لیے ہمیں کچھ باتیں اپنے ذہین میں رکھنا ہونگی۔
) ہمیں اپنے اردگرد کے افراد پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ ) مشکوک افراد کے متعلق فوراًپولیس کو اطلاع دینا ہونگی۔ ) اپنی املاک کو کرایہ پر دیتے ہوئے خاص احتیاط سے کام لیں اور کرایہ دار کے مکمل کوائف اپنے پاس رکھیں اور ان کے جانے کے بعد بھی ریکارڈ اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ ) اپنا فون کسی اجنبی شخص کو کال کرنے کے لیے ہرگز نہ دیں۔ ) استاد اپنے طالب علموں کو دہشت گردی کے متعلق لیکچر دیںا ور ان کو ذہینی طور پر تیار کریں کہ دہشت گرد ملک کے دشمن ہیںاور ان سے ہم نے اپنے ملک کو بچانا ہے۔ ) بغیر نمبر پلیٹ کی گاڑیوں پر نظر رکھیں اور اس کے متعلق فوراًپولیس کو اطلاع دیں۔
اگر ہم سب پاکستانی دہشت گردی کے مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھ کر اس کو حل کرنے کے لیے انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کریںتواس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔چند ٹکوں کی خاطر ہم کو اپنے ملک سے غداری نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے ایک ایک انچ کا دفاع کرنا ہر پاکستانی کا حق ہے۔ دہشت گردی کو سیاسی یا مذہبی رنگ دیکر ہم اپنے ملک کے وفادار نہیں ہوسکتے اگر ملک سے وفاداری نبھانی ہے تو پھر تمام لوگوں کو مل کر ان عناصر کو بے نقاب کرنا ہوگا جو ملک کے خلاف کام کررہے ہیں۔