امریکا (جیوڈیسک) امریکی محکمہ دفاع کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے جزیرہ گوانتا نامو کے قید خانے میں بند مزید 15 قیدیوں کو متحدہ عرب امارات منتقل کیا ہے۔ امارات منتقل کیے جانے والے قیدیوں میں 12 یمنی اور تین افغان باشندے شامل ہیں۔
امریکی صدر براک اوباما کے دور حکومت میں گوانتا نامو جیل سے قیدیوں کی یہ سب سے بڑی منتقلی قرار دی جا رہی ہے۔ پندرہ قیدیوں کی امارات منتقلی کے بعد بدنام زمانہ قید خانے میں 61 قیدی رہ گئے ہیں۔
گوانتانامو بے جیل کے قیدیوں میں سے متعدد کو ایک دہائی سے زائد عرصے تک بغیر کسی جرم یا مقدمے کے لیے قید رکھا گیا۔
خیال رہے کہ امریکی صدر براک اوباما سنہ 2002 میں قائم کی جانے والی گوانتاناموبے جیل کو اپنے عہدۂ صدارت چھوڑنے سے قبل بند کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم انہیں اپنی پارٹی ڈیموکریٹس کے بعض رہ نماؤں اور حزب مخالف ری پبلیکن کی سخت مخالفت کا سامنا رہا ہے۔تاہم عالمی سطح پر امریکی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو جزیرہ گوانتا نامو میں لوگوں کو مقدمہ چلائے بغیر قید رکھنے پر سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ حکومت گوانتاناموبے جیل میں باقی رہ جانے والے قیدیوں کو امریکہ منتقل کرنا چاہتی ہے تاہم کانگریس اس کی مخالفت کر تی ہے۔
صدر اوباما کا خیال ہے کہ گوانتانامو بے سے جہادیوں کو امریکہ مخالف جذبات بھڑکانے میں مدد ملتی ہے۔
کانگریس کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین اڈ رویس نے باراک اوباما کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ اوباما گوانتا نامو جیل بند کرکے امریکی شہریوں کو ایک نئے خطرےسے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔
گوانتا نامو بے جیل سے قیدیوں کی دوسرے ملکوں میں منتقلی پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔
امریکا میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر برائے انسانی حقوق نورین شاہ کا کہنا ہے کہ گوانتا نامو بے جیل کا قائم و دائم رہنا غیرملکی حکومتوں کو انسانی حقوق کی پامالی کی حوصلہ افزائی میں مدد دے گا۔
اس لیے امریکی حکومت کی طرف سے قیدیوں کی اس جیل سے دوسرے ملکوں میں منتقلی انسانی حقوق کے پہلو سے اہمیت کی حامل ہے۔