افغان تنازع کے حل کے دوران ایک ایسا منظر بھی دیکھنے میں آیا جب افغان طالبان کے اُس رہنما سے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد مذاکرات کررہے تھے جو بدنام زمانہ جیل گوانتا نامومیں اسیری کے دوران سخت قید و بند و تکالیف گذار چکے تھے ۔ امریکا نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ اگوانتانامو کے سابقہ قیدیوں سے انہیں مذاکرات کرنا ہونگے ۔ آج امریکا افغانستان میں قید ہے اور اُسے وہاں سے نکلنے کے لئے ان ہی سابق قیدیوں سے معاہدے کا متمنی ہے ۔ افغان طالبان اپنے اسیر رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ شد ومد کے ساتھ کرتے رہے ہیں اور دنیا نے یہ دیکھا ہے کہ جن رہنمائوں کو برسوں برس اسیر رکھا گیا وہی رہنما اب امریکا کے ساتھ امن مذاکرات میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ افغان طالبان کے پانچ سرکردہ ارکان، قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے مذاکراتی رابطہ کار محمد فضل، خیراللہ خیرخواہ، عبدالحق واثق، محمد نبی اور ملا نوراللہ نوری بھی گوانتانامو کے سابقہ قیدی رہ چکے تھے۔ یہ سب طالبان دور میں انٹیلیجنس کے نائب وزیر سے لے کر ہرات کے گورنر تک مختلف اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ حال ہی میں رہا کئے جانے والے ملا عبدالغنی بردار کو بھی قطر آفس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔
امارات اسلامیہ کے سابق سفیر ملا عبدالسلام ضیعف اپنے وفد کے ہمراہ امریکی وفد کے ساتھ مذاکرات کررہے ہیں۔ ملا عبداسلام ضعیف 2005میں رہا ہوئے تھے ۔ملا عبدالسلام ضیعف نے اپنی اسیری کے بعد العربیہ ٹی وی کے پروگرام “صناعہ الموت”میں اظہار کرتے ہوئے کہا تھاکہ” افغانستان پر امریکی حملے اورافغان طالبان حکومت کے خاتمے کے وقت وہ پاکستان میں افغان طالبان حکومت کے سفیر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے انھوں نے پاکستان سے سفارتی پناہ کی درخواست کی تھی کیونکہ وہ جنگ زدہ ملک واپس نہیں جاسکتے تھے۔ملا عبدالسلام ضعیف نے یہ بھی بتایا کہ انہیں افغانستان میں قیام امن کی خاطرافغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کی پیش کش کی گئی تھی تاہم انھوں نے یہ پیش کش مسترد کردی کیونکہ انھیں یقین تھا کہ غیر ملکی حقیقی امن میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ان کا ماننا رہا ہے کہ افغان طالبان کو اپنے ملک پر غیر ملکی فوج سے اصل مسئلہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے افغانستان سے نکلے بغیر کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے”۔ملا عبدالسلام ضیعف نے 2010ء میں ٹی وی پروگرام میں اپنے ان خیالات کا اظہار کیا تھا ، جس کے بعد ان کے تحفظات درست ثابت ہوئے اور عالمی طاقتوں نے پاکستان سمیت افغانستان میں قیام امن کے بجائے ایسی کاروائیاں کرنی شروع کردیں جس سے افغانستان میں امن مذاکرات کیلئے حالات ساز گار نہیں رہے۔
تاہم قطر مذاکرات کیلئے پاکستان کی جانب سے مثبت کردار کے سبب ایک بار امید بر آئی کہ امریکی حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت ہوگی ، ۔گر چہ کہا یہی جاتا ہے کہ طالبان کے سابق اراکین کے تحفظ کیلئے سلامتی کو خطرات بھی لاحق ہیں ماضی میں پے در پے ایسے کئی واقعات ہوچکے تھے جس کے سبب بعض افغان طالبان کے رہنمائوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوئے ۔ ستمبر 2011ء میںاعلی امن شوری کے اُس وقت کے چیئرمین اور افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل افغانستان کے صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کو بھی ایک خود کش حملہ آور نے اپنی پگڑی میں چھپائے بم کی مدد سے ہلاک کردیا تھا ، جبکہ اعلی امن شوری میں صوبہ کنٹر کی نمائندگی کرنے والے مولوی محمد ہاشم منیب کو 6اپریل2012میں خود کش حملے میں ہلاک کیا گیا۔یہی وجہ رہی کی جانب سے اس قسم کی کاروائیوں پر دیگر افغان رہنمائوں کو بھی اپنے تحفظ کے بارے میں بڑے خدشات لاحق ہیں۔
کابل حکومت اور امریکی حکومت کی جانب سے درخواست پر ہی پاکستان حکومت نے 33طالبان رہنماء رہا کئے تھے ، لیکن کابل حکومت چاہتی تھی کہ انھیں من پسند جگہ جانے کے بجائے افغان حکومت کے حوالے کیا جائے،۔ افغان طالبان کے رہنمائوں کی رہائی پر اعتراض کئے جاتے رہے ہیں”۔ افغان طالبان کی رہائی کے طریقہ پر افغان امن کونسل کے سینئر رکن اسماعیل قاسم یا ر کا کہنا تھا کہ”افغان طالبان کو پیشگی اطلاع اور افغان حکام کے حوالے کئے بغیر رہا کردیا جاتا ہے ۔ ہم نہیں جانتے کہ رہائی کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور وہ کدھر جاتے ہیں۔جب وہ طالبان رہنمائوں کی رہائی کا فیصلہ کرتے ہیں تو صرف چند گھنٹے پہلے افغان حکومت کو مطلع کیا جاتا ہے۔
پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ جن افغان طالبان کو رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد اُن کی مرضی پر منحصر ہے کہ انھیں کہاں جانا ہے ، افغانستان میں قیام امن کے اعلی سطح کے امن شوری کے اراکین کی ہلاکتوں کے بعد اعلانیہ انھیں افغانستان حکومت کے حوالے کرنا ان کی اپنی زندگیوں کیلئے بڑا خطرہ ہے ، جب پروفیسر ربانی جیسے سابق صدر افغانستان ، افغان حکومت میں محفوظ نہیں رہے تو یقینی طور پر یہ خدشات جنم لیتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے جن طالبان رہنمائوں کو رہا کیا جا رہا ہے اگر انھیں براہ راست افغان حکومت کے حوالے کردیا گیا تو پاکستان کے مثبت کردار کو بعض عناصر نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لئے امریکہ جو افغانستان کا براہ راست مداخلت کار ہے ، امریکہ ہی ان طالبان رہنمائوں سے مذاکرات کر سکتا ہے کیونکہ افغانستان کا مستقبل کا فیصلہ کابل حکومت کے پاس نہیں بلکہ امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کے پاس ہے جو 18برسوںسے افغانستان میںافغان طالبان کے خلاف صف آرا ہیں ۔
ملا عبدالغنی بردار کی رہائی ممکن ہو پائی لیکن پاکستان ، افغانستان کی موجودہ صورتحال کے سبب یہ رسک نہیں لے سکاکہ پاکستان میں گرفتار ہونے والے افغان طالبان رہنمائوں کو ، طالبان مخالف کابل حکومت کے حوالے کردے ، جس طرح پروفیسر ربانی کی ہلاکت پر افغان حکومت نے شور شرابا اور پاکستان پر الزام تراشیاں کیں تھیں ، اس لئے بعید نہیں کہ افغانستان میں موجود ملک دشمن عناصرسازش کرکے پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے نا پسندیدہ عمل کر گذرے۔
ملا عبدالغنی بردار کو کراچی میں2010ء میں گرفتار کیا گیا تھا ، جب کراچی میں ملا بردار کی گرفتاری عمل میں آئی تو افغان حکام کی جانب سے الزام تراشی کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا کہ ملا برادر ، کابل حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہے تھے اور پاکستان نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے ملا بردار کو گرفتار کیا تھا ۔”پاکستان افغان ، امریکہ جنگ سے براہ راست متاثر ہے اس لئے وہ خود چاہتا ہے کہ جلد از جلد طالبان رہنمائوں کے مذاکرات کامیاب ہوں تاکہ امریکی فوج کا جلد از جلد انخلا ہو اور پاکستان میں افغانستان کی وجہ سے جو دہشت گردی فضا بنی ہوئی ہے اس میں کمی واقع ہو۔افغان طالبان سنیئر رہنمائوں کی رہائیوں سے خطے میں امن کے قیام کے لئے مثبت پیش رفت ممکن ہوپائی ہے ۔ امید یہی ہے کہ سیاسی بصیرت رکھنے والے سنیئر افغان طالبان رہنما افغانستان میں امن کے لئے اپنا موثر کردار ادا کریں گے اور ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر افغانستان میں قیام امن کے لئے لچک کا مظاہرہ بھی کریں گے جس طرح عید الفطر کے موقع پر جنگ بندی کے دوران کیا تھا ۔