کابل (جیوڈیسک) طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ ایک امریکی فوجی عہدے دار سارجنٹ بوبرگڈال کی رہائی کے بدلے میں گوانتانوبے سے جن پانچ افغان طالبان کو چھوڑا گیا تھا، وہ قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر پہنچ گئے ہیں۔
اب وہ طالبان کے ان نمائندوں میں شامل ہو گئے ہیں جو افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات کریں گے۔ کابل میں کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ پیش رفت امن معاہدے کے لیے طالبان کی خواہش کو ظاہر کرتی ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ہم نے یہ رپورٹ دیکھی ہے اور یہ طالبان پر منحصر ہے کہ وہ اپنے نمائندے چنیں۔ تاہم ہماری یہ توقع ہے کہ یہ لیڈر جنگ کے خاتمے سے متعلق پر امن حل کے لیے کام کریں گے۔ ہمیں توقع ہے کہ ٹی پی سی کے ارکان سے متعلق کسی بھی نظرثانی میں یہ مقصد شامل ہو گا۔
رہا کیے جانے والے پانچوں طالبان کا تعلق ان کے مرکز جنوبی افغانستان سے ہے۔
ان پانچ طالبان میں سے ایک محمد فضل ہیں جو طالبان آرمی کے سربراہ تھے اور انہیں 2002 میں پکڑا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا الزام ہے کہ انہوں نے سن 2000 میں شیعہ اقلیت کے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا تھا۔
ان پانچ میں ایک اور کا نام ہے خیر اللہ خیرخوا ہےجو صوبے ہرات کے گورنر تھے اور ملا عمر اور القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن دونوں کے قریب تھے۔
تیسرے شخص کا نام عبد الحق واثق ہے جو انٹیلی جینس کے نائب وزیر تھے۔ چوتھے ملا نوراللہ نوری ہے جو ملا عمر کے قریبی ساتھی تھے اور پانچویں محمد نبی طالبان حکومت میں کمیونیکیشن کے عہدے دار تھے۔
کئی دوسرے تجزیہ کاروں کو ڈر ہے کہ یہ پانچوں افراد وہ لوگ ہیں جو طالبان تنظیم کے بانی اور سخت گیر لیڈر ملا عمر کے قریب تھے اور وہ اسی قدامت پسند اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں جو 2001 میں امریکی قیادت کے حملے سے پہلے افغانستان میں طالبان کے پانچ سالہ اقتدار میں نظر آتا تھا۔
کابل کے ایک سیاسی تجزیہ کار ہارون میر کہتے ہیں کہ طالبان اپنی پرانی نسل کو سامنے لا رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خيالات یا اپنی قیادت میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ہم اس بارے میں زیادہ فکر مند ہیں کہ اگر کل طالبان یہ کہتے ہیں کہ ہم بات چیت کے لیے تیار ہیں تو کابل کی نمائندگی کون کرے گا۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا کیونکہ حکومت کے اندر بہت تقسیم ہے، نہ صرف نظریاتی طور پر بلکہ نسلی پہلو سے بھی۔
افغانستان کی طویل جنگ کے خاتمے کا پرامن حل ڈھونڈنے کی کوششیں واشنگٹن کی جانب سے افغان نژاد امریکی زلمے خلیل زاد کی سفیر کے طور پر تعیناتی کے بعد تیز ہو گئیں ہیں کیونکہ امریکہ اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا پرامن حل چاہتا ہے جس کی امریکہ پہلے ہی 900 ارب ڈالر سے زیادہ قیمت ادا کر چکا ہے۔
لیکن افغان حکومت کی امن کونسل کے ایک رکن محمد اسماعیل قاسم یار نے طالبان کے ساتھ امن بات چیت سے واشنگٹن کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ خلیل زاد کا کام صرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کا میدان ہموار کرنا ہے۔ افغان حکومت سے امن بات چیت کو طالبان یہ کہہ کر مسترد کرتے آئے ہیں کہ وہ امریکہ کی کٹھ پتلی ہے۔
طالبان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس مہینے کے شروع میں قطر میں خلیل زاد کے ساتھ ملاقات ابتدائی لیکن اہم نوعیت کی تھی۔ واشنگٹن نے اس ملاقات کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی انکار کیا ہے، لیکن اس وقت خلیل زاد قطر میں تھے۔
مذاكرات کے بارے میں علم رکھنے والے ایک طالبان عہدے دار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ مذاكرات دوبارہ ملنے کے معاہدے پر ختم ہوئے۔
اس سلسلے میں ایک اور غیر متوقع پیش رفت پاکستان کی جانب طالبان کے ایک سینیر راہنما ملا عبدالغنی برادر کی رہائی ہے جس کے متعلق طالبان طویل عرصے سے مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ وہ سن 2010 سے پاکستان کی قید میں تھا۔
ملا برادر نے اپنی رہائی کے بعد پشتو زبان میں ایک پیغام جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ طالبان کی تحریک کو آگے بڑھانے میں کر دار ادا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
پانچوں طالبان کو برگڈال کے بدلے میں سن 2014 میں رہا کیا گیا تھا۔ برگڈال کو طالبان نے 2009 میں ایک امریکی فوجی مرکز سے پکڑا تھا۔ اسے پچھلے سال اپنے فرائض سے پہلو تہی اور بدتمیزی کے الزامات پر ایک ہزار ڈالر جرمانہ کر کے فوج سے نکال دیا گیا تھا۔