ہر دور میں با اختیار لوگوں کی خواہش رہی ہے کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے نہ چھینا جا سکے ۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے قوت و طاقت کے جدید ذرائع کو ہمیشہ استعمال کیا ہے۔ایک وقت تھا کہ قوت و طاقت انسانوں پر مبنی تعداد کی شکل میں درج کی جاتی تھی۔لیکن رفتہ رفتہ یہ جسمانی طاقت جدید آلات میں تبدیل ہوگئی۔اب طاقت انسانی جسم، اس کی قوت و توانائی اور اس کی تعداد پر مبنی نہیں رہی بلکہ اُس تکنیک پر منحصر ہو گئی جہاں فردبحیثیت قوت کوئی حیثیت رکھتا ہی نہیں ،اور اِسی کو “ڈرون”کا نام دیا گیا۔یہ ڈرون کیا ہے۔
اس کو بھی سمجھتے چلیے۔اصل میں مخفف “میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس”بغیر پائلٹ کے جہاز یا ‘پریڈیٹر’ کو دشمن کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر دیئے گئے۔ 1995 سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ ڈرون افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن میں بھی استعمال کیے جا چکے ہیں۔ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔
اس پورے نظام میں چار جہاز، ایک زمینی کنٹرول اسٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے پچپن افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔پینٹاگن اور سی آئی اے1980 کی دہائی کے اوائل سے جاسوسی کے لیے ڈرون طیاروں کے تجربات کر رہے تھے۔ 1990 میں سی آئی اے کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ منتقل ہو گیا۔ ڈرون1990 کی دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور1995 میں پہلی مرتبہ اسے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔بات کا رخ ذرا تبدیل ہو گیا لیکن ضروری بھی تھا۔بات ہو رہی تھی قوت و اقتدار کے جدید ذرائع کی اور ان بااختیار لوگوں کی جوان کو استعمال کرتے ہیں۔
جدید جنگی سازو سامان سے بھی زیادہ اہم قوت و اقتدار پر قابض رہنے کا ذریعہ آج میڈیا ہے، خصوصاً الیکٹرانک میڈیا۔جس سے ہر وہ شخص مستفید ہو رہا ہے جو پڑھنا لکھنا تک نہیں جانتا لیکن گھر میں ایک ٹیلی ویژن ضرور رکھتا ہے۔ دوسری طرف پرنٹ میڈیا ہے جو سنجیدہ اور معاشرہ پر اثر انداز ہونے والے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔اس تعلق سے بھی یہ بات بتاتے چلیں کہ امریکہ میں 1976ء میں کانگریس کے سامنے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ سی آئی اے اندرون ملک اور بیرون ملک صحافیوں اور اخبارات کو خریدنے کے لئے بھاری رقوم خرچ کرتی ہے۔
اس مقصد کے لئے 1948ء میں فرینک وینسر کی سربراہی میں سی آئی اے کا ایک باقاعدہ ذیلی ادارہ آفس آف پالیسی کارڈ ینیشن کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ اس نے امریکہ کے جن بڑے بڑے اخبارات کو خریدا ان میں نیویارک ٹائمز، نیوزویک، سی بی سی اور واشنگٹن پوسٹ کے بے شمار قابل احترام اور معزز اخبار نویس شامل تھے۔ ان اخبار نویسوں کو خبریں یا کالم تیار کرکے دیئے جاتے تھے، جو بعض اوقات لفظ بہ لفظ اور کبھی کبھار معمولی ردوبدل کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ سی آئی اے نے اپنے اس آپریشن کو Operation Mocking Bird کا نام دیا تھا اور اس کے ذریعے میڈیا کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔
U.S.
1976ء میں بڑے لرزا دینے والے حقائق کانگریس کی فرینک چرچ کمیٹی کے سامنے آئے۔ پتہ چلا کہ سی آئی اے نے تین ہزار سے زائد صحافیوں کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں، جو امریکی پالیسیوں یا سی آئی اے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ سی آئی اے کے ایک اہم افسر تھامس بریڈن نے اپنے ادارے کے لامحدود اختیارات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ میں وہ کسی حساب کتاب کے بغیر ایک وقت میں کسی صحافی کو پچاس ہزار ڈالر تک ادا کر دیتے ہیں، جبکہ سی آئی اے کے افسران کو صحافیوں کی خدمات حاصل کرنے اور انہیں ادائیگیاں کرنے کے لامحدود اختیارات ہوتے ہیں۔
کانگریس کو بتایا گیا تھا کہ سی آئی اے کے پاس پوری دنیا میں ہزاروں صحافیوں کا ایک ایسا نیٹ ورک موجود ہے جو اسے نہ صرف معلومات فراہم کرتا ہے، بلکہ اس کی خواہشات کے مطابق پراپیگنڈا کرکے متعلقہ ملک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ نیز سی آئی اے نہ صرف اپنے مطلب کی خبروں کی اشاعت کا اہتمام کرتی ہے، بلکہ میڈیا سے ان کے کہنے پر خبریں غائب بھی ہوجاتی ہیں۔قوت و اقتدار کا یہ وہ پس منظر ہے جس میں ہم ہندوستانی نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھاریٹی(این بی ایس اے) کی گائیڈ لائنس کی بات کریں گے۔
این بی ایس اے کی گائیڈ لائنس: دہشت گردی کے الزام میں زیر حراست مسلم نوجوانوں کے تعلق سے خود ساختہ قومی میڈیا(نیوز چینلز) کی جانب سے خبروں کی پیش کش میں مسلسل فرقہ وارانہ رنگ جھلکنے پر قومی اقلیتی کمیشن نے ذرائع ابلاغ سے وابستہ متعدد نگراں اداروں کو صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے قومی میڈیا کی روش میں اصلاح پر زور دیا تھا۔ اس شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے پرائیوٹ نیوز چینلز کی نمائنڈہ تنظیم نیوز براڈکاسٹنگ اسوسی ایشن کے تحت نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی(این بی ایس اے) نے پانچ نکاتی گائیڈ لائنس جاری کرکے رپورٹنگ جیسے پیشہ کو فرقہ واریت سے پاک رکھنے کی ہدایت جاری کی ہے۔
این بی ایس اے کی جانب سے جاری کی جانے والی گائڈ لائنس میں کہا گیا ہے کہ جرائم، فسادات، افواہوں اور متعلقہ معاملات پر خبر کو فرقہ وارانہ انداز میں نشر کرنے سے پرہیز کیا جائے۔آنجہانی جسٹس جے ایس ورما کی سربراہی والے این بی اے نے اپنی ہدایات میں مزید کہا کہ جرائم(دہشت گردی)کے تعلق سے خبروں کی نشریات میں ملزمین یا مشتبہ افراد کی مذہبی حیثیت کو اجاگر نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ اس سے ہمارے ملک کا سیکولر تانا بانا بکھرجائے گا۔
ہدایت کے مطابق فرقہ وارانہ انداز میں خبروں کی نشریات کی وجہ سے جہاں ایک مخصوص فرقہ کی شبیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے وہیں ملزم کے بری ہونے کے بعد بھی یہ شناخت اس کا پیچھا نہیں چھورٹی۔این بی یس اے نے 19اپریل کو قومی اقلیتی کمیشن کے سربراہ وجاہت حبیب اللہ کے خط کے جواب میں لکھا ہے کہ “قومی اقلیتی کمیشن کی جانب سے جانبدارانہ اور فرقہ وارانہ رپورٹنگ کے جن پہلوئوں پر اعتراض کیا گیا ہے وہ قابل تشویش ہیں۔
اسے این بی ایس اے نے نوٹس میں لیتے ہوئے گائید لائنس جاری کردی ہے”۔ این بی ایس اے کے عنین جوزف نے قومی اقلیتی کمیشن کو بتایا ہے کہ کمیشن کی جانب سے جو تشویش ظاہر کی گئی اسے ایک لیٹر نوٹ کی شکل میں نیوز براڈ کاسٹنگ اسوسی ایشن سے وابستہ تمام ایڈیٹروں اور ممبروں کو بھیج دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی این بی ایس اے کی جانب سے جاری ہداتیں بھی دی گئی ہیں۔ عنین جوزف نے مزید بتایا کہ اسی مفہوم پر مشتمل این بی ایس اے کی جانب سے پہلے بھی گائیڈ لائنس جاری کی جا چکی ہیں مگر قومی اقلیتی کمیشن کی نشاندہی کے بعد اسے دوبارہ بہتر طریقہ سے جاری کیا گیا ہے۔
Terrorism
کاٹجو کہتے رہے ہیں : واقعہ یہ ہے کہ این بی ایس اے کی گائیڈ لائنس سے قبل ملک کے دیگر ذمہ دار شخصیات کی جانب سے بھی اس طرح کی باتیں آتی رہی ہیں کہ دہشت گردی کے معاملات میں خصوصاً الیکٹرانک میڈیا اور عموماً پرنٹ میڈیا کا کردار اچھا نہیں ہے۔ ان میں سرفہرست جسٹس مارکنڈے کاٹجو کا نام ہیجنھوں نے ابھی حال ہی میں انگریزی روزنامہ”دی ہندو”کے زیر اہتمام سمپوزیم بعنوان”دہشت گردی کی رپورٹنگ…میڈیا کتنا حساس ہے۔
سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اْن کا یہ ماننا ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے میڈیا میںرپورٹیں غلط رنگ سے پیش کی جاتی ہیں اور کسی ناخوشگوار واقعہ کے فوراً بعد میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو قصوار وارقرار دیتا ہے۔اپنے خطاب میں وہ کہتے ہیں کہ:” جب کبھی کوئی بم دھماکہ یا ایسا کوئی تخریبی واقعہ رونما ہوتا ہے تو ایک گھنٹہ کے اندر کئی ٹی وی چینل یہ بتانا شروع کردیتے ہیں کہ انڈین مجاہدین، حرکتہ المجاہدین یا جیش محمد اور لشکر طیبہ سے ای میل یا ایس ایم ایس موصول ہوا ہے۔یہاں تک کہ بعض مسلم ناموں کا ذکر کرتے ہوئے غیر ذمہ داری سے کام لیا جارہا ہے۔
ای میل یا ایس ایم ایس کوئی بھی فسادی شخص کسی بھی جانب روانہ کرسکتا ہے مگر اسے بتانا شروع کرتے ہوئے آپ یہ پیام دے رہے ہیں کہ تمام مسلمان دہشت گرد ہیں، ان کے پاس بم پھینکنے کے سوا کوئی کام نہیں ہے۔ آپ سارے مسلم طبقہ کو عفریت بتائے ہوئے فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں”۔یاد رہے گذشتہ ماہ حیدرآباد کے دلسکھ نگر بم دھماکوں کے بعد سی این این آئی بی این کے ایک پروگرام میں کرن تھاپر کو انٹرویو دیتے ہوئے یہی باتیں کہتے ہوئے جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ انڈین مجاہدین نام کی تنظیم کا کوئی وجود نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انڈین مجاہدین زرخرید صحافیوں کی تخلیق کردہ تنظیم ہے جس کا مقصد ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرتے ہوئے اْن کے خلاف گھنائو نی مہم چلانا ہے۔ نئی دہلی ، بنگلور، حیدرآباد یا کسی اور شہر میں جب بم دھماکہ کا واقعہ پیش آتا ہے تو ٹی وی چینلوں پر آناً فاناً مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انڈین مجاہدین ، حزب المجاہدین ، جیش محمد، لشکر طیبہ جیسی تنظیموں پر الزام عائد کیا جاتا ہے۔ اِن تنظیموں پر الزام لگانے کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کیا جائے۔
اْن کی شبیہ بگاڑی جائے، انہیں ملک دشمن ثابت کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ 90فیصد مسلمان انصاف پسند ہیں، ان کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے”۔حالات کے تناظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ جس برق رفتاری اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ہوڑ میں قیاس پر مبنی اور بلا تحقیق رپورٹیں پیش کرتے ہوئے شبیہ بگاڑنے کی منظم کوششیں کی جاتی رہی ہیں اس کے برخلاف جب کوئی مسلم نوجوان با عزت بری ہوتا ہے، اس وقت یہی میڈیا چینل خاموشی اختیار کرلیتے ہیں۔جب کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر آپ خبر کو خبر ہی مان کر عوام کے سامنے لا رہے ہیں تو ان خبروں کو بھی سامنے لایا جانا چاہیے جس میں ان معصوم نوجوانوں کی زندگی سے کھلواڑ کی جاتی ہے اور اس کے بعد ان کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے۔
Pakistan
اور مخصوص رپورٹٰیں چھپائی بھی جاتی ہیں: واقعات کے پس منظر میں یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ملک کا الیکٹرانک میڈیا ہو یا دیگر ان ممالک کا جن پر بالواسطہ یا بلاواسطہ امریکہ اور اسرائیل کا تسلط قائم ہے یا ان کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی جا رہی ہے۔اِن کا ہدف پہلے نمبر پر مسلمان ہیں اور اس کے بعد وہ تمام افراداورجماعتیںجو ان کے شانہ بشانہ چلنا پسند نہیں کرتیں۔یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے الیکٹرانک میڈیا نے بھی اور دیگر ہمنوا ممالک نے بھی اس خبر کو پوری طرح نظر انداز کر دیا۔
جس میں سابق امریکی صدارتی امیدوار رون پاول نے نائن الیون حملوں کو اسرائیلی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس انسانیت سوز واقعہ میں موساد کے ملوث ہونے کے کئی شواہد موجود ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک امریکی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نائن الیون حملوں کے حوالے سے اب کسی شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ حملے امریکہ کی اندرونی نہیں بلکہ اسرائیلی بیرونی کارروائی ہے۔
اب تک ملنے والے تمام شواہد سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے یہودی لابی کے ساتھ مل کر یہ کاروائی کی۔ خیال رہے کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ اور نیٹو کے فوجی دستوں نے القاعدہ نیٹ ورک کو ختم کرنے کے بہانے افغانستان میں وسیع پیمانے پر خونریزی کی ہے۔ اس کے نتیجہ میں اب تک ہزاروں افغان مرد خواتین اور بچے شہید اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ واضح رہے کہ ایران کے صدر احمدی نژاد نے نائن الیون کی برسی پر عالمی برادری کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ دنیا نے گیارہ ستمبر کے واقعات کو لے کر جن دس لاکھ سے زیادہ افراد کو مارا گیا ہے ان کی بابت کیوں خاموشی اختیار کرلی گئی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ نائن الیون حملوں کی آڑ میں عراق و افغانستان اور دنیا بھر کے مسلم ممالک میں ہزاروں افراد کے قتل عام کے بعد بھی امریکہ اس واقعہ کے بارے میں تحفظات دور کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ دونوں ٹاورذ میں موجود فرنیچر اور دیگر سازو سامان کی حالت درست، جبکہ ہزاروں لوگوں کی لاشیں جادوئی طریقہ سے غائب ہونے سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق11ستمبر2001کو دہشت گرد حملوں میں گرنے والی امریکہ کی دوبڑی عمارتوں میں موجود فرنیچر و دیگر سازو سامان کی حالت سے لگتا ہے کہ عمارتیں گری ہی نہیں۔
Pakistan Killing
جبکہ انسانی لاشوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے اور ایک ہزار سے زائد لاشوں کا نام و نشان تک نہ ملنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لاشوں کو جادوئی طریقہ سے فضا میں ہی غائب کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ نہ کسی انسان کے اعضاء مل سکے اور نہ ہی ہڈی کا ٹکڑا اور نہ ہی انسانی جلد کا کوئی حصہ ثبوت کے طور پر عمارتوں میں موجود ہے۔یہ وہ واقعہ ہے جو رون پال بیان کرتے ہیں اور یہی وہ دہشت گردی کے خلاف منظم جدوجہد ہے جہاں سے صلیبی جنگوں کا ایک بار پھر آغاز ہوا چاہتا ہے۔ اب ان جنگوں میں کون کس کا حلیف اور حریف بنے گا یہ وقت اور حالات واضح کرتے چلے جائیں گے۔
لیکن امن پسند حضرات ہر وقت اور ہر زمانے میں زندہ دل اور روشن دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت اور سچائی کو واضح کرتے رہیں گے اور اُن انتہا پسندوں اور فاشسٹوں کا ساتھ نہیں دیں گے جن کا مقصد ہی اللہ کی زمین پر فساد فی الارض پھیلانا رہا ہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ جن آزمائش سے بھی دوچار ہیں ان سے نکلنے کی ہر ممکن تدبیر کریں لیکن احسان کی روش پر قائم رہیں۔
کیونکہ احسان کی روش فساد سے روکتی ہے نیز ایسا شخص دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کرتا ہے۔کہا کہ:”جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے ، اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دْنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر۔ احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا”(القَصَص:٧٧)۔ تحریر : محمد آصف اقبال