تحریر : صادق رضا مصباحی اس وقت پورے ملک کی نگاہیں گجرات اور ہماچل پردیش کے الیکشن پرلگی ہوئی ہیں۔دونوں ریاستوں کے انتخابی نتائج خصوصاًگجرات کے نتائج سے یہ واضح ہوجائے گاکہ ۲۰۱۹میں مرکزپرکس کاقبضہ ہوگا۔ کانگریس اوربی جے پی دونوں پارٹیوں نے گجرات میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے ۔ایک طرف مہاراشٹرمیں بی جے پی کی اتحادی شیوسیناگجرات میں بی جے پی کوہرانے کے لیے اپنے امیدواراتارچکی ہے اوردوسری طرف این سی پی سربراہ شردپوارنے گجرات کی ساری سیٹوں پرالیکشن لڑنے کااعلان کردیاہے ۔ظاہرہے کہ شردپوارکایہ اقدام بی جے پی کوہی فائدہ پہنچانے کے لیے ہے ۔شردپوارکے اس اقدام کے پیچھے یہ منطق بتائی جارہی ہے کہ بی جے پی کے پاس جوووٹ ہے وہ کسی اورپارٹی میں جانے والانہیں ہے اس ووٹ بینک کے علاوہ ساری کمیونٹیوں کے ووٹرزدوسری پارٹیوں میں تقسیم ہوجائیں گے اوراس کا سیدھافائدہ بی جے پی کوپہنچے گالیکن کیااین سی پی اوربی جے پی اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب ہوجائیں گے ؟گجرات اورہماچل پردیش سے جوزمینی حقائق سامنے آرہےہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہماچل پردیش میں بی جےپی کی فتح کاخواب کبھی شرمندہ تعبیرنہیں ہوگا۔ہماچل پردیش میں عرصے سے کانگریس کی حکومت رہی ہے البتہ اس عرصے میں ایک باربی جے پی نے چال بازی سے کانگریس کے وزیر اعلیٰ سکھ رام کوایسی پٹی پڑھائی کہ انہوں نے کانگریس کی حکومت ختم کرکے بی جےپی کی حکومت بنوادی مگرکچھ ہی دنوں کے بعدانہیں اندازہ ہوگیاکہ ان کایہ فیصلہ غلط تھاچنانچہ انہوںنے ’’گھرواپسی ‘‘کی اور کانگریس میں واپس آکردوبارہ کانگریس کی حکومت بنائی ۔ہماچل پردیش میں ایساکچھ بھی نہیں ہے کہ وہاں بی جے پی کی حکومت آجائے کیوں کہ وہاں کے عوا م کانگریس سے مطمئن ہیں اوربی جےپی کی ساڑھےتین سالہ حکومت کی پالیسیوںسے سخت نالاںاس لیے سیاسی تجزیہ نگارکہہ رہے ہیں کہ ہماچل پردیش میں اس بار بھی کانگریس ہی حکومت بنائے گی۔
دوسری جانب گجرات ہے ۔گجرات وزیراعظم نریندرمودی کی ’’ناک‘‘ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاربتارہے ہیں کہ اب کی باریہ ’’ناک‘‘کٹ جائے گی اور نریندرمودی کی شخصیت ’’ادھوری ‘‘رہ جائے گی ۔نریندرمودی کو اس بات کازبردست احساس ہے کہ اگران کی یہ ’’ناک‘‘کٹ گئی توپھروہ کہیں منہ دکھانے کےقابل نہیں رہیں گے کیو ںکہ نوٹوں پرپابندی اورجی ایس ٹی جیسے بڑے فیصلوں پرپورے ملک کواندھیرے میں رکھ کربیان دینے والے مودی جی اوران کی کمپنی بڑے بڑے وعدے کررہے ہیں مگرا س کااصل امتحان گجرات میں ہوگاکیوںکہ ان دونوں بڑے فیصلوں سے ملک کی معیشت پرزبردست اثرپڑاہے ۔ کاروبارکوبے حدنقصانات ہوئے ہیں ۔گجرات تاجروں اورتجارت کی سرزمین ہے اوران فیصلوں نے تجارت کی کمرتوڑدی ہے ۔ناراض تاجربرادری اس بارمودی کواچھاسبق سکھانے کے موڈمیں ہے ۔دوسری وجہ یہ ہے کہ گجرات میں بی جے پی اقتدارکی تین میعادیں مکمل کرچکی ہے اورعوام تبدیلی چاہتے ہیں ۔گجرات کے شہری بی جےپی کی پالیسیو ںسے پریشان ہیں۔
آخرعوام کوہندومسلم ایشومیں زیادہ دنوں تک الجھا کرکب تک بیوقوف بنایاجاسکتاہے،عوام آخردل دماغ والے ہیں کوئی چوپائے تونہیں۔بڑے بڑے دعوے کرنااوربات ہے اورزمینی حقائق کے ساتھ بات کرنادوسری بات ہے ۔بی جےپی لیڈران اکثر زمینی حقائق سے دورہ کربات کرتے ہیں بلکہ انہیں زمینی حقائق سے کوئی دل چسپی ہی نہیں ہوتی ۔عوام کواندھیرے میں رکھ کراپناالوسیدھاکرنے میں انہیں بے حدمزہ آتا ہے ۔بی جے پی کوبھی اس بات کااچھی طرح اندازہ ہوگیاہے کہ گجرات کاقلعہ اس کے ہاتھ سے نکل رہاہے اورنریندرمودی جی ’’ناک‘‘کٹنے والی ہے اس لیے اپنی ’’ناک‘‘بچانے کے لیے مودی جی نے ایٹری چوٹی کازورلگادیاہے۔
پڑوسی ریاست مہاراشٹر سے بی جے پی حکومت کے سینئروزرااورلیڈران کوگجرات میں بی جے پی کے حق میں مہم چلانے کے لیے طلب کرلیاگیاہے حتی کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن جہاں شیوسیناکے ساتھ بی جےپی بھی اقتدارمیں ہے،وہاں سے سارے سینئرافسران کوگجرات بلالیاگیاہے ۔بی ایم سی کے کمشنراجوئے مہتانے اس فیصلے سے عدم مسرت کااظہارکیاتھا کہ ان سینئرافسران کے گجرات چلے جانے کی وجہ سے بی ایم سی کابہت سارا کام متاثرہوجائے گااوران کی بھرپائی کے لیے بعدمیں بہت زیادہ محنت کرنی ہو گی ۔اجوئے مہتانے یہ شکایت حکومت تک پہنچائی تھی مگرحکومت نے اس پرکان ہی نہیں دھراکیو ںکہ بی جے پی حکومت کو اس سے کوئی دل چسپی نہیں کہ ممبئی کے شہریو ںکاکام ہویانہ ہومگراسے اس بات کی فکرضرورہے کہ گجرات میں بی جےپی ضرورجیت جائے ورنہ کیاوجہ ہے کہ حکومت نے اجوئے مہتاکی شکایت پرکوئی توجہ نہ دی اور اپنے فیصلے پراڑے رہی ۔بی جے پی کی یہ ساری منصوبہ بندیاں اس لیے ہیں کہ اسے اچھی طرح احساس ہے کہ گجرات کی جنگ کوئی آسان جنگ نہیں ہے مگرسیاسی تجزیہ نگارو ںنے پیشین گوئی کردی ہے کہ بی جےپی کایہ خدشہ صحیح ثابت ہوگااورگجرات بی جے پی کہ ہاتھو ںسے نکل جائے گااورا س کے سارے خواب تاش کے پتو ں کی طرح بکھرجائیں گے ۔کیاواقعی ایساہوجائے گا؟