تحریر: شفقات عدالت بلدیاتی انتخابات گو کہ آج تک جمہوری حکومتوں کی ترجیحات نہیں رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے 2015میں بلدیاتی انتخابات کروا کر یہ تاریخی سہر ا اپنے نام کر لیا ہے۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا اور 1959ء میں بنیادی جمہوریت کا آرڈریننس نافذ کیا۔ اور 1961میں ایک حکومتی بیان کے ذریعے بنیادی جمہوریت کے مقاصد فرائض اور حدود کی وضاحت کی۔ ایوب خان نے اس نظام کو عوام کی سیاسی اور سماجی تربیت گاہ قرار دیا۔ اور پھر 1962ء کے آئین میں اس نظام کو انتخابی کالج کا درجہ دیا گیا۔ اْس وقت بنیادی جمہوریت کے اراکین کی تعداد 80ہزارتھی۔ 1963ء میں دیہی ترقیاتی پروگرام شروع کیے گئے تاکہ بلدیاتی نظام کے ذریعے سے بنیادی سہولیات کی فراہمی دیہات میں بھی یقینی بنائی جا سکے۔ ایوب خان کے بعد1969ء میں ون یونٹ کو ختم کرکے بلدیاتی نظام کو ازسرنو منظم کیا گیا۔
بھٹو صاحب نے چار ایکٹ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منظور کیے۔ 1972ء میں سندھ اور سرحد کے ایکٹ منطور کیے گئے اور 1975میں پنجاب اور بلوچستان کے ایکٹ منظور کیے گئے۔ اس دور میں قوانین کی منظوری کے ساتھ ساتھ علاقائی انتخابات کے ڈھانچے کو بھی بہتر کیا گیا اور اس دور میں دیہی کونسلیں۔ عوامی میونسپل کمیٹیاں عوامی ٹائون کمیٹیاں اور عوامی محلہ کیمٹیاں قائم کی گئی تاکہ لوگوں کی حقیقی فلاح کے لیے پیپلز ورکس پروگرام کو عملی جامہ پہنچایا جاسکے۔ جنرل ضیاالحق نے عنان حکومت سنبھالا۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے1979ء میں مقامی حکومتی نظام کو نافذ کیا گیا۔
Gujarat
بلدیاتی حکومت کے اس نظام نے افسر شاہی کے روایتی رویے سے عوام کو آزاد کروایا۔ بلدیاتی اداروں کو وسیع انتظامی اختیارات دیے اور مالیاتی احتیارات میں بھی توسیع کی گئی۔ جس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں پنچایتی نظام کو موثر بنایا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو دو دو مرتبہ موقع ملا اور وزارتِ عظمیٰ نصیب ہوئی مگر افسوس سے یہ بات کہنی پڑھ رہی ہے کہ ان کی ترجیحات میں بلدیاتی انتخابات کی جگہ کچھ اور تھا۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت پر شبِ خون مارا اور ایک منتخب حکومت کو لمبی چھٹی پر بھیج دیا اور خود اقتدار کا جھولا جھولنے لگا اس نے بھی سابقہ جرنیلوں کی طرح 2000ء میں مقامی حکومتی آرڈیننس جاری کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ضلعی حکومتی نظام متعارف کروایا جس میں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا اور اختیارات کا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے ضلع کی افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کے تابع کر دیا گیا جس سے مقامی حکومتی نظام کو مضبوطی میسر ہوئی۔
چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو قومی علاقائی اور بین الاقوامی دبائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ براہِ راست عوام کے مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور ان سے علاقائی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر ان پر مناسب توجہ اور فنڈز نہ دیے جائے تو یہ مسائل بہت جلد قومی مسائل بن جاتے ہیں جو مختلف الاطرافی سانحات کو جنم دیتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ سانحات کئی منتخب حکومتوں کو کھا جاتے ہیں اور آمریت کو جمہوریت چمکانے کا موقع مل جاتا ہے۔
ضلع گجرات میں ہونے والے جماعتی بلدیاتی انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کے چوہدری محمد علی تنویر نے سابق وزیر اعظم چوہدر ی شجاعت حسین کی ہمشیرہ محترمہ سمیرہ الہٰی کو ہرا کر یہ معرکہ اپنے نام کر لیا ہے۔ سخت کانٹے دار مقابلے نے جہاں گجرات کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی وہیں پہ پہلی دفعہ اتنے پر امن اور پر سکون انتخابات بھی کروانے کا سہرا موجودہ سیاستدانوں کے نام کر دیا۔ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے پینل میں سارے ہی نام پاکستان مسلم لیگ ن کے ورکرز کلاس ہیں جن میں چیئرمین چوہدری محمد علی تنویر کوٹلہ ، وائس چیئرمین میاں شیر افگن اور وائس چیئرمین شعیب رضا شامل ہیں۔
PML-N
ایک طرف پاکستان مسلم لیگ ق کے بزرگ اور سابقہ صوبائی و مرکزی حکومت کے سربراہ تھے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ایم این اے چوہدری عابد رضا اپنے مقامی ایم این اے اور ایم پی ایز کے ساتھ میدان میں پنجہ آزمائی کرنے نکلے تھے۔ ظاہر ہے کہ جمہوری روایات کے مطابق ہر ایک چیئرمین نے اپنا حق رائے دہی اپنی مرضی سے استعمال کیا اور ظاہری اعدادو شمار کو مسترد کرتے ہوئے مختلف نتائج دیئے۔ لیکن پورے گجرات کے لئے یہ خوش آئندبات کہ گجرات میں جمہوری روایات قائم ہوگئی ہیں ایک صدی سے قائم شاہی روایات کا خاتمہ ہوگیاہے۔ پارٹی کوئی بھی ہو بس ورکرز کو اہمیت دی جائے یہی بات عوام کے حق میں بہتر ہے کہ کوئی ان میں سے آگے آئے جو ان کے مسائل کو سمجھتا ہو جانتا ہو۔