اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانولہ میں پتھر کوٹنے والے اٹھارہ مزدورں کی ہلاکت کے معاملے پر سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کے لیے درخواست جمع کرائی گئی ہے۔
خیال رہے کہ یہ ورکرز طویل عرصے تک سلیکیون ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جذب ہونے سے دمہ کی طرح کے مرض کا شکار ہوکر چل بسے تھے۔ پبلک لائرز فرنٹ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے رضاکاروں اسامہ خاور اور یحیٰ فرید خواجہ نے اس معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان سے ازخود نوٹس لینے کی درخواست جمع کرائی ہے۔
انسانی حقوق کے ان رضا کاروں نے بتایا کہ اپنے عہدے کے آخری روز سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اس واقعے پر پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخواہ کے محکمہ انسانی وسائل و لیبر سے رپورٹس طلب کی تھیں۔
اس کے علاوہ گوجرانوالہ کے کمشنر، چاروں صوبوں کے ماحولیاتی تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کے سربراہان اور وفاقی حکومت کو بھی رپورٹیں جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی تاہم سماعت کی تاریخ ابھی تک طے نہیں ہو سکی ہے۔
اپنی درخواست میں ان رضاکاروں نے اپیل کی ہے کہ یہ اٹھارہ نوجوان مزدور جن میں سے نو کا تعلق ایک ہی گاﺅں سے تھا، اس مرض کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ اس سلسلے میں تازہ ترین ہلاکت رواں سال بائیس مئی کو صفدرعلی نامی شخص کی ہوئی جسے یہی دمہ جیسی بیماری لاحق ہوگئی تھی، جبکہ اس بھائی بھی چند برس قبل اسی مرض کا شکار ہوکر چل بسا تھا۔
گوجرانوالہ کے علاقے واہنڈو کے تیرہ افراد ، نوت کالار کے نو ، ٹھٹھہ گلاب سنگھ کے دو اور تھپ نالہ کا ایک شخص اس بیماری کا شکار ہوکر ہلاک ہوا ہے۔ عدالت سے یہ بھی درخواست کی گئی ہے کہ ڈیرہ غازی خان اور پنجاب کے دیگر حصوں میں گزشتہ چند برسوں کے دوران اسی بیماری کا شکار ہوکر ہلاک ہونے والے ایک سو سے زائد افراد کے بارے میں بھی رپورٹس طلب کی جائیں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ تمام افراد پتھر کوٹنے والی فیکٹریوں کے ورکر تھے اور ان کے ورثاء کو صوبائی حکومت یا فیکٹری مالکان کی جانب سے کسی قسم کی امداد فراہم نہیں کی گئی۔
ان پتھر کوٹنے والے کارخانوں میں پتھروں کو گرینڈنگ مشینوں میں سفوف کی شکل دی جاتی ہے، اس مٹی بھرے ماحول میں ورکرز کو کام کرنا پڑتا ہے جو مزدوروں کے پھیپھڑوں کے اوپری حصے میں جمع ہوجاتی ہے جس سے سانس لینے میں تکلیف اور شدید کھانسی کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے جس کی اکثر غلطی سے ٹی بی یا پھیپھڑوں میں پانی جمع ہونے کی تشخیض کردی جاتی ہے۔
درخواست میں بتایا گیا ہے کہ مزدوروں نے کئی بار فیکٹری مالکان سے حفاظتی اشیاء جیسے ماسک وغیرہ فراہم کرنے کا مطلبہ کیا ہے مگر اس طرح کے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ درخواست میں بتایا گیا ہے کہ اکثر واقعات میں ڈاکٹر مرض کی درست تشخیص کرنے سے قاصر رہتے ہیں، لگ بھگ تمام متاثرین گوجرانوالہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں پھیپھڑوں کے امراض کے ماہرین سے معائنہ کرانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔