میدانِ سیاست کا تازہ ترین نقشہ یہ ہے کہ ایک طرف حکومتی ترجمانوں نے سیاسی مخالفین کے خلاف دھواں دھار بیان بازی کے مورچے کھول رکھے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن کی تقریبا تمام اہم سیاسی جماعتوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک نئے سیاسی اتحاد کے پرچم تلے یکجا ہوکر حکومت کیخلاف بھرپور احتجاج کا پروگرام بنا لیا ہے۔اس احتجاج کا آغاز گوجرانوالہ سے کیا جارہا ہے۔ 16 اکتوبر کو ”پی ڈی ایم”کے زیر اہتمام ہونے والے جلسے کے سلسلہ میں گوجرانوالہ میں اودھم مچا ہوا ہے اور پہلوانوں کے شہر میں اپوزیشن جماعتوں پر مقدمات کے اندراج وپکڑ دھکڑ جاری ہے۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی ایک اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ اپوزیشن کو ملک بھر میں جلسوں کی اجازت دے دی جائے۔
قارئین۔۔۔ جس رفتار سے سیاسی کشیدگی بڑھ رہی ہے، اس پر ملک و قوم کے ہر بہی خواہ کا تشویش میں مبتلا ہونا فطری امر ہے۔ احتساب کے نام پر حکومت کے سیاسی مخالفین کی قید و بند اور بالعموم بے نتیجہ تفتیش اور مقدمات کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے جبکہ حکمراں سیاسی اتحاد کے وابستگان کی کرپشن کے معاملات پر کوئی قابلِ لحاظ پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔ آٹے اور چینی کے بحران کی تحقیقات اور ملوث افراد کی نشان دہی کے باوجود ان کے خلاف اب تک کوئی نتیجہ خیز کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے۔ اس دوہرے معیار کے سبب احتسابی عمل کی غیرجانبداری اور شفافیت بری طرح مجروح ہوئی ہے اور حکومت کے ناقدین کی جانب سے اسے اپوزیشن کو دیوار سے لگائے رکھنے کا حربہ قرار دیا جارہا ہے۔
جہاں تک لوگوں کے مسائل کا تعلق ہے جنہیں حل کرنا ہرحکومت کی اصل ذمہ داری ہوتی ہے تو کیفیت یہ ہے کہ عوامی مشکلات کی شدت میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔ مہنگائی نے غریب تو کیا خوشحال متوسط طبقے تک کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ بجلی گیس پٹرول حتی کہ روزمرہ استعمال کی ادویات تک کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ سنگین جرائم کی رفتار ہولناک ہے اور جان و مال ہی نہیں عزت آبرو تک کیلئے خطرات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔ بیرونی محاذ پر بھی ملک کو متعدد سنگین چیلنج درپیش ہیں۔سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت کی طرف اپوزیشن کیساتھ مل کر مسائل کا کوئی حل نکالا جاتا لیکن یہاں حکومتی ترجمانوں اور وزراء کی طرف سے داغے جانے والے بیانات ”جلتی پر تیل”کا کام کررہے ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کی طرف سے کئے جانے والے تمام اقدامات ہی الٹے ہیں۔کسی حکومتی اقدام سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ ہمارے حکمران معاملات کو سلجھانے کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت دیئے جانے کے فیصلے کو ہی لے لیں۔یہ فیصلہ بھی پارٹی قائدین کے اجلاس میں کیا گیا ہے۔
وزیراعظم کو نہ یہ معلوم ہے کہ سرکاری عمارت میں ہونے والے وکلاء کنونشن میں وزیراعظم کو جانا چاہیے یا نہیں اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ اپوزیشن کے جلسوں پر پابندی لگانا حکومت کا کام ہے یا پارٹی کا؟۔ اگر پارٹی اجلاس میں یہ اعلان کیا گیا ہے تو یہ بات بھی قابل گرفت ہے جہاں تک ملک بھر میں اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت دینے کے فیصلے کی بات ہے یہ ایک احمقانہ بات ہے۔ آئین کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے کی اجازت ہے۔ یہ ان کا حق ہے۔ سرکاری پارٹی کو تو اس بات کا حق ہی نہیں کہ کسی کے جلسوں پر پابندی لگائے یا ان کو اس کی اجازت دے۔ سیاسی پارٹیوں کو جلسوں کی اجازت آئین نے دی ہے اور آئین کی دی ہوئی اجازت یا حقوق کے بارے میں آئینی طور پر ہی فیصلے ہو سکتے ہیں۔ حکومت پابندی ضرور لگا سکتی ہے لیکن اس کے لیے مناسب آئینی وجوہ ہونا چاہئیں۔
وزیراعظم اس امر کی بھی وضاحت کردیں کہ کیا ملک میں آئین معطل ہے کہ اب سرکاری پارٹی کی اعلی قیادت ملک میں جلسوں کے اجازت نامے تقسیم کرتی پھرے گی؟وفاقی وزراء اپوزیشن کااحتجاج کیسے روک رہے ہیں ان بیانات ملاحظہ کیجئے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اپوزیشن کے جلسے ملک میں کورونا کو ہوا دیں گے،جلسے جلوس سیاست کا حصہ ہیں،لیکن اپوزیشن اپنا احتجاج موخر کر دے۔ اسد عمر نے اپوزیشن جماعتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ احتجاجی جلسے نہ کریں،بڑے بڑے اجتماعات کے حوالے سے کورونا ایس او پیز پہلے ہی طے ہو چکے ہیں، وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ اپوزیشن اپنی ریلیاں اور دھرنے اگلے سال تک ملتوی کر دے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ قومی اداروں کے خلاف اپوزیشن کی تحریک ناکام ہو گی،جلسے کرنا اپوزیشن کا حق ہے،اگلے چند ماہ میں دہشت گردی اور کورونا وائرس کے پھیلائو کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ وزیر داخلہکا کہنا ہے کہ جمہوریت میں جلسے اور ریلیاں معمول کی بات ہیں،لیکن کوئی شہری کسی ایسی ریلی میں شرکت کا تصور نہیں کر سکتا، جو قومی اداروں کے خلاف نکالی جا رہی ہو۔
ان بیانات میں مشترک نکتہ یہ ہے کہ جلسے اپوزیشن کا حق ہیں، لیکن جو جلسے وہ کرنے جا رہی ہے وہ ملتوی کر دیئے جائیں، بعض وزرا نے تو اس کی وجہ کورونا وائرس کے پھیلا ئوکا خدشہ بتایا ہے، ایک وزیر کو دہشت گردی کا خطرہ بھی لاحق ہے،ابھی گزشتہ روز ہی راولپنڈی میں تحریک انصاف کے عہدیداروں کی حلف برداری کی ایک تقریب ہوئی، کسی کو اس تقریب کے انعقاد پر اس بنیاد پر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ اس سے کورونا پھیل سکتا ہے یا یہ تقریب کسی دہشت گردی کی زد میں آ سکتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر حکمران جماعت کی کسی تقریب سے کورونا نہیں پھیلتا اور اس بنیاد پر دارالحکومت کے جڑواں شہر کی انتظامیہ اس تقریب کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی، نہ تقریب کے منتظمین کو خبردار کرتی ہے، کہ آپ جو تقریب منعقد کرنے جا رہے ہیں وہ کورونا کے پھیلا کا باعث بن جائے گی، تو پھر حکومتی اداروں کے پاس کیا اخلاقی جواز رہ جاتا ہے کہ وہ اپوزیشن سے کہیں کہ وہ جلسہ نہ کرے،کیونکہ کورونا پھیلے گا، کیا انہوں نے کورونا سے کوئی ضمانت لی ہوئی ہے کہ وہ راولپنڈی کی تقریب کے ذریعے نہیں پھیلے گا، لیکن گوجرانوالہ میں جلسہ ہوا تو وہ پھیلا روکنے کا ذمہ دار نہیں،خود سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر نے گزشتہ روز ہی سیالکوٹ میں ایک تقریب سے خطاب کیا اور وہاں انکشاف کیا کہ مسلم لیگ ن کے پندرہ بیس سے زیادہ ایم این اے استعفا نہیں دیں گے، جناب فواد چودھری سے سوال ہے کہ کیا وہ کہیں سے یہ ضمانت لے کر گئے تھے کہ کورونا ان کی تقریب پر حملہ آور نہیں ہو گا؟ ویسے بھی یہ انکشاف وہ اپنے اس ٹویٹ کے ذریعے بھی کر سکتے تھے، جس میں انہوں نے اپوزیشن سے کہا کہ وہ اپنی تحریک اگلے سال تک ملتوی کر دے،انہوں نے اگر ایک انکشاف کرنے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کرایا اور وہاں جانا ضروری سمجھا تو کیا اپوزیشن کا یہ حق نہیں کہ وہ بھی کسی ایسے ہی جھوٹے سچے انکشاف کے لئے کسی جلسے کا اہتمام کرے، وزرا جو خود نہیں کرتے اس کی تلقین دوسروں کو کیوں کرتے ہیں؟۔
قومی سلامتی اور ملکی مفاد کا تقاضا ہے کہ سیاسی کشیدگی میں فوری کمی کی تدابیر اختیار کرکے عوام کے مسائل کے حل اور کاروبار مملکت چلانے کی خاطر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ضروری تعاون کی راہ ہموار کی جائے۔ غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی بجائے مسائل کے حل کیلئے قابل قبول لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔اس ماحول کی تشکیل کے لئے ناگزیر ہے کہ احتسابی عمل کو حکومت کی مداخلت سے مکمل طور پر پاک کرکے سو فیصد غیرجانبدار بنایا جائے اور وابستگان حکومت کے معاملات بھی غیرجانبداری اور شفافیت کے بھرپور اہتمام کے ساتھ اس عمل سے گزارے جائیں۔ پالیسی سازی میں پارلیمنٹ کا کردار پوری طرح بحال کیا جائے۔ آزادی اظہار پر عائد غیرآئینی پابندیاں ختم کی جائیں اور حکومت سے اختلاف کو ملک دشمنی اور غداری قرار دینے سے گریز کیا جائے۔ اِن امور کا اہتمام قومی مفادات کے تحفظ کیلئے ناگزیر ہے اور حکومت و اپوزیشن ہی نہیں تمام ریاستی اداروں کو بھی آئینی حدود میں رہ کر اس مقصد کے لئے مثبت طور پر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔