تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری امریکن کلئیرنس کے بعد حکمت یار خود ساختہ جلا وطنی یا زیر زمین خفیہ رہائش گاہ سے افغانستان پہنچ چکے ہیں اور موجودہ افغان حکومت کے ہی پاس خصوصی مہمان بنے سرکاری محلات میں براجمان ہیں کہ اب امریکہ کی نظروں میں وہ”خطرناک ” نہیں رہے افغانستانی عوام میں ان کی پہلے سے ہی گہری جڑیں موجود ہیں کہ وہ روسیوں کے جانے کے بعد پہلے وزیر اعظم تھے اور ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ بھی ہیںپاکستانیوں سے ان کے تعلقات کوئی ڈھکے چھپے نہیںوہ ہمیشہ سے ہی پاکستان کی سا لمیت کے حامی رہے ہیں اور کیوں نہ ہوں ؟روس کے وہاں سے چلے جانے کے بعد پاکستان نے ہی انکی کمر پر ہاتھ رکھ کر تھپکی دی تھی اور پاکستان کی زبردست تائیدانہیں حاصل رہی پاکستان نے اس طرح پہلی افغان حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا تھا پھر ” طالبان “کی تحریک چلی اور طالبان کی حکومت قائم ہوگئی اس دور میں انصاف کا بول بالا ہوا کہ اسلامی شرعی قوانین کا نفاذ بھی ممکن ہوابتدریج افغانستان اسلامی افغانستان میں تبدیل ہونا شروع ہوگیا تھا 9/11کے واقعہ کے بعدامریکہ نے القاعدہ کا پیچھا شروع کیا اور پاکستانی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کی وساطت سے پاکستانی اڈے استعمال کرکے افغانستان پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیے بمباریاں کی گئیں زہریلی گیسیں پھینکی گئیں ڈرون طیارے استعمال ہوئے اور وہاں آج تک آگ اور خون کا یہ کھیل جاری ہے۔
کئی بیرونی ممالک کی مشترکہ افواج نیٹو فورسز کے نام سے وہاں برسر پیکار ہیں مگر کھربوں ڈالر خرچ کرکے بھی ابھی تک امریکہ افغانستان پر مکمل قابو نہیں پاسکا کہ ابھی نصف سے زائد علاقو ں پر طالبان قابض ہیںاور کابل کے گردو نواح پر ہی نہیں بلکہ سرکاری ایوانوں محلات پر بھی حملہ آور ہوتے رہتے ہیںنیٹو افواج کے بھی ہزاروں فوجی ہلاک ہوچکے ہیں ان کا راشن پانی اور اسلحہ کی ترسیل کا واحد راستہ پاکستان ہے۔گلبدین حکمت یار نے موجودہ امریکن دھمکیوں اور پاکستانی امداد روکنے کے اعلان کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی امداد روکے جانے کی وجہ عدم تعاون نہیں۔بلکہ خطے میں بننے والاامریکہ مخالف اتحاد ہے انہوں نے افغان چینل کو انٹر ویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ سمجھتا ہے کہ خطے میں اس کے خلاف نیا اتحاد بن رہا ہے جو واشنگٹن کے لیے غصے کا باعث ہے امریکہ خطے میں مخالف اتحاد کے خوف سے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف اپنا رہا ہے ویسے بھی واضح ہوچکا ہے کہ سبھی یہود و نصاریٰ سامراجی ٹولوں اور ہندو بنیوں نے متحد ہو کر پاکستان کے خلاف صہونیت کے علمبردار اسرائیل کے تابع فرمان بن کر محاذ کھول رکھے ہیں ٹرمپ کا فلسطین میں اپنا حکومتی ہیڈ کوارٹر منتقل کرنے کا اعلان اپنی بڑھتی ہوئی نا مقبولیت کا توڑ کرنے کی ناکام کوشش ہے جسے سلامتی کونسل اور پھر جنرل اسمبلی میں شرمناک شکست سے دو چار ہونا پڑا۔
افغانستان سے نکلنے کی بجائے اب مزید قیام کے لیے پلاننگ جاری ہے تاکہ یہاں کی قیمتی معدنیات لوٹی جاسکیں۔دوسری طرف نیٹو افواج افغانی تہہ خانوں میں رہ رہ کر اکتا چکی ہیںفوجی تنگ آکر خود کشیاں کر رہے ہیں جہاں انہیں ہفتوں سورج کی روشنی بھی نصیب نہیں ہوتی موجودہ افغان حکمران بھی ہر طرف سے خطرات میں گھرے ہوئے ہیں امریکہ کے افغانستان میں مزید قیام کرنے کی ہی وجہ سے شاید اسے اب پاکستان کی ضرورت نہ رہی ہے اگر پاکستان بھی اس کی طرح جذباتی ہوکر اپنا امدادی ہاتھ ختم کردے تو افغانستان میں جنگ کے شعلے تیز ہوجائیں گے اور امریکی افواج کو دن میں تارے نظر آنے لگیں گے۔بھارت کی طرف سے” را” کو اربوں ڈالر امداد کی وجہ سے افغانستان دہشت گردی کا گڑھ بنا ہوا ہے جہا ں سے تخریب کار پاکستان کے اندر آکر بھی وارداتیں کر رہے ہیںبالخصوص بلوچستان میں تو ان کی تخریب کاری انتہائوں کو چھو رہی ہے بحر حال پر امن افغانستان پاکستان کے بھی مفاد میں ہے کچھ بھی ہوجائے افغانستان میں امریکہ کی صورت عراق اور مصر کی طرح “سو جوتے اور سو پیاز “کھانے کی طرح ہے “بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے”کے مصداق بالآخر امریکہ کو یہاں سے جانا ہے مگر وہ مرحلہ پاکستان کی امداد کے بغیر پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتاآخری صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ گلبدین جس پر امریکنوں ،افغان حکمرانوں اور پاکستانیوں کو بھی اعتماد ہے اور وہ امن عامہ بحال کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں یہ سبھی ان کے پیچھے کھڑے ہوں تو وہ طالبان سے مذاکرات کرسکتے ہیں اس طرح امریکی بھارت کو ” علاقائی تھانیدار ” بنانے کی بجائے گلبدین کو “چیف کنڑولر” بنا دیںجو امن کی بحالی کے بعد انتخابات کروائیں تاکہ اقتدار صحیح منتخب افراد کے حوالے ہو جائے۔
امریکن تھنک ٹینک ایسی صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں مگر ٹرمپ ” میں نہ مانوں”اور یو ٹرن لینے کو ذاتی بے عزتی سمجھتے ہوئے ہندو مکار بنیوں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں اور اپنی مکمل ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتے ہیں حالانکہ نیٹو افواج میں شامل دیگر سبھی ممالک نے کئی بار مزید جنگ جاری رکھنے سے انکار کیا ہے ہندو مکاروں نے تو پاکستان بننے سے قبل سکھوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں علیحدہ خودمختارمملکت بنانے کا ماحول فراہم کریں گے مگر گولڈن ٹیمپل پر ہی گولہ باری کر ڈالی جس پر سکھ محافظوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ہندوبنیے” بغل میں چھری اور منہ میں رام رام “کرنے کے مکمل ایکسپرٹ ہیں وہ ” جی حضوریوں ” کی رٹ لگاتے اور دونوں ہاتھ جوڑ کر ” نمستے نمستے”کہتے ہوئے مخالف کو مکمل اعتماد میں لینے کے فن سے بخوبی آگا ہ ہیںامریکنوں کا وہ سارا اسلحہ بھی قبضے میں لے لیویں گے اور وقت آنے پر اس کے فوجیوں کو بھی ڈھلانوں،پہاڑوں سے لڑھکا دیں گے اور امریکہ کی غلط پالیسی سے مدفون قیمتی دھاتوں کو نکالنے کی بجائے یہی زمینیں ان کا مدفن بن کر افغانستان ان کا قبرستان ثابت ہوگاواضح ہو کہ کسی چوہدری کی چوہدراہٹ اس کے پنڈ چک میں تو چل سکتی ہے مگر دیار غیر میں تو اسے منہ کی ہی کھانی پڑے گی !اور جان کے لالے پڑ سکتے ہیں ! دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی 75ہزار افواج و سویلین افراد کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاسکتیں! خدا دیکھ رہا ہے۔