تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری امریکہ جو کہ ایک مصلحت پسند ملک ہے وہ اپنے مفاد کے مد نظر ہمیشہ ہی یوٹرن لے لیتا ہے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمیں خوب بیوقوف بنا کر روس سے لڑوادیا پروپیگنڈا زور دار کیا گیا کہ روس گرم پانیوں تک پہنچنے کے لیے زور لگا رہا ہے جس سے پاکستان کی سا لمیت کو بھی خطرہ ہوگا ہم نے خوب اسلامی ممالک سے نوجوان جہاد کے نام سے اکٹھے کیے اور اس جنگ میں اصل فریق بن گئے اور امریکن اسلحہ وسرمایہ کے زورسے روس کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر ڈالا بعد ازاں مجاھدین میں اتفاق و اتحاد نہ رہاآپس میں زیادہ سے زیادہ اقتدار میں حصہ حاصل کرنے کے لیے دست و گریبان ہوگئے ضیاء الحق نے مجاھدین کے سبھی گروہوں ،مسلکی و علاقائی طاقتوں سے خانہ کعبہ لے جا کر حلف لیا کہ وہ آپس میں جنگ وجدل سے گریز کریں گے اتفاق رائے سے گلبدین حکمت یار وزیر اعظم چنے گئے اور آپس میں صلح صفائی سے افغانستان کی معیشت کو سہارا دینے اور حکومت چلانے کے وعدے وعید ہوئے مگر چندعناصر چونکہ خود مکمل اقتدار کے خواہاں تھے اس لیے کامیابی ناکامی میں بدلنے لگی برادریوں اور گروہوں کی جنگ شدت اختیار کرتی چلی گئی۔
مدارس و کالجوں کے طلباء آگے بڑھے طالبان کے نام سے گروہ قائم کیا اور تھوڑی سی جدوجہد سے افغانستان کے بیشترحصہ پر ملا ںعمر کی قیادت میں قابض ہوگئے گلبدین حکمت یار نے حکمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے معمولی مدافعت کے بعد ہی اپنے حامیوں کو طالبان کے راستے سے ہٹا لیا اور خود روپوشی اختیار کرلی طالبان کی حکومت کو فوری طور پر پاکستان نے تسلیم کر لیاافغانستان امن وسکون کی طرف لوٹ گیااسلامی قوانین کے نفاذ سے ظلم و تشدد کا دور لد گیااچانک یہودیوں کی طرف سے (کہ اب یہ بات واضح ہوچکی ہے)9/11کے واقعہ کے بعد امریکہ سمجھے سوچے بغیر افغانستان پر القاعدہ کی تلاش میں چڑھ دوڑاامریکی انتظامیہ کی ایک کال پرہمارے کمانڈوجنرل لیٹ گئے اور امریکہ کے حوالے پاکستانی ائیر پورٹ افغانستان میںبمباریوں کے لیے حوالے کردیے اپنے کسی بھی ساتھی جرنیل سے مشورہ تک کیے بغیر ڈرون حملوں کی بھی اجازت دے ڈالی اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہی نکلا اور ہم اپنے ہمسایہ مسلمانوں کی نظر میں بھی دشمن ٹھہر گئے جس کا خمیازہ مغربی بارڈرز کو غیر محفوظ بنا کر بھگت رہے ہیں۔اب افغانستان میں کئی سالوں سے پٹھو حکمرانی امریکہ اور اتحادی افواج کی مدد سے قائم ہے مگر آدھے سے زائد علاقوں پر طالبان کا قبضہ ہے سب سے بڑے غیر ایٹمی بم دھماکے بزدلی کے ہی شاخسانے ہیںمگر ایسی اوچھی حرکات سے افغانیوں میں جذبہ شہادت مزید بڑھ رہا ہے۔
طالبان جب چاہتے ہیں فوجی اڈوں پر حملہ آور ہو کر غیر ملکی فوجیوں کو ہلاک کرڈالتے ہیں سہمی ہوئی غیر ملکی افواج قلعہ نما عمارتوںمیں اس طرح محصور ہیں کہ کئی روز تک سورج کی شعاع تک بھی نہیں دیکھ سکتے فوجی جوانوں کی شدید ہلاکتوں والی جنگی پالیسی کے خلاف امریکی عوام مظاہرے کرتے رہتے ہیں امریکہ اسی سال وہاں سے باحفاظت اور پرامن طریقے سے نکل جانا چاہتا ہے جس کے لیے افغانی حکمرانوں نے بھارتی امداد بھی طلب کر رکھی ہے مگر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکن و اتحادی فورسز کے نکلتے ہی نام نہاد حکومت ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہوجائے گی اسی لیے گلبدین حکمت یار کے ساتھ با امر مجبور ی صلح کرکے اسے کابل میں لایا گیا جہاں وہ اپنے ہزاروں افراد کے ساتھ پہنچا تو اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا وہ جسے دشمن نمبر1سمجھتے تھے اسی سے اس کی اپنی شرائط پر افغانستان کے گھمبیر کشیدہ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے لایا گیا حکمت یار جنگی حکمت عملیاں اختیار کرنے اور مذاکرات کے ماہر ہیں انہوں نے کابل پہنچتے ہی اشرف غنی اور عبداللہ عبد اللہ کی موجودگی میں طالبان کو اپنا مسلمان بھائی قرار دیکر ان سے مذاکرات کرنے اور صلح صفائی پر زور دیا ہے اور انھیں بھی سیاسی عمل میں شریک ہو کر حکومت میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے دراصل گلبدین چونکہ موجودہ حکمرانوں ،امریکہ اور طالبان سبھی کے لیے قابل قبول باوقار شخصیت ہیں اسی لیے انہیں میدان میں اتار ا گیا ہے تاکہ اتحادی افواج خیر و عافیت سے واپس چلی جائیں مگر افغانیوںکی 12سو سالہ تاریخ بتاتی ہے کہ غیر ملکی حملہ آوروں میں سے آج تک کوئی بچ کر نہیں گیا۔
ان حالات میں پاکستان بھی کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے مگر ٹرمپ اپنے اسلام دشمن کردار اور موذی مودی سے یاری کے ناطے پاکستان سے امداد لینے کوہی اپنی انا کا مسئلہ بنائے ہوئے ہے پلوں کے نیچے سے خاصہ پانی گزر چکا ہے امریکہ ہوش کے ناخن لے صرف پاکستان ہی وہ طاقت ہے جو اتحادی افواج کو بغیر کسی نقصان کے افغانستان سے نکل جانے میں مدد گار ہو سکتا ہے حکمت یار بھی پاکستان سے ہمدردی کے جذبات بدرجہ اُتم رکھتے ہیں اس لیے امید قوی ہے کہ بھارتی افواج کا اب وہاں سے بوریا بستر گول ہوجائے گا اور پاکستانی امداد سے افغانستان میں امن قائم ہوگا ۔پاکستان کے پاس ابھی بھی ترپ کے پتے موجود ہیں پچھلے دنوں اشرف غنی نے بھارتی شہ پرپاکستان کا دورہ منسوخ کردیاتھا اب پاکستان حکمت یار کو پاکستان کادورہ کرنے کی دعوت دے یہاں ان کا عالم اسلام کے ایک عظیم رہنما کے طور پر شایان شان اور بھرپور استقبال ہو۔
ہمارے حکمران ایسا عمل کرنے سے پہلے پارلیمنٹ ،سینٹ اور تمام سیاسی مذہبی جماعتوںکو اعتماد میں لیں اور پھر پاکستانی عوام کی موجودگی کو بھی استقبال کے موقع پر یقینی بنائیں۔پاکستان اس ڈپلومیسی اور خارجہ حکمت عملی کو اختیار کرنے کے لیے مخلص جری صلح جو ا ور باکردار افراد وزارت خارجہ میں تعینات کرے خدا پاکستان کو ایسی توفیق عطا فرمائیں گلبدین ہی وہ بھاری بھرکم شخصیت ہیںکہ اگر انہوں نے امریکیوں ،افغانی و پاکستانی حکمرانوں سے وعدہ کرلیا تو وہ ضرور اس گھمبیر صورتحال سے پاکستان اور افغانستان کو نکال لے جائیں گے بحر حال فوری مسئلہ تو چمن بارڈر پر کشیدگی کا خاتمہ اور باب دوستی کی بندش کا ہے کہ پاکستان اور افغانستان جیسے مسلمان ہمسایوں کے ذاتی تعلقات اور تجارت کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے اس کے عارضی طور پر کھلنے سے کاروبار شروع نہیں ہوسکا بھارتی بزدل بنیوں کا افغانی فوجیوں کے روپ میں یہ حملہ اسے مہنگا پڑے گاتاہم افغانستان انتظامیہ کو معذرت کرکے آئندہ اچھے تعلقات استوار رکھنا ہی وقت کا تقاضا ہے افغانیوں کو بخوبی علم ہے کہ الکفرملتاًواحدہ کی طرح یہود ی صیہونی سامراجی قوتیں اور ہندو بنیے ان کے قطعاً دوست نہیں ہوسکتے وما علینا الاالبلاغ۔