تحریر : صابر مغل سعودی عرب کی خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ریاض نے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خطرات سے بچنے اور قومی سلامتی کے پیش نظر قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرتے ہوئے زمینی ،ہوائی اور بحری سرحد بند کر دی ہے سعودی عرب کے اس فیصلہ پر بحرین لبنان، متحدہ عرب امارات اور مصر کے بعد یمن نے بھی قطر سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے،بحرین کے مطابق ان کی چھوٹی سی مملکت دوحہ کے ساتھ اپنے رشتے منقطع کر رہا ہے اس کا الزام ہے کہ دوحہ ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کر تے ہوئے ان کی سلامتی کو متزلزل کرنے میں مصروف ہے۔
مصر کی وزارت خارجہ نے کہا۔قطر کے ساتھنہ صرف اپنے سفارتی تعلقات ختم کر رہا ہے بلکہ وہ قطری جہازاور طیاروں کے لئے ائیر پورٹس اور بندر گاہ بھی بند رکھے گااور یہ فیصلہ قومی سلامتی کا ہے،متحدہ عرب امارات نے قطری سفارتکاروں کو ملک چھوڑنے کے لئے 48گھنٹے بلکہ عام شہریوں کو 14دن کا وقت دیا ہے،ابوظہبی نے بھی قطر پر دہشت گرد انتہا پسند اور مسلکی تنظیموں کی حمایت کا الزام لگایا ہے،مجموعی طور پر یمن کے علاوہ باقی ممالک کا یہ مشترکہ اعلان ہے اس بات کا فیصلہ قطر کی جانب سے اس معاہدے پر عمل درآمد میں ناکامی پر کیا گیا جس کے مطابق خلیجی ممالک ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔
خلیجی تعاون کونسل کی تین دہائیوں پر محیط تاریخ میں اس طرح کے فیصلے یا واقعہ کی یہ پہلی مثال اور پیدا ہونے والا سب سے بڑا اختلاف ہے،ان ممالک نے قطر سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے،ان ممالک کا قطرکے درمیان پہلی بار اختلاف 5مارچ 2014میں سامنے آیا جب خلیجی ملکوں کی تنظیم ۔گلف کارپوریشن کونسل جس کا ممبر قطر بھی ہے جبکہ باقی ممالک میں سعودی عرب،بحرین،کویت،متحدہ عرب امارات اور اومان شام ہیں، نے کہا کہ قطر تین ماہ قبل ہونے والے معاہدے پر بھی پورا نہیں اتر سکا اس بیان کے مطابق ان ممالک نے قطر کو یہ سمجھانے کی بڑی کوشش کی کہ وہ2013میں مشترکہ سیکیورٹی کے معاہدے پر عمل کرے مگر وہ اس کی پاسداری میں مکمل ناکام رہا،قطر نے اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا تاہم اس نے کہا کہ وہ ان ممالک سے اپنے سفیر واپس نہیں بلائے گا، قطر پر سب بڑا اعتراض مصر میں ۔اخوان المسلمون۔نامی تنظیم کی حمایت ہے جبکہ اس تنظیم پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پابندی ہے، اس وقت بھی ان ممالک کا قطر سے یہی شکوہ تھا،اسلامی تحریک اخوان المسلمون کی بنیاد السسروریہ کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے سکول ٹیچر حسن احمد بن عبدالرحمان النبانے رکھی اس تحریک کا آغاز 1923میں ہوا مگر 1929اسے باقاعدہ شکل دے دی گئی جس کا مقصد منشاء اسلام کے بنیادی عقائد اور ان کا نفاذ تھا مگر بعد میں یہ جماعت سیاسی شمل اختیار کر گئی،مصر میں یہ تحریک کافی مقبول ہوئی اس اس کی شاخیں دوسرے عرب ممالک تک پھیل گئیں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ تک اس کے اراکین کی تعداد 20لاکھ تک جا پہنچی 1952میںمصر کے فوجی انقلاب کی حامی تھی مگر اس کی طرف سے جنرل نجیب اور جنرل ناصر کی خارجہ پالیسیوں کی مخالفت کرتی رہی 1958اس کے اراکین نے جنرل ناصر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے بعد اس جماعت کو مصر میں غیر قانونی قرار اور اس کی تمام املاک سرکار نے ضبط کر لیں تب اس جماعت کے رہنماء شیخ حسن المذبیحی نے اپنا صدر مقام دمشق تبدیل کر لیا۔
اس جماعت نے عرب قوم پرستی کے خلاف شدید آواز اٹھائی اور اسلامی بھائی چارے کا نعرہ بلند کیاجس کی پاداش میں اس کے ہزاروں کارکنوں کو جیل اور بعض کو پھانسی پر بھی لٹکا دیا گیامگر یہ جماعت عرب سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلتی چلی گئی پاکستان میں اخوان کا سب سے قریبی تعلق جماعت اسلامی سے ہیںدنیا بھر کے مشہور اسلامی رہنمائوں جن کا تعلق القاعدہ ،حماس وغیرہ سے تھا وہ اس کے بہت نزدیک تھے،فوج نے مصر کے منتخب صدر محمد مرسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اسے حزب اختلاف سے بات کرنے کے لئے 48گھنٹوںکا وقت دیامگر مذاکرات ناکام ہونے پر فون نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تب اخوان مسلمین نے ہی فوج کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا فوج نے گولی چلا کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیامصر کی ایک عدالت نے معزول صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کی تمام سرگرمیوں پر پابندیاں لگا دیں اس کے کئی سینئر رہنماقتل وغارت اور تشدد پر اکسانے کے جرم میں قید کر لئے گئے،اس جماعت نے بعد ازاں این جی او کے طور پر خود کو رجسٹرڈ کروایا اب ان کا قانونی سیاسی ونگ ۔فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی۔کے نام منظر عام پر ہے اس بین الاقوامی تنظیم کی رسائی امریکہ ،برطانیہ، روس، قطر،لبنان،جارڈن،فلسطین،اسرائیل،مالدیپ،تاجکستان،سعودی عرب، کویت،صومالیہ،مراکو،موریطانیہ ،لیبیا، الجیریا، سوڈان، تسنانیہ، عراق، ترکی بحرین ایران اور متحدہ عرب تک ہے اس کی سرگرمیوں کی بدولت ہی آج خلیجی ممالک کے درمیان یہ گہرائی دیکھنے میں آ رہی ہے،قطر ایک آزاد ملک ہے مگر سعودی عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ ملک کر چلے، قطر مشرق وسطیٰ کا ایک ایسا آزاد ملک ہے جو تینوں اطراف سے پانی میں گھراہوا ہے،شیخ تمیم بن حمدالثانی اس کے 8ویں حکمران ہیں،قطر میں سب سے زیادہ تارکین وطن کا تعلق انڈیا سے ہے،تقریباً 27لاکھ آبادی اور 11437مربع کلومیٹر پر پھیلے جزیرہ نما شمال مشرقی ساحل پر واقع اس چھوٹی سی ریاست نے قطر نے قطر ائیر ویز،الجزیرہ نیوز چینل ،مشہور فٹ بال کلب بارسلونا کی سپانسرشپ اور2022کے فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کے سبب عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے دوحہ کی بلند و بالا عمارتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ یہ ملک انٹرنیشنل کمپنیوں کو اپنی طرف مائل کر چکا ہے اس ملک کی واحد زمینی سرحد صرف سعودی عرب سے ملتی ہے اس سرحد پر روزانہ اشیائے خوردو نوش سے لدے سینکڑوں ٹرک آر پار جاتے ہیں ایک اندازے کے مطابق قطر میں استعمال ہونے والی خوراک کا 40فیصد اسی راستے سے آتا ہے اب یہ خوراک ہوائی راستے سے آئے گی۔
کئی قطری شہری محض خریداری کے لئے سعودی عرب کا رخ کرتے ہیں،اس وقت قطر میں نئی بندر گاہ ،ایک طبی زون،میٹرومنصوبہ اور2022کے فٹ بال ورلڈ کپ کے حوالے سے آٹھ سٹیڈیمز کی تعمیرات جاری ہیںان کے لئے بیشتر سامان بھی سعودی عرب سے خشکی کے راستے ہی آتا ہے،موجودہ حالات میں یہ تعمیراتی کام شدید بحران کا شکار ہو جائے گا،ایک رپورٹ کے مطابق مصر سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ دس ہزار افرادقطر میں مقیم ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق انجینرنگ ،طب اور قانون کے علاوہ تعمیرات کے شعبہ سے بھی ہے،ابوظہبی کی سرکاری فضائی کمپنی اتحاد ائیر ویز ، دوبئی کی امارات ائیر ویز،بجٹ ائیر لائن،فلائی دوبئی ،بحرین کی گلف ائیر اور مصر کی ایجیٹ ائیر کی جانب سے بھی اعلانات سامنے آئے ہیں کہ نہ وہ اپنی فلائٹ قطر بھیجیں گے اور نہ ہی اسے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دیں گے،اس پابندی کا قطر ائیر ویز جو اس وقت دنیا کی بہترین اور اس خطے کی سب سے بڑی فضائی کمپنی ہے کے آپریشنز پر گہرا اثر پڑے گا جو دوبئی،ابوظہبی،ریاض اور قاہرہ کے لئے روزانہ درجنوں پروازیں چلاتی ہے۔
خلیجی ممالک کے قطرجو دنیا میں ایل این جی کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کے اعلان کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں فوری طور پر ایک فیصد اضافہ ہو چکا ہے، دوبئی، ابوظہبی اور قطر کی سٹاک انڈیکس میں نمایاں کمی ہو گئی، سعودی عرب پریس ایجنسی کے مطابق یمن جنگ میں شامل قطر کے فوجی دستوں کو بہت جلد واپس بھیج دیا جائے گا کیونکہ قطر کو سعودی قیادت میں یمن کے حوثی باغیوں کے خلاف سر گرم عسکری اتحاد سے بھی نکال دیا گیا ہے قطر خطے کے امن و استحکام کو متاثر کرنے کے لئے ۔مسلم برادر ہڈ۔کا نام استعمال کرتا ہے وہ اخوان المسلمون کے علاوہ دولت مشترکہ (داعش)، القاعدہ ، شدت پسند تنظیموں اور فرقہ ورانہ گروپوں کی حمایت کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے ان کے پیغامات اور سکیموں کی تشہیر کرتا ہے ،قطر کے الجزیرہ نیوز نیٹ ٹی وی چینل کی انگریزی اور عربی میں نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں اکثر اس کی خبروں اور تجزیوں میں خلیجی ممالک کے اندرونی مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے،الجزیرہ ٹی وی نے قطری وزارت خارجہ کے حوالے سے کہا ہے کہ سفارتی تعلقات توڑنے کے اقدامات بلاجواز ہیں اور ایسے دعوئوں اور مفروضات کی بنیاد پر کئے گئے جو حقائق پر مبنی نہیں ہیں، امریکی وزیر خاجہ نے اس بات پر زور دیا ہے۔وہ تمام تنازعات باہمی بات چیت کے ذریعے حل کریں،پاکستان کے دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق۔پاکستان قطر سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کرے گا،گذشتہ دنوں سعودی عرب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد پر اسلامی دنیا کی ساری کریم اس کے پروٹوکول میں مصروف نظر آئی یوں لگ رہا تھا امت مسلمہ کے لئے ٹرمپ کے آنا بہت بڑا اعزاز ہے دورہ ٹرمپ کے دوران ایران کو برا بھلا کہا گیا اب خلیجی ممالک تاریخ کے نئے موڑ پر داخل ہو گئے اس صورتحال سے مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔