واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق یورپی یونین کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش قبول کرتے ہوئے واضح کیا ہے اس معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے ’العربیہ‘ کو بتایا کہ واشنگٹن ایران کو جوہری معاہدے پر کسی قسم کی رعایت دینے کے بجائے سفارت کاری کو تیز کرے گا۔
امریکی وزارت خارجہ کی علاقائی ترجمان گیرالڈین گریفتھس نے اپنے تیئں بتایا ہے کہ ’’خطے میں ہمارے حلیفوں کی سلامتی امریکا کے لیے بہت اہم ہے اور ہم خلیج میں اپنے دوستوں سے ہمشیہ بات چیت کے لیے رابطے میں رہتے ہیں۔‘‘
گیرالڈین نے مزید کہا کہ’’ایرانی جوہری پروگرام اور خطے کے امن کو خراب کرنے سے متعلق تہران کے ایجنتوں کی دھمکیوں سے ہمارے حلیفوں کو سلامتی سے متعلق خطرات لاحق ہیں۔ اس لیے امریکا اور ان کے درمیان تعاون کو مزید بڑھانے کے طریقوں سے متعلق تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر خلیجی ملکوں کے ساتھ باقاعدگی کے مشترکہ فوجی مشقیں اور ایکسر سائز کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں حالیہ مشترکہ فوج مشق شاہ فیصل ائر بیس پر ہوئی جس میں امریکا کے 77 سکواڈرن اور شاہی فضائیہ کے طیاروں نے شرکت کی۔ اس مشترکہ فوجی مشق کا مقصد دونوں فورسز کا ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا تھا۔‘‘
انھوں نے مزید کہا کہ خلیجی ممالک میں مختلف محاذوں پر تعاون کی مثالیں موجود ہیں تاکہ مشترکہ مفادات کو ملنے والی دھمکیوں کا خلیجی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کیا جائے۔‘‘
تاہم گریفتھس نے ایران کو سزا سے متعلق پالیسی پر روشنی ڈالتے ہوئے ’’العربیہ‘‘ کو بتایا ہر آپسن کھلا ہے اور امریکا کے پاس مخلتف مسائل کے حوالے سے مختلف طریقے موجود ہیں۔ امریکا دہشت گرد سرگرمیوں یا حزط اللہ جیسی غیر قانونی تنظیم پر پابندی یا سزا دینے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔‘‘
ایران کے جوہری پروگرام کے سفارتی حال سے متعلق امریکی سرگرمی کی بابت گفتگو کرتے ہوئے دفتر خارجہ کی علاقائی نمائندہ نے بتایا کہ ’’امریکی صدر جو بائیڈن اور وزیر خارجہ انٹینونی بلنکن نے دو ٹوک الفاظ میں واضح کیا تھا کہ ایران اگر معاہدے سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے تو امریکا معاہدہ میں واپس آ سکتا ہے۔‘‘
انھوں نے مزید کہا ’’بائیڈن انتظامیہ جوہری معاملے سے ہٹ کر ایک جامع معاہدے تک پہنچنے کی کوشش کرے گی تاکہ باعث تشویش تمام امور کا حل تلاش کیا جا سکے۔‘‘
اسرائیل اور عرب ملکوں کے درمیان تعلقات میں نارملائزیشن سے متعلق گریفتھس نے کہا کہ ’’ان کا ملک علاقائی امن کے فروغ سے متعلق معاہدوں کا خیر مقدم کرتا ہے۔‘‘
انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدے سفر، بزنس اور تجارت سے متعلق نئے امکانات روشن کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ان سے دونوں علاقوں میں تعمیر اور قیام امن کے استحکام میں مدد ملے گی۔ ہم دوسرے عرب ملکوں کو بھی اسرائیل کے ساتھ ایسے ہی امن معاہدے کرنے پر آمادہ کریں گے۔ امید ہے کہ یہ امن معاہدے بالآخر اسرائیل فلسطین تنازع کے حتمی حل کی جانب اہم سنگ میل ثابت ہوں۔