تحریر: حبیب اللہ سلفی لاہور کے گلشن اقبال پارک میں ہونیوالے ہولناک دھماکہ کے بعد پورے ملک کی فضا گذشتہ روز بھی سوگوار رہی ۔مختلف شہروں و علاقوں میں ایک ایک خاندان کے کئی کئی بچوں اور ان کے والدین کو قبروں میں اتارا گیا تو قیامت خیز مناظر دکھائی دیے۔ہر طرف آہ و بکا کی کیفیت تھی۔ لوگ اپنے جگر کے ٹکڑوں اور پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے اتارتے رہے۔ ابھی تک کئی خاندان ایسے ہیں جن کے عزیزو اقارب کی نشاندہی نہیں ہو پائی ہے۔
دھماکہ کے بعد کا منظر اتنا خوفناک ہے کہ اسے لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ اتوار کو ایسٹر کی وجہ سے مسلمانوں کی طرح عیسائیوں کے خاندان بھی بڑی تعداد میں موجود تھے جس کی وجہ سے عیسائی فیملیوں کے بہت سے بچے اور عورتیں بھی اس درندگی کا نشانہ بنے۔ ایک کالعدم تنظیم کی طرف سے ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ ان کا نشانہ عیسائی تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس دھماکہ میں اپنی زندگیاں کھو دینے والوں کی کثیرتعداد مسلمانوں کی تھی اگر وہاں صرف عیسائی ہی ہوتے تو بھی اسلام کسی طور ایسے دہشت گردانہ عمل کی اجازت نہیں دیتا۔
اسلام اقلیتوں کے حقوق کی سب سے زیادہ حفاظت کرتا ہے اور پاکستان اقلیتوں کیلئے ہمیشہ محفوظ ملک رہا ہے۔ اگر کوئی اسلام یا خلافت کا نام لیکر ایسی مذموم کارروائیاں کرتا ہے تونہتے و بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنانے کی اسلامی شریعت کسی طور اجازت نہیں دیتی اور نہ ہی اسلامی خلافت بچوں اور عورتوں کے قتل کی محتاج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بھی ایسی کارروائیاں کر رہے ہیں وہ دشمن کے ہاتھوں میں کھیل رہے اور ان کے ہی ایجنڈوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے کہ جب پاکستانی خفیہ اداروں کی طرف سے کامیاب آپریشن کے نتیجہ میں ہندوستانی خفیہ ایجنسی را کے ایک حاضر سروس اعلیٰ افسر کل بھوشن یادو کی گرفتاری کا معاملہ پوری دنیا میں زیر بحث تھا اور ہر روز نئے سے نئے انکشافات منظر عام پر آرہے تھے کہ کس طرح اس کی نگرانی میں بلوچستان، سندھ و دیگر علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کی گئیں اور علیحدگی کی تحریکوں وفرقہ وارانہ قتل و غارت گری کو پروان چڑھایا گیا۔
Bhushan Yadav
را کے افسر سے ملنے والی معلومات کے بعد مزید کئی دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا اور یہ باتیں منظر عام پر آئیں کہ سینکڑوں دہشت گرد اس وقت پاکستان میں موجود ہیں جو مسلمان بن کر دہشت گردی کی وارداتیں، مذہبی فسادات پھیلانے، لوگوں کو پاک فوج کیخلاف اکسانے اور ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہیں۔کل بھوشن یادو کی نشاندہی پر اس کے مزید کئی ساتھوں کو گرفتارکیا گیا ۔ پوری دنیا میں ہندوستان کی سیاہ کاریاں سامنے آرہی تھیں کہ اچانک ایک تفریحی مقام پر خوفناک دھماکہ کر کے خون کی ندیاں بہا دی گئیں۔یہ سب کچھ گہری پلاننگ کا حصہ ہے۔ کل بھوشن کی گرفتاری اور پاکستان میں تخریب کاری و دہشت گردی کے حقائق سامنے آنے کے ساتھ ہی عسکری ماہرین کی جانب سے اس خدشہ کا اظہا رکیا جارہا تھا کہ بھارت کی جانب سے انٹیلی جنس کی تاریخ کی اس بہت بڑی کامیابی اور اپنی دہشت گردی سے دنیا کی توجہ ہٹانے کیلئے دہشت گردی کی کوئی نئی واردات کی جاسکتی ہے اور پھر ایسا ہی ہوا۔
اگرچہ مودی حکومت بہت معصوم بن رہی ہے تاہم تحقیقاتی اداروںکی رپورٹوں نے ساری حقیقت کھول کر رکھ دی ہے کہ واہگہ بارڈر اور یوحنا آباد کی طرح گلشن اقبال پارک دھماکہ میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ہی ہاتھ ہے۔ فرانزک ماہرین کے مطابق ہینڈ گرنیڈ فائر پن نکالنے کے بعد تین سے چار سیکنڈ میں پھٹتا ہے اس لئے اسے پھینکتے وقت یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ زمین سے کم ازکم تین فٹ کی بلندی پر پھٹے تاکہ زیادہ جانی نقصان ہو۔ اگر اسے زمین پر پھینک دیا جائے تو اس سے زمین پر گڑھا بنتا ہے اور جانی نقصان انتہائی کم رہ جاتا ہے۔
پارک میں جھولے کے قریب زبردست رش والی جگہ پر حملہ کرتے وقت بھی اسی فارمولے پر عمل کیا گیا اور ایسے بیگ کا استعمال کیا گیا جس میں تیس کلو یا اس سے زیادہ وزن لیجایا جاسکے۔ خودکش جیکٹ میں چھ سے آٹھ کلوتک بارود اوربال بیرنگ رکھے جاسکتے ہیں جس سے سولہ سے بیس افراد کو جانی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے جبکہ مذکورہ حادثہ میں ستر سے زائد افراد کی موت واقع ہوئی اور زمین پر گڑھا بھی نہیں پڑا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دھماکہ کرنے والا بارود کی زیادہ مقدار ساتھ لایا اور اسے زمین سے چند فٹ کی بلندی پر رکھا جس کی وجہ سے زیادہ اموات ہوئیں۔
دھماکہ کیلئے جو طریقے اختیار کئے گئے ہیں ان ساری چیزوں نے تمام حقیقت کھول کر رکھ دی ہے اور یہ بات پوری طرح عیاں ہو چکی ہے کہ پشاور سے لیکر کراچی تک دہشت گردی کی وارداتوںمیں بھارت ملوث ہے اور اسے اتحادی ممالک کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جو افغانستان میں شکست کا بدلہ لینے کیلئے انڈیا کو استعمال کر رہے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ کل بھوشن یادو کی گرفتاری سے لیکر گلشن اقبال بم دھماکہ تک را کی دہشت گردی واضح ہونے کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف اور دیگر حکومتی ذمہ داران کھل کر انڈیا کیخلاف بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ سوموار کو انہوںنے قوم سے خطاب بھی کیا۔ اس میں انہوںنے یہ تو کہاکہ خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیا جائے گا لیکن خون بہا کون رہا ہے؟ اس کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا گیا۔
Indian Agency RAW
مسلم لیگ نواز حکومت شرو ع دن سے ہندوستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ یہ ساڑھیاں اور آموں کی پیٹیاں بھیجتے ہیں لیکن وہاں سے کنٹرول لائن پر فائرنگ سے نہتے شہریوں کا خون بہا کر اور گلشن اقبال پارک جیسے دھماکے کر کے دوستی کا جواب دیا جاتا ہے۔ ایرانی صد رکی پاکستان آمدسے پہلے کل بھوشن کی گرفتاری ہوئی اور اس امر کا انکشاف ہوا کہ را کا مذکورہ افسر بلوچستان آنے سے قبل ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں تعینات رہا ۔ اس کا ایک ساتھی راکیش عرف رضوان اس وقت بھی وہیں موجود ہے اور را کے نیٹ ورک کو آپریٹ کر رہا ہے۔اس بات کا بھی پہلی بار عقدہ کھلا کہ کل بھوشن ایران کے جعلی پاسپورٹ پر پاکستان آیا’ اس نے ایرانی ساحلی شہر چاہ بہار میں جیولری کی دوکان کھول رکھی تھی اور وہیں سے کروڑوں روپے خرچ کر کے پاکستان میں تخریب کاری کیلئے خفیہ آپریشن چلاتا رہا۔ بھارت نے چونکہ ایران سے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ کر رکھا ہے اس لئے اس مقام کو پاکستان کیخلاف تخریبی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنا یقینی امر ہے۔
ان حالات میں چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات میں پاکستان کیخلا ف دہشت گردی کیلئے ایرانی سرزمین کے استعمال کا معاملہ اٹھاتے اور انہیں کہتے کہ برادر ملک ہوتے ہوئے وہ انڈیا کی دہشت گردی کے اس سلسلہ کو کنٹرول کریں لیکن سول حکومت نے خاموشی اختیار کی جس پر آرمی چیف کو خود ایرانی صدر سے اس سلسلہ میں بات کرنا پڑی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ ایران سے تعلقات ختم کر لیں مقصدصرف انہیں توجہ اور احساس دلانا ہے کہ کس طرح بھارتی خفیہ ایجنسی را کے لوگ ایرانی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنانے، ملک میں لسانی، گروہی اور فرقہ وارانہ فسادات پروان چڑھانے کی سازشیں کر رہے ہیں۔بہر حال آرمی چیف کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی اپنے ایرانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران یہ مسئلہ اٹھایااور را کی خفیہ سرگرمیوں کے حوالہ سے ایران کو لیگل ریفرنس بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ انتہائی ضروری ہے۔
ہمارے لئے پاکستان کا دفاع سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔بہرحال حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ را کی دہشت گردی کو اقوام متحدہ سمیت تمام بین الاقوامی فورمز پر بے نقاب کرے۔ چین، سعودی عرب اور ترکی سمیت سب نے اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔ سعودی سفیر عبداللہ مرزوق الزھرانی نے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار سے ملاقات کر کے اور خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے صدر پاکستان کے نام پیغام بھیج کر دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ آپ مسلم ممالک کو ساتھ ملا کر ہندوستانی دہشت گردی کا مسئلہ اٹھائیں اور اس حوالہ سے کسی قسم کی مصلحت پسندی سے کا م نہ لیا جائے۔ دشمن کو دوست سمجھنا سیاست نہیں جہالت ہے۔ا س وقت حکمرانوں کا امتحان ہے کہ وہ کسی طرح بھارت سرکار کا دہشت گردانہ چہرہ دنیا کے سامنے واضح کرتے ہیں؟۔کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد یہ بہترین موقع ہے اسے انڈیا کی دوستی کی بھینٹ نہیں چڑھانا چاہیے۔