تحریر : صادق رضا مصباحی گوری لنکیش کے قتل نے کئی سوالات جنم دیے ہیں۔ آزادیِ اظہارِ رائے اور آزادیِ عمل کے تناظر میں اسلام کے خلاف اپنی دو دو گز کی زبانیں دراز کرنے والوں کے چہرے پر یہ قتل ایک زبردست طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ معلون سلمان رشدی اورملعونہ تسلیمہ نسرین جیسے ناہنجار افراد کے خلاف ہم جب بھی آوازبلندکرتے ہیں تو ہمیں آزادیِ اظہارِ خیال کاطعنہ ماراجاتاہے۔ہم سے کہا جاتاہے کہ ہرشخص کواپنی اپنی رائے پیش کرنے کاحق ہے اس لیے شورمت مچائیے مگرجب یہی اظہارِ آزادی رائے گوری لنکیش جیسی بہادرخواتین تک پہنچتاہے تودہشت گردانہیں موت کے منہ میں پہنچادیتے ہیں اورنام نہاد لوگوں کی دودوگزکی زبانیں خاموش ہوجاتی ہیں۔ سیکولرلوگوں کامعاملہ بڑاعجیب ہے ،ان کی شخصیت تضادات سے بھرپورہوتی ہے ،مذہب کے معاملے میں ان کا رویہ کچھ اورہوتاہے اوردیگرمعاملات میں کچھ ۔جولوگ سلمان رشدی اورتسلیمہ نسرین کے معاملے میں ہمیں خاموش رہنے کی تلقین کرتے تھے وہ گوری لنکیش کے معاملے میں خاموش کیوں ہیں۔اب کہاں ہیں سیکولرلوگ ؟ان کی زبانوں پرمہرسکوت کیوں ثبت ہے؟کیابی جےپی کے خوف نے ان کی زبانوں پرتالالگادیاہے ؟
ویسے اگرتاریخ کاجائزہ لیاجائے توآزادی اظہاررائے کو زبردستی بندکرانے کی مثالیں بہت پہلے سے چلی آرہی ہیں۔وقت کاحکمراں جب اندرسے کمزورہوتاہے تووہ ایسا ہی ماحول پیداکرتاہے تاکہ دوسرے لوگ متنبہ ہوجائیں اور اس کے خلاف کچھ کہنے کی جسارت نہ کرسکیں ۔گوری لنکیش کے قتل کے ذریعے ملک بھرکے جراء ت مند مصنفوں اورصحافیوں کویہی پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے قلم کوگروی رکھ دو اوراپنی زبانیں فروخت کردوورنہ تمہارابھی حشریہی کیاجائے گا۔بی جے پی حکومت کے تین سالہ دورکاجائزہ لیاجائے توسب سے زیادہ جس چیزکوانجام دیاگیاہے وہ بس خوف و دہشت کافروغ ہے ۔بی جے پی نے اپنے ہرفیصلے اورحکم میں زیادہ سے زیادہ یہ کوشش کی ہے کہ شہریوں بالخصوص مسلمانوں کوخوف میں مبتلاکیاجائے ۔یوں یہ کہاجاسکتاہے کہ بی جے پی کی حکومت دراصل خوف کی حکومت ہے ،دہشت کی حکومت ہے ۔سوال یہ ہے کہ حکومتوں کوشہریوں کے دلوں میں خوف ودہشت پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟
حکومتیں جب اپنے حقیقی نصب العین یعنی تعمیروترقی سے ہٹ جاتی ہیں اورسطحیت کی طرف چلی جاتی ہیں تووہ ایسے ہی خوف کی نفسیات پیدا کرتی ہیں تاکہ شہری اس سے بازپرس کی ہمت نہ کرسکیں اوراس کے دورِ حکومت پرسوال نہ اٹھاسکیں۔حکومتوں کی یہ پالیسی آج کی نہیں بلکہ پہلے سے چلی آرہی ہے مگر ہمارے معززوزیراعظم نریندرمودی صاحب کے دور اقتدار میں اپنے عروج پرجاپہنچی ہے ۔حالاں کہ حکومتیں بھی اچھی طرح جانتی ہیں کہ اس طرح کی آوازیں کبھی بندنہیں ہوسکتیں ،یہ وقتی طورپرخاموش توہوجاتی ہیں مگرانہیں ہمیشہ کے لیے قتل نہیں کیا جا سکتامگرچوںکہ حکمرانوں کامسئلہ یہ ہوتاہے کہ وہ مستقل ، پائیدار اورٹھوس نتائج کی طرف نہیں جاتے بلکہ وہ سرسری اورجلدی حاصل ہونے والے نتائج کی فکرکرتے ہیں اس لیے وہ وقتاًفوقتاایسے حالات پیداکرتے رہتے ہیں تاکہ کچھ وقت کےلیے ہی سہی شہریوں کی زبانیں خاموش کرائی جاتی رہیں اوران کی حکومت کاپہیہ بغیرکسی مخالفت ومزاحمت کے رواں دواں رہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیاکی تخلیق کچھ اس طرح سے کی ہے کہ یہاں اگرچہ شریروں کی اکثریت ہوتی ہے مگر شریفوں کی بھی کمی نہیں ہوتی ۔شریروشریف ہی کے درمیان مزاحمت کانام ہے دنیا۔یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اورہمیشہ ہوتارہے گا۔اس لیے گوری لنکیش کے الم ناک قتل کے حادثے پرزیادہ افسو س کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شرپسندوں کے منصوبوں کوکامیاب نہ ہونے دیا جائے۔