تحریر: مجیداحمد جائی ۔ ملتان شریف برصغیر کی موسیقی کی تاریخ مرتب کرنے والے شاید کئی مقبول گلوکاروں کو نظر انداز کر دیں ،مگر ملکہ ترنم کا خطاب پانے والی میڈم نورجہاں کو نظر انداز کرنا کسی بھی مورخ کے لئے ممکن نہیں ۔موسیقی کی اُس تاریخ کو غیر مستند تصور کیا جائے گا جس میں اس عظیم فن کارہ کا نام نہ ہو۔کچھ ناقدین کے مطابق پاکستانی فلمی صنعت کے آدھے گیت تو میڈم نورجہاں نے گائے ہیں۔ہفت زبان گلوکارہ کہلانے والی میڈم نورجہاں نے دس ہزار کے قریب گانے گائے۔فلمی گائیکی میںایک زمانے میں ان کا سکہ چلتا تھا۔
میڈم نورجہاں جن کا اصل نام ”اللہ وسائی”ہے،21ستمبر 1928ء کو قصور کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں ،موسیقی جن کا اوڑھنا بچھونا تھی۔اُنہوں نے استاد بابا غلام محمد سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔ٹھمری،دھروپد،خیال اور دیگر اصناف میں اوائل عمری میں عبور حاصل کر لیا۔اُسی زمانے میں اسٹیج پر اداکاری اور گلوکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔پھر وہ اہل خانہ کے ساتھ کلکتہ چلی گئیں۔
1935 ء میں بننے والی فلم”پنجاب میل”میں وہ بطور اداکارہ اور گلوکارہ نظر آئیں۔ کلکتہ میں ان کی ملاقات معروف فن کارہ مختاربیگم سے ہوئی۔اُنہوں نے ہی ان کا نام نورجہاں تجویز کیا اور اپنے شوہر آغا حشر کاشمیری سے سفارش کی کہ وہ نورجہاں کو اپنے تھیڑ گروپ کا حصہ بنالیں۔مختار بیگم کی سرپرستی میں ان کا فن نکھر کر سامنے آیا۔
Madame Nur Jehan
لاہور لوٹ کر اُنہوں نے اپنی گائیکی پر توجہ مرکوز کی۔ 1942ء میں پران کے مدمقابل فلم”خاندان”میں پہلی بارمرکزی کردار نبھایا ۔پھر انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا ۔بمبئی میں ان کی ملاقات اداکار اورہدایت کارسید شوکت حسین رضوی سے ہوئی۔ان کے درمیان جلدانسیت درآئی۔خاندان کی مخالفت کے باوجود اُنہوں نے شادی کرلی۔
ان کی آواز میں ریکارڈ ہونے والی قوالی”آہیں نہ بھریں نہ شکوہ کیا”بہت مقبول ہوئی۔1932ء سے 1947ء تک اُنہوں نے 127 گانے گائے اور 69 فلموں میں کام کیا۔”مرزا صاحبان”ان کی برصغیر کی تقسیم سے قبل ریلیز ہونے والی آخری فلم تھی۔آنے والوں برسوں میں انہوں نے”چن وے،دوپٹا،گلنار،سمیت کئی یادگار فلمیں کیں۔”مجھ سے پہلی سی محبت،میرے محبوب نہ مانگ”جیسے لازوال گیت گائے۔پہلی شادی کامیاب نہ رہی اور پہلے شوہر سے طلاق کے بعداُنہوں نے اداکار اعجاز درانی سے شادی کرلی۔مگر یہ شادی بھی اختلافات کا شکار رہی اور شوہر کے دبائو کی وجہ سے اُنہوں نے اداکاری چھوڑ دی تھی۔
1961ء میں آخری فلم”مرزا غالب ”میں دکھائی دیں۔اس کے بعد اداکاری میں جلوہ گِر نہ ہوئیں۔البتہ گائیکی کا سلسلہ ایک عرصے تک جاری رکھا۔ ستمبر1965ء میں جب مکار دشمن بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور اپنی افواج پاک دھرتی میں داخل کر دی،لیکن ہمارے بہادر نوجوانوں نے ان کے ناپاک ارادے خاک میں ملادئے اور ناکوں چنے چبانے پر مجبور کر دیا اور بھارت روتا،بسورتا اقوام متحدہ کی طرف بھاگاتھا،میدم نورجہاں ہی تھی جن کے گیتوں نے پاک افواج کے نوجوانوں کے خون گرما دیئے تھے۔
Nur Jehan
ان کے لہو کی گردش تیز ہوئی اور وہ دشمن کو مولی گاجر کی طر ح کاٹتے چلے گئے ۔میڈم نورجہاں باڈر پر جا کر اپنی آواز کے جادو جگاتی رہی ،ان کے گیت، بہادری، جوان مردی کا جذبہ پیدا کرتے تھے۔ آج بھی ان کے گیت اُسی شوق اور ولولے سے سنے جاتے ہیں،میڈم نورجہاں نے دشمن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باڈر پرجا کر اپنی آواز کا جادو جگاتی رہی اور پاکستان یہ جنگ جیت گیا،دشمن کو مات ہوئی ۔پاکستان سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔وہ پاک دھرتی پر اپنا تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ رکھتی تھیں۔مگر یہ بیماریاں ۔۔۔۔۔؟
1986ء میں بیماری کے حملے نے اُنہیں تھوڑا محدود کر دیا ۔۔۔2000ء انہیں ہارٹ اٹیک ہوا،اُسی برس 23 دسمبر ماہ صیام کی بابرکت رات کو یہ عظیم فن کارہ جہان فانی سے کوچ کر گئی۔میڈم نورجہاں آج ہمارے درمیان تو نہیں ہیں مگر ان کی آواز کی بازگشت آج بھی سنائی ضرور دیتی ہے۔ آپ کو ٹرکوں،بسوں کے پیچھے یہ الفاظ اکثر لکھے ہوئے نظر آتے ہوں گے”گائے گی دُنیا گیت میرے”۔ان الفاظوں پر نظر پڑتے ہی میڈم نورجہاں گاتی نظر آتی ہیں،ان کی آواز کا جادو گانوں میں رس گھولتا محسو س ہوتا ہے ،روح سرشار ہوتی ہے۔میڈم نورجہاں کا جب جب بھی ذکر ہو گا،سنہری الفاظ میں ہوگا۔
ان کے فن کو رہتی دُنیا تک یا د رکھا جائے گا۔میڈم نورجہاں کا نام آتے ہی بے اختیار لبوں پردعا آتی در آتی کہ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ راحت و سکون عطا فرمائے،ان کے درجات بلند فرمائے ،جنت الفردوس میں اعلی سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔میڈم نورجہاں کو ہم سے بچھڑے پندرہ سال ہو گئے ہیں مگر ان کے گیت آج بھی اُسی طرح لبوں پر مچلتے ہیں۔ان کی ولادت کے دن اور برسی کے موقع پر ریڈیو ،ٹی ۔وی پر ان کی آواز میں گیت چلائے جاتے ہیں اور سیمنار منعقد ہوتے ہیں،ان کو فن کو سراہا جاتا ہے۔ایسی فنکارہ،ایسی آوازصدیوں میں بھی شاید پاکستان کو ملے۔۔۔