تحریر : سید توقیر زیدی گوادر سے کاشغر اقتصادی راہداری اس حدتک مکمل ہو گئی کہ چین سے تجارتی مال کا قافلہ بندرگاہ پر بحفاظت پہنچا اور وہاں سے بحری جہاز یہ مال لے کر مشرق وسطیٰ کے متعلقہ ممالک کی طرف روانہ ہو گیا، اس مقصد کے لئے گوادر کی بندرگاہ پر ایک بڑی تقریب ہوئی جس میں اس راہداری کے حوالے سے مستقبل کی خوش آئند نوید بھی سنائی گئی، اس سے پاکستانی خوش ہوئے ہیں، اس تقریب کے لئے تاریخ کا تعین پہلے ہو چکا تھا اور انتظامات بھی مکمل تھے، اس لئے اسے وقت پر ہونا ہی تھا، تاہم دہشت گردوں نے مزار شاہ نورانی پر خود کش حملہ کر کے عقیدت مندوں کے پرخچے اڑا دیئے، 52 افراد شہید اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ اس غم نے کسی حد تک گوادر کے فنکشنل ہونے کی خوشی کو گہنا دیا کہ یہ غم کی واردات ہے، اگرچہ بظاہر یہ سی پیک راہداری کے راستے سے کہیں ہٹ کر ہوئی، بہر حال دہشت گردی سے نقصان تو ہوا اور ان دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر یاد دلایا ہے کہ ابھی وہ موجود ہیں اور ختم نہیں ہوئے، جبکہ ہماری حکومت اور اداروں پر بھی واضح کیا کہ ان کو آرام نہیں کرنا، بلکہ دہشت گردی کے خلاف مزید مربوط کارروائی کرنا ہو گی۔
ہمیں اقتصادی راہداری کے حوالے سے ایک بات کہنا ہے کہ من میں آئی دل میں رکھنا نہیں چاہیے، وہ یوں کہ ہمارے خیبر پختونخوا والے بھائی کافی دنوں سے اعتراض اور تنقید کررہے ہیں اور اقتصادی راہداری میں حصہ نہ ملنے کا شکوہ کررہے ہیں، اس سے تاثر یہ ملتا ہے کہ شاید اقتصادی راہداری کاروٹ خیبر پختونخواسے ہٹ کر بنایا گیا یا بنایا جارہا ہے، حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اب جو قافلہ کاشغر سے گوادر پہنچا، اس کے لئے جو روٹ بنایا گیا، وہ براہ راست چین اور پاکستان کی سرحدوں کے اندر سے گزرتا اورخود خیبر پختونخوا کی حدود سے بھی ہو کر آتا ہے، جیسے شاہراہ ریشم کا روٹ ہے، اب یہ افغانستان کے کسی حصے سے تو نہیں گزارا جاسکتا، جہاں حالات پاکستان کے موافق نہیں ہیں، اگرچہ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بھی تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتا ہے اور افغانستان کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ پیش کش اچھی ہونے کے ساتھ افغانستان میں امن کی مرہون منت ہے کہ وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کے لئے بہتر روٹ براستہ افغانستان ہے، اب اگر افغانستان بھی مستفید ہونا چاہے تو اسے پاکستان کے حوالے سے اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہوگی اور تجارتی مراعات کے لئے وسطیٰ ایشیائی ریاستوں کو سہولتیں دینا ہوں گی۔
China-Pakistan-Economic Corridor
معروضی حالات کی اس صورت کو خیبر پختونخوا کی سیاسی جماعتوں اور حکومت کو سمجھانا ہوگا اور وفاقی حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ کی میزپر آکر تحفظات دور کرنا ہوں گے، گزشتہ دنوں وفاقی وزیر احسن اقبال کی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے تفصیلی ملاقات مفید رہی،وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ اور آئی،جی پنجاب وغیرہ کے خلاف ایف۔آئی۔آر کا ارادہ ملتوی کردیا اور خیبر پختونخوا اقتصادی راہداری کے حوالے سے رٹ دائر کرنے کا فیصلہ بھی واپس لینے پر آمادہ ہیں۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے تحفظات دور کرنے کا یقین دلایا ہے خیبر پختونخواحکومت کے وزیر اعلیٰ کا مطالبہ ہے کہ ان کے صوبے کے لئے دو صنعتی زون ،اقتصادی راہداری کے منصوبے میں شامل کئے جائیں ،یہ ایک اچھی کوشش ہے۔
معروضی حالات میں ملک کے اندر یہ سوچ فزوں ترہے کہ یہاں امن اور استحکام ہونا چاہیے، اس حوالے سے تحریک انصاف کے فیصلوں کو اجتماعی پذیرائی نہیں مل پارہی اور عوامی سطح پر نکتہ چینی بھی ہو رہی ہے، اب نیا فیصلہ جو ہوا کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ جاری رہے گا ،اس میں ترک صدر اردوان کے لئے بلائے گئے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ بھی شامل کرلیا گیا ہے ،بقول عمران خان وہ محمد نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں مانتے، حالانکہ ان کے سپیکر کو اوراب وزیر اعظم کو بھی نہ ماننے سے کیا فرق پڑا ،وہ تو منتخب ہیں اور جب تک آئینی طور پر ان کا مواخذہ ،یعنی عدم اعتماد نہ ہوا وہ سپیکر اور وزیر اعظم ہیں، عمران خان کے اس فیصلے کو بھی عوامی تائید حاصل نہیں۔ یہ خبر بھی موجود ہے کہ پہلے کی طرح کور کمیٹی کے اراکین نے مشترکہ اجلاس میں ترک صدر کی وجہ سے شرکت کی حمایت کی تھی،جو عمران خان نے ویٹو کر دی اور فیصلہ بائیکاٹ کے حق میں کر دیا۔
شاہ محمود قریشی کو دلائل لانا پڑے جو کچھ جاذب نظر نہیں، ان کا یہ کہنا اپنی جگہ کہ بائیکاٹ کا تعلق ترک صدر کے خطاب سے نہیں،لیکن اس خطاب والے سیشن کا بائیکاٹ کیا تو مطلب یہی ہوگا ،کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا، یہ دلیل مناسب نہیں ہے، اس سلسلے میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ حکومت دھرنا ناکام ہونے کے بعد کچھ زیادہ پر اعتماد ہو گئی ہے، جبکہ وزیر اعظم اب سابقہ روایات اور رویے کی طرح من میں آئی کرتے چلے جاتے ہیں، ان کو کسی کی پرواہ نہیں ،حالانکہ ایسابالکل نہیں کہ گوادر میں مولانا فضل الرحمان اور اچکزئی بھی موجود تھے، کیا مسلم لیگ (ن) کی قیادت باقی پارلیمانی گروپوں اور سیاسی جماعتوں سے بھی اسی رویے کی توقع رکھتی ہے؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے ،یہ سوچ بہتر نہیں، مفاہمت کی سب کو ضرورت ہے۔