تحریر : سید کمال حسین شاہ گوادر اور اس کے گرد و نواح کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہ علاقہ وادی کلانچ اور وادی دشت بھی کہلاتا ہے اس کا زیادہ رقبہ بے آباد اور بنجر ہے۔ یہ مکران کی تاریخ میں ہمیشہ سے ہی خاص اہمیت کا حا مل رہا ہے۔ تاریخ کی ایک روایت کے مطابق حضرت دا?د علیہ السلام کے زمانے میں جب قحط پڑا تو وادی سینا سے بہت سے افراد کوچ کر کے وادی مکران کے علاقے میں آگئے …اہم سمندری راستے پر واقع ہونے کی وجہ سے سکندر اعظم نے اس علاقے کو فتح کر کے اپنے ایک جنرل Seleukos Nikator کو یہاں کا حکمران بنا دیا جو303قبل مسیح تک حکومت کرتا رہا ۔303ق م میں برصغیر کے حکمران چندر گپت نے حملہ کر کے یونانی جنرل سے یہ علاقہ چھین لیا اور اپنی حکومت میں شامل کر لیا مگر 100سال بعد 202ق م میں پھر یہاں کی حکمرانی ایران کے بادشاہوں کے پاس چلی گئی۔ 711 عیسوی میں مسلمان جنرل محمد بن قاسم نے یہ علاقہ فتح کر لیا۔ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کے زمانے میں یہ علاقہ مغلیہ سلطنت کا حصہ رہا جب کہ 16ویں صدی میں پرتگیزیوں نے مکران کے متعدد علاقوں جن میں یہ علاقہ بھی شامل تھا پر قبضہ کر لیا۔ 1581ئ میں پرتگیزیوں نے اس علاقے کے دو اہم تجارتی شہروں پسنی اور گوادر کو جلا دیا ۔1775ئکے قریب مسقط کے حکمرانوں نے وسط ایشیاء کے ممالک سے تجارت کے لیے اس علاقے کو مستعار لے لیا اور گوادر کی بندر گاہ کو عرب علاقوں سے وسط ایشیائکے ممالک کی تجارت کے لیے استعمال کرنے لگے جن میں زیادہ تر ہاتھی دانت اور اس کی مصنوعات ، گرم مصالحے ، اونی لباس اور افریقی غلاموں کی تجارت ہوتی۔1958ئمیں مسقط نے 10 ملین ڈالرز کے عوض گوادر اور اس کے گرد ونواح کا علاقہ واپس پاکستان کو دے دیا جس پر پاکستان کی حکومت نے گوادر کو تحصیل کو درجہ دے کر اسے ضلع مکران میں شامل کر دیا۔ یکم جولائی 1970کو جب ون یونٹ کا خاتمہ ہوا اور بلوچستان بھی ایک صوبے کی حیثیت اختیار کر گیا تو مکران کو بھی ضلعی اختیار مل گئے ۔1977میں مکران کو ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا اور یکم جولائی1977کو تربت، پنجگور اور گوادر تین ضلعے بنا دیے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں ہی گوادر میں جدید بندرگاہ بنانے کا منصوبہ بن گیا تھا مگرفنڈ کی کمی اور دیگر ملکی اور بین الااقوامی معاملات اور سیاسی مصلحتوں کی وجہ اس کی تعمیر کاکام شروع نہ ہو سکا۔ پاکستان اور چین نے مل کر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں کے مطابق بندرگاہ بنانی شروع کر دی۔چینیوں کے اس شہر میں داخلے کے ساتھ ہی شہر کی اہمیت یکدم کئی گنا بڑھ گئی اور مستقبل کا بین الاقوامی شہر اور فری ٹیکس زون کا اعلان ہوتے ہی ملک بھرکے سرمایہ دار اور دولت مند کھربوں روپے لیکر اس شہر میں پہنچ گئے اور زمینوں کو خرید نے کے لیے مقامی شہریوں کو ان کے منہ مانگے روپے دینے شروع کر دیے جس کی وجہ سے دو سو روپے کرایہ کی دکان تیس ہزار روپے تک ہو گئی اور تیس ہزار روپے فی ایکڑ زمین کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے تک پہنچ گئی چنانچہ گوادر کا عام شہری جو چند ایکڑ کا مالک تھا دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی اورارب پتی بن گیاچنانچہ اب شہر میں بے شمار چمکتی دمکتی اور قیمتی گاڑیوں کی بھرمار ہو گئی ہے جس کی وجہ سے چھوٹی اور تنگ سڑکیں مزید سکڑ گئیں۔
شہر کے تقریباً تمام بے روز گار افراد نے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کھول لیے جبکہ دوسرے شہروں سے آئے ہوئے افراد نے پراپرٹی کو منافع بخش کاروبار سمجھتے ہوئے بڑے بڑے ادارے قائم کر لیے ۔ شہر کی ابتر حالت کو بہتر بنانے اور منظم کرنے کے لیے حکومت نے 2003میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ بنایا جس کا قانون بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے 2002 میں منظور کیا تھامگر نومولود ادارہ تاحال شہر کی حالت کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔بندر گاہ خلیج فارس، بحیرہ عرب، بحر ہند، خلیج بنگال اور اسی سمندری پٹی میں واقع تمام بندرگاہوں سے زیادہ گہری بندر گاہ ہو گی اور اس میں بڑے بڑے کارگو بحری جہاز باآسانی لنگر انداز ہو سکیں گے ۔ جن میں ڈھائی لاکھ ٹن وزنی جہاز تک شامل ہیں۔ اس بندر گاہ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان، چین اور وسط ایشیاء کی تمام ریاستوں کی تجارت ہو گی۔
بندر گاہ کی گہرائی 14…5 میٹر ہوگی یہ ایک بڑی ،وسیع اور محفوظ بندر گاہ ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر بہت سے ممالک کی اس پر نظریں ہیں ۔… جو تقریباً 892 کلو میٹر طویل موٹروے ہوگی جو گوادر کو تربت، آواران، خزدار اور رٹوڈیرو سے ملائی گی جو پھر ایم 7، ایم 6 اور انڈس ہائی وے کے ذریعے گوادر کا چین کے ساتھ زمینی راستہ قائم کرنے میں مددگار ثابط ہو گی۔ اسکے علاوہ گوادر کو ایران اور افغانستان کے ساتھ ملانے کے لیے بھی سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے … گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی گرم ہے جوکہ دنیا کہ بہت ہی کم بندرگاہوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے ، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رہتے ہیں یوں تجارت اور مختلف اشیاء کو براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، اس کے برعکس جو بندرگاہیں ٹھنڈے پانی پر واقع ہیں ان کے ذریعے تجارت کرنا مشکل ہوتاہے بلکہ مختلف موسموں میں تو ناممکن ہو جاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تومختلف تہاذیب بھی ساحلی علاقے کے ساتھ ساتھ اپنا پڑاؤ ڈالتی رہیں ہیں،ساحلی یا سمندری راستے زمانہ قدیم سے تجارتی راستے کے طو ر پر استعمال کیے جا رہے اور جدید تجارت نے سمندری راستے سے تجارت کی ضرورت میں مزیداضافہ کیا ہے ،ان سب میں پاکستان کی اہمیت ایک گیٹ وے یا اہم تجارتی دروازے کی سی ہے پاکستان کو بحر ہند میں اہم حرموزآبنائے اورچھپے ہوے حزانوں سے نواز گیا ہے… ایک متحرک اور محاشی مرکز کے طور پر ترقی کرتی گوادر بندرگاہ نے علاقائی اور ملحقہ طاقتوں کو مجبور کر دیا ہے کے وہ وسطی ایشیائی ریاستوں کے توانائی کے وسائل تک رسائی کے لیے اپنا انفراسٹریکچر تیار کریں۔
ایران اور دبئی پورٹ ورلڈ(متحدہ عرب امارات) کے مفادات گوادر کی بندرگاہ کو مقابلے سے باہر رکھنے میں ہیں کیونکے آبنائے ہرموز پر یہ ممالک ایک گیٹ وے کے طور پر کام کرتے ہیں ۔گوادر بندرگاہ کا ایک اور اہمیت یہ بھی ہے کہ اگر امریکہ ابنائے ملاکہ کو بند بھی کر دے توپاکستان اور چین کے لئے بحیرہ عرب کا تجارتی راستہ ہمیشہ کے لئے کھلا رہے گا۔ گوادر بندرگاہ کے ذریعے پاکستان خلیج فارس میں تیل کی ترسیل کے لئے گزرنے والے تمام جہازوں کی نقل و حمل کو مانیٹر کر سکتا ہے ۔سی پیک کے تحت گوادر میں ابتدائی طور پر یعنی 2017 تک ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے یہاں بندرگاہ کو توسیع دینے کے علاوہ متعدد ترقیاتی منصوبے شروع کیے جا چکے ہیں۔60 کلو میٹر طویل ساحلی پٹی والے شہر گوادر میں اکیسویں صدی کی ضروتوں سے آراستہ جدید بندرگاہ کی تکمیل کا وقت جوں جوں قریب آرہا ہے اس کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ۔ آنے والے وقت میں نہ صرف پاکستان بلکہ چین، افغانستان اور وسط ایشیاء کے ممالک کی بحری تجارت کا زیادہ تر دارومدار اسی بندر گاہ پر ہو گا۔