اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) ہائی کورٹ نے جے یو آئی (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا حکم معطل کر دیا۔
ایکسپریس نیوزکے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے جے یو آئی (ف) کے رہنما حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی سے متعلق درخواست پرسماعت کی۔ سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومتی فیصلے کے خلاف حافظ حمد اللہ کی شہریت منسوخی کا حکم معطل کر دیا۔
حافظ حمد اللہ کی جانب سے حکومتی فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پندرہ دن میں شناختی کارڈ واپس کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، درخواست پر فیصلے تک وزارت داخلہ کو مزید کسی کارروائی سے روکا جائےجب کہ نادرا کا اقدام کالعدم قرار دیا جائے۔
وکیل کامران مرتضی نے کہا کہ سینیٹرحمد اللہ یہاں سے پڑھے ہیں، شناختی کارڈ یہاں کا ہے جس پرچیف جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسارکیا کہ کیا ان کے بچے یہاں پرہیں، وکیل کامران مرتضی نے جواب دیا کہ ایک بچہ آرمی میں ہے جس پرچیف جسٹس اطہرنے ریمارکس دیئے کہ ماں اگربیٹے کوقربان کرسکتی ہے تواس کی شوہرکی شہریت پرکیسا شک، نادرا کا دائرکارنہیں کہ کسی کی شہریت پرسوال اٹھائے۔
عدالت نے حافظ حمداللہ کوٹی وی پروگراموں میں بطورمہمان بلانے پرپابندی بھی معطل کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جوحکم پیمرانے جاری کیا یہ صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس نے پیمرا کے وکیل پربرہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بتائیں پیمراکس طرح کسی کوپروگراموں میں جانے سے روک سکتا ہے، مجھے صرف یہ بتائیں کہ پیمرا کی اتھارٹی تھی یا نہیں، میرے خلاف جو فیک نیوز چلاتا ہے چلاتا رہے مجھے فرق نہیں پڑتا، میں نہیں میرے فیصلے بولتے ہیں، جو معاملہ عدالت میں ہے اس حوالے سے کہا جارہاہے پیسے چل گئے ڈیل ہو گی یہ کیا ہے، پیمرا نے بااثرطبقے کی سوچ کوظاہرکیا ہے، ہم نے عدالت میں زیرالتواء مقدمات پر بات کرنے سے روکا ہے، جوکوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کرتا ہے،آپ لائسنس معطل کریں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید ریمارکس دیئے کہ آپ نے یہ نہیں کرنا کہ عدالت نے کہا اس لیے ہم یہ نوٹیفکیشن جاری کررہے ہیں، آپ اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کے مطابق کوئی حکم جاری کریں، چیئرمین صاحب یہ بتائیں، اہم ریگولیٹراتھارٹیزاپنا کام کیوں نہیں کرتیں، کورٹ کے کیسز کا سارا التواء آپ لوگوں کی وجہ سے ہے، انتظامیہ ذمہ داری نہیں لیتی، عدالتی حکم کا انتظار کرتی ہے، عدالت حکم دیتی ہے تو اس کا غلط استعمال کیا جاتا ہے،آپ کا کام ہے آزادی اظہار کو آگے بڑھائیں نہ کہ اس کو روکیں، آپ نے بادی النظر میں توہین عدالت کی ہے۔
پیمرا نے عدالت کے نام پرجوڈائریکٹیو جاری کیا عدالت اسے دیکھنا چاہتی ہے، سب سے زیادہ توہین عدالت یہ ہے کہ زیرالتواء مقدمات پر رائے قائم کی جائے، جج کو پروا نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی میری ذات کے بارے میں کیا کہتا ہے،عدالت نے پیمرا کو عدالت کا نام کسی جگہ استعمال کرنے سے روک دیا۔
عدالت نے نادرا کوحافظ حمد اللہ کے حوالے سے مزید کوئی حکم جاری کرنے سے روکتے ہوئے دو ہفتے میں جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔
دوسری جانب نادرا کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ دسمبر 2018 میں پہلی بارحافظ حمد اللہ کو خط لکھ کربلاک کیا تھا، ڈسٹرکٹ لیول کمیٹی کو آگاہ کیا گیا تھا جب کہ حافظ حمد اللہ اس کمیٹی میں پیش بھی ہوئے تھے۔