تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی گنج بخشِ فیض عالم مظہرِنورِخدا ناقصاں راپیرِکامِل کاملاں رارہنما
خالق کائنات اللہ رب العالمین نے اشرف المخلوقات بنی نوع انسان کی رشدو ہدایت اور مقصدت خلیق انسان سے آگاہی کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علہیم السلام کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے اپنے اپنے ادوار میں مخلوق کی ہدایت کا فریضہ بخوبی سر انجام دیا ۔انسان کو ظلمتوں سے نکال کران کے قلوب میں علم ومعرفت کے چراغ روشن کر دیئے۔ اور پھر قصرِ نبوت کی تکمیل کی خاطرخاتم الانبیاء ،امام الانبیائ ،فخر الانبیاء ،نبی آخرالزمان ،جناب سید ناحضرت محمد مصطفیۖ کو مبعوث فرمایا۔ چونکہ آقائے دوجہاں سرور کون ومکاں حضرت محمد مصطفیۖخ اتم النبین ہیں آپۖ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اس لئے آقاۖکے بعدامت کی ہدایت اوررہبری کے لیے اولیاء کرام بھیجے گئے جن کاسلسلہ قیامت تک جاری وساری رہیگا۔
اولیاء کرام نے ہردور میں پیغام حق عام کیااور بھٹکی ہوئی انسانیت کوحق کی راہ دکھائی ۔پاکستان کوپوری دنیامیں اسلام کاقلعۂ کہاجاتاہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے اس کی وجہ اس سرزمین پر بزرگان ملت اولیاء کرام کی تشریف آوری ہے جنہوں نے شبانہ روز دین کی تبلیغ کرکے پاکستان کو قلعہ اسلام بنا دیااسی وجہ سے یہاں کے لوگ بزرگان ِ دین اولیاء کرام کی تعلیمات اوران کے نقش قدم پر عمل پیراہیں مسلمانان پاکستان کے دلوں میں اسلام پرمرمٹنے کاشوق شہادت اورجذبہ جہادزیادہ پایاجاتاہے۔پنجاب کو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت سے تسلیم کیاجاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ سرزمین بزرگان دین اولیاء کرام کا مرکز رہی ہے یہاں لوگ مغربی طرزِ تعلیم کے بجائے اولیاء کرام کی تعلیمات پر عمل پیراہیں۔
Islam
تاریخ کے اوراق گواہ ہیں نبی کریمۖکی ظاہری زندگی کے بعد اسلام کی تبلیغ وترویج کا بیڑا امت مصطفیۖ ،علماء اور اولیاء کرام نے اٹھایا۔خلفاء راشدین سے لیکرموجودہ دورتک اسلام کی خدمات میں صلحاء امت کاکردارنمایاں ہے۔ان پاکیزہ نفوس نے دین ِ اسلام کے فروغ کی خاطرلازوال قربانیاں پیش کیں دین مصطفیۖکوبلندیوں تک پہنچایا بلکہ ہردورکے محدثین ،مبلغین ،اتقیائ،اولیاء ومشائخ عظام نے کفرکے خلاف سینہ سپر ہو کر بقائے اسلام کی جنگ لڑی تاریخی قربانیاں دیکردین مصطفیۖکے علم کو بلندف رمایا۔ الحمدللہ !آج بھی اسلام کی خوشبودنیامیں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔جس کی وجہ سے یہودوہنود دیگر طاغوتی قوتیں اسلام کی مقبولیت دیکھ کر بوکھلاہٹ کاشکارہیں ۔اسلام کے خلاف طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں ۔ان کی ناپا ک سازشوں کوخاک میں ملانے کے لئے بزرگان دین یہ جنگ لڑرہے ہیں ۔آج جس عظیم ہستی کامیں تذکرہ کرنے جارہاہوں ۔اسے عالم ِ اسلام میں ”داتاگنج بخش”کے نام سے یادکیاجاتاہے۔
آپ کااسمِ گرامی علی،کنیت ابوالحسن ،والدکانام عثمان ابن علی یابوعلی وطنی نسبت جلابی ثم ہجویری ہے ۔آپ کامعروف لقب”داتاگنج بخش”ہے ۔آپ حسنی سیدہیں۔آپ کاسلسلۂ نسب آٹھ واسطوں سے سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم تک جاملتاہے ۔آپ کی ولادت باسعادت تقریباً400ہجری میں افغانستان کے شہرغزنی کے مضافات میں ایک بستی الجلاب میں ہوئی ۔آپ کے مرشد حضرت ابوالفضل محمدبن ختلی ہیں ۔ ان کاسلسلہ طریقت نوواسطوں سے یوں سیدناحضرت علی المرتضیٰ شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم سے جاملتاہے ۔آپ کاسلسلہ طریقت حضرت ابوالفضل محمدبن حسن ختلی ،حضرت شیخ ابوالحسن حصری ،حضرت شیخ ابوبکرشبلی، حضرت شیخ جنید بغدادی، حضرت شیخ سری سقطی،حضرت شیخ معروف کرخی، حضرت شیخ دائودطائی،حضرت شیخ حبیب عجمی،حضرت شیخ حسن بصری، امیرالمومنین سید ناعلی المرتضیٰ شیرخداکرم اللہ وجہہ الکریم تک پہنچتاہے ۔آپطریقت میں اپنے آپ کو سلسلہ جنیدیہ کامتبع قراردیتے ہیں۔
Data Ganj Bakhsh
آپ نے معروف اساتذہ وشیوخ سے تعلیم وتربیت حاصل کی ۔اساتذہ کرام میں ابوالعباس اشقانی اورابوالقاسم القشیری مشائخ صحبت شیخ ابوالقاسم گورگانی ،حضرت شیخ ابواحمدالمظفربن احمدبن حمدان،حضرت شیخ ابوالعباس احمدبن قصاب ، شیخ ابوجعفرمحمدبن المصباح الصیدلانی کے نامی گرامیِ سرفہرست ہیں ۔آپ نے زندگی کابیشترحصہ تلاش حق کی غرض سے سیاحت میں گزارا۔اکابر اولیاء کرام کی زیارت کی اوران سے فیض حاصل کیا۔مثلاًعراق،شام،بغداد،فارس،قہستان،آذربائیجان،طبرستان ،خوزستان ،کرمان ،طوس، ماورالنہر، ترکستان اورحجازکاسفرکیاصرف خراسان میں آپ نے تین سومشائخ سے ملاقات کی ۔آپ نے سخت مجاہدے اورریاضتیں بھی کیں ۔اسی طرح آپ اکابرین علم وعرفان کی صحبت سے علم اورروحانیت کے اس درجہ کمال کوپہنچے کہ اپنے زمانے کے امام اورآنے والے ادوارکے لئے مخدوم بن گئے ۔علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے آپ کومخدوم امم کہاہے۔
سیّد ہجویرم خدوم امم مرقدِ اُوپیر اسنجرر احرم آپ اپنے پیرومرشد حضرت شیخ ابوالفضل محمدبن حسن ختلی کے حکم پردعوت وارشادکی خاطر 431 ہجری میں غزنی سے لاہورتشریف لائے ۔آپ جب لاہورآئے توبظاہرآپ کے پاس ایک مصلیٰ اور وضو کے لئے لوٹا ہوگا لیکن علم وعمل ،شریعت وطریقت ،حقیقت ومعرفت کے گراں قدر خزینے کچھ اس کثرت سے بانٹے کہ ”گنج بخش فیض عالم”کالازوال لقب پایا۔آپ کی علمی ،فکری اوردینی خدمات کی وجہ سے اقبال نے آپ کوان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیاہے۔
پاسبان عزت ام الکتاب ازنگاہش خانہ باطل خراب خاک پنجاب ازدم اُوزندہ گشت صبح ماازمہراُوتابندہ گشت
Quran
یعنی آپ قرآن مجید کی عزت کے محافظ ہیں اورآپ کی نگاہ ولایت سے باطل کاگھرویران ہوگیا۔آپ کے دم قدم سے سرزمین پنجاب میں اسلام زندہ ہوگیا۔آپ کے آفتاب ولایت سے ہماری صبح روشن ہوگئی ۔آپ تصوف کے مدونین فن اوراماموں میں سے ہیں ۔اس لئے آپ نے سلسلہ جاری نہیں فرمایا۔حضرت عبداللہ المعروف شیخ ہندی اورآپ کے اصحاب حضرت ابوسعیدہجویری اورحضرت حمادسرخسی آپ کے خلفاء تھے ۔آپ کے مزاراقدس سے اکتساب فیض حاصل کرنیوالی ہستیوں میں سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمة اللہ علیہ،حضرت بابافریدالدین مسعودگنج شکررحمة اللہ علیہ اورحضرت مجددالف ثانی رحمة اللہ علیہ کے نام شامل ہیں ۔سلطان الہندحضرت خواجہ معین الدین اجمیری رحمة اللہ علیہ نے حضورداتاگنج بخش صاحب مزارشریف پرحاضرہوئے اورچلہ کاٹا۔فراغت کے بعدداتاصاحب رحمة اللہ علیہ کافیض عام دیکھاتودل سے پکاراٹھے۔
گنج بخشِ فیض عالم مظہرِنورِخدا ناقِصاں راپیرِکامِل کاملاں رارہنما
آپنے متعدد کتابیں لکھیں ۔آپ کی آخری تصنیف ”کشف المحجوب” کے مطالعہ سے ان کی نو دیگر تصانیف، دیوان، کتاب فناوبقا، اسرارالخرق والمٔونات، الرعایت حقوق اللہ تعالیٰ،کتاب البیان لاہل العیان، نحوالقلوب،منہاج الدین ،ایمان اورشرح کلام کے نام شامل ہیں ۔آپ کی جلالت شان اور عالمانہ تمکنت کی مظہرآپ کی تصنیف کردہ دستیاب کتاب’ ‘کشف المحجوب”ہے ۔جسے فارسی زبان میں اسلامی دنیائے تصوف کی پہلی کتاب ہونے کا اعزازحاصل ہے ۔یہ کتاب اپنے اندرجامعیت لئے ہوئے ہے اس میں تصوف کے مسائل بھی ہیں اور متکلمین کے دلائل بھی ۔منطقیوں اورفلسفیوں کی موشگافیاںبھی اورباطل نظریات کی تردید بھی مسائل شریعت وطریقت کا خزینہ بھی اورحقیقت ومعرفت کاایک بیش بہاگنجینہ بھی ۔اس گنجینہ رشدوہدایت کے بارے میں حضرت نظام الدین اولیاء کا ارشاد ہے کہ ”اگرکسی کاپیرنہ ہوتووہ اس کتاب کامطالعہ کرے تواسے پیرمل جائے گا”۔اس گنجینہ رشدوہدایت کانام ہی موضوعات کی وضاحت کرتاہے۔
اس ضمن میں آپ خودتحریرفرماتے ہیں۔”چونکہ یہ کتاب سیدھی راہ بتانے اورعارفانہ کلمات کی تشریح وتوضیح اوربشریت کے حجاب رفع کرنے کی غرض سے لکھی گئی ہے لہذااسے کسی اورنام سے موسوم کرنامناسب نہیں” یہ کتاب آپ نے اپنے ارادت مندابوسعیدکی التجاء پرلکھی ۔آپ تحریر فرماتے ہیں”اے ابو سعید میں نے تیری گزارش کے مطابق تالیف کرنے کی تیاری شروع کردی اوراس کتاب سے تیری مرادکے پورا کرنے کا پختہ ارادہ کرلیا”۔یہ کتاب محض واقعات یاحکایات کامجموعہ نہیں ہے بلکہ 248 آیات قرآنیہ ، 172 احادیث کریمہ ، 77 عربی اورفاسی اشعارکے ساتھ ساتھ حضرات خلفائے راشدین ،ائمہ اہل بیت، جلیل القدر صحابہ کرام ،تابعین، تبع تابعین، ائمہ متاخرین ،متعدد امصاروبلاد کے مشائخ کے حسین تذکروں کے ساتھ ایمان ،علم ،فقروغنا، صوفی ،رسم وخصلت، خرقہ پوشی ،صفوت، ملامت، رضا، حال ومقام، سکروصحو ،ایثار ،نفس ،ہوا، کرامت ،معجزہ ،فضیلت ،فناء وبقائ، غیبت وحضور،جمع وتفریق ،روح ،معرفت ،توحید ،طہارت ،توبہ، نماز، محبت، عشق ،زکوٰة ،جودوسخا ،جوع، حج ،صحبت ،متعدد آداب واخلاقیات ،شادی ،حال ،وقت، مقام، تمکین ،محاضرہ مکاشفہ ،قبض وبسط، انس وہیبت ، قہرولطیف، نفی واثبات، مسامرہ ومحادثہ ،شریعت وحقیت ،سماع جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کرتی ہوئی لازوال تصنیف ہے۔
Authorship
آپ خود تحریر فرماتے ہیں ”اس کتاب سے میرا مقصدیہ ہے کہ جس کے پاس یہ کتاب ہواسے دوسری کتابوں کی حاجت نہ رہے ۔یہ کتاب طالب حقیقت کے لئے کافی ہے ”۔عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں ”اس کتاب کی حیثیت محض ایک مجموعہ روایات وحکایات نہیں بلکہ ایک مستند محققانہ تصنیف ہے ”۔یہ کتاب اس دورکے معاشرتی وسماجی احوال پر بھی ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے ۔آپ نے دوران سیاحت عراق، شام، بغداد، فارس، قہستان، آذربائیجان، طبرستان ،خوزستان ،کرمان ،طوس، ماورالنہر، ترکستان ،حجاز و دیگر علاقوں سے جومعلومات حاصل کیں ان کو بھی اپنی اس تحقیقی تصنیف کی زینت بنایا ہے ۔آپ پاک وہند کے اکثرشہروں میں بھی تشریف لے گئے اوراس زمانے کی تہذیب وتمدن اوررسم ورواج پربھی کتاب میں روشنی ڈالی ۔آپ ہندوستان کے حوالہ سے لکھتے ہیں ۔’
‘مشہورہے کہ ہندوستان میں کچھ ایسے لوگ ہیں جوجنگل میں جاکرگاتے ہیں اورسُریلی آوازنکالتے ہیں ہرن جب ان کے غنااورلحن کوسنتے ہیں تووہ ان کی طرف آجاتے ہیں اور(شکاری)ان کے گردگھوم کرگاتے رہتے ہیں ۔حتیٰ کہ ہرن گانے کی لذت سے مست ہو کر آنکھیں بندکرکے سوجاتے ہیں اوروہ انہیں پکڑلیتے ہیں”دوسری جگہ اپنامشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ”میں نے ہندوستان میں دیکھاکہ زہرقاتل میںایک کیڑا پیدا ہوتا ہے اس کی زندگی اس زہرسے ہے ”۔ترکستان کے حوالے سے لکھتے ہیں ”میں نے ترکستان میں ایک شہر دیکھا جو سرحد اسلامی پر ہے ۔وہاں ایک پہاڑ آتش فشاں تھاجوآگ کے شعلے دے رہاتھااوراس کے پتھروں سے نوشادرجوش مارکرابل رہا تھا اور اس آگ میں چوہے تھے جب انہیں اس آگ سے باہر لایا جائے تو وہ مر جاتے تھے”۔
بلوچوں کے بارے میں ایک مشاہدہ اس طرح تحریرفرماتے ہیں۔”اوراس قسم کے مشاہدے مجھے بلوچوں میں بھی ہوئے کہ وہ گدھے اوراونٹ لے کرچلتے……”۔تذکرہ نگاروں کی غالب اکثریت نے آپ کاسن وفات 465 ہجری سے اتفاق کیاہے ۔حضرت سید علی ہجویری نے زندگی کے آخری ایام لاہورہی میں گزارے اورچندروزکی علالت کے بعدخانقاہ میں اپنے حجرے میں وفات پائی ۔آپ کی نمازہ جنازہ آپ کے خلیفہ حضرت شیخ ہندی نے پڑھائی اورآپ کویہیں دفن کیاگیاجہاں آج بھی آپ کامزارمرجع خلائق ہے ۔آپ کا 972 عظیم الشان سالانہ عرس مبارک 18,19,20 صفرالمظفر 1437 ہجری بمطابق 01.2.3 دسمبر 2015 بروز منگل ،بدھ، جمعرات کو آپ کے آستانہ مبارک پر منعقد ہو رہا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 332 قابل ذکرمزارات میںسے لاہورمیں 49 کراچی میں 25 اورملتان میں 20 خانقاہیں ہیں۔
Data Darbar
ان سے اربوں روپے سالانہ آمدن ہوتی ہے۔ اور ان مزارات کی کل آمدن کا تقریباً نصف صرف داتا صاحب رحمة اللہ علیہ کے مزاراقدس سے محکمہ اوقاف کو موصول ہوتاہے ۔مگر بدانتظامی کا یہ عالم ہے کہ آج بھی اگرکوئی زائراپنے جوتے جمع کرواکر حاضری دے تو اُس سے فقط حفاظت پاپوش کے 10 سے 20 روپے تک وصول کرلیے جاتے ہیں جبکہ رسمی بورڈ بھی آویزاں ہیں کہ ایک روپے سے زیادہ ہرگزادانہ کریں ۔منہ زورٹھیکیدارں کو محکمہ آج تک لگام نہیں دے سکاجس سے زائرین شدیدکرب میں مبتلاہیں۔حکومت وقت پر لازم ہے کہ جس طرح پتنگ بازی پرپابندی لگاکرعوام کے جان ومال کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اس طرح میلے کی آڑمیں تمام مزارات اولیاء پرایسی خرافات پرپابندی عائدکی جائے تاکہ زائرین ومتوسلین کو حقیقی روحانی آسودگی حاصل ہو۔محکمہ کوچاہیے کہ اولیاء اللہ کے حالات زندگی اور ان کی تصانیف کوفی سبیل اللہ عوام الناس تک پہنچایاجائے۔مخیر حضرات خود بخود محکمہ سے تعاون کریں گے۔
داتاعلی ہجویری کے منتخب ارشادات ٭نفس ایک باغی کتاہے ۔کتے کاچمڑاجب تک دباغت اوررنگ نہ کیاجائے ،پاک نہیں ہوتا۔ ٭نفس کی مخالفت سب عبادتوں کااصل اورسب مجاہدوں کاکمال ہے ۔ ٭علم سے بے پروائی اختیارکرنامحض کفرہے۔ ٭بھیدکوکھول اورنمازکونہ بھول۔ ٭فقیرکوچاہیے کہ بادشاہوں کی ملاقات کوسانپ اوراژدھے کی ملاقات کے برابرسمجھے خصوصاًجب ملاقات اپنے نفس کے لئے ہو۔ ٭مبتدی کوچاہیے کہ وہ راگ اورسماع سے پرہیزکرے کیونکہ یہ راستہ اس کے لئے بہت مشکل ہے۔
٭دین وشریعت کے پابند لوگوں کو خواہ وہ نادارو غریب کیوں نہ ہوں ،بہ چشم حقارت نہ دیکھ کیونکہ اس سے خداکی حقارت لازم آتی ہے ۔ ٭پیغمبرکی بزرگی اوررتبہ کی بلندی صرف معجزہ ہی سے نہیں بلکہ عصمت کی صفائی سے ہے ۔ ٭عارف عالم بھی ہوتاہے مگرضروری نہیں کہ عالم بھی عارف ہو۔ ٭بندہ کے لئے سب چیزوں سے زیادہ مشکل خداکی پہچان ہے۔ ٭بوڑھوں کو چاہیے کہ وہ جوانوں کاپاس خاطرکریں کیونکہ ان کے گناہ بہت کم ہیں اور جوانوں کوچاہیے کہ بوڑھوں کااحترام کریں کیونکہ وہ ان سے زیادہ عابداورزیادہ تجربہ کارہیں۔
Carefully
٭محرموں کو چاہیے کہ وہ ناشائستہ اوامرسے اپنے حواس کو بچائیں اور جو چیزیں شرعاً ناجائزہیں ان سے اجتناب کرے۔ ٭فقرکی معرفت (تعلیم اورپہچان)کے لئے سیردنیاسے بہترکوئی ذریعہ نہیں۔ ٭دنیاکے ساتھی (ہاتھ،پائوں،آنکھیں)جوبظاہردوست نظرآتے ہیں دراصل تیرے دشمن ہیں ۔ ٭دس چیزیں دس چیزوں کوکھاجاتی ہیں۔توبہ گناہ کو،جھوٹ رزق کو،غیبت نیک اعمال کو،غم عمرکو،صدقہ بلائوں کو،غصہ عقل کو،پشیمانی سخاوت کویعنی دے کربعدمیں پچھتانا،تکبرعلم کو،نیکی بدی کو،عدل ظلم کو ٭اولیاء خداکے رحم اورغضب کااظہارکاذریعہ اوراحادیث نبویۖکی تجدیدکاباعث ہیں ۔ان سے پوری طرح فیض یاب ہو۔ ٭مال کی محبت کوعذاب سمجھ کرفاقہ کشوں(اورمستحقوں)پرلٹاتے رہواوریہ سب کچھ اس دن سے پہلے کرجبکہ قبرمیںتجھے کیڑے کھاجائیں۔
الٰہی !علی ہجویری کوپہلے حمدوشکرکی توفیق عطافرمااورپھرفقرکی دولت عطافرما۔پہلے اسے کدورت سے پاک کر،پھراسرارروحانی ومعنوی اس پرواضح کردے اللہ ر ب العزت میری اس کاوش کوبارگاہِ لم یزل میں قبول فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین۔
Hafiz Kareem Ullah Chishti
تحریر: حافظ کریم اللہ چشتی پائی خیل، میانوالی 0333.6828540