تحریر : حفیظ خٹک میدان کرکٹ میں جب کوئی بلے باز اپنی سینچری مکمل کرتاہے تو وہ بہتر بلے بازی کی وجہ سے پورے میدان کا مرد میدان بن جاتا ہے اور وہاں موجود شائقین تالیاں بجا کر اسے داد دیتے ہیںاور بسا اوقات جب وہ کھلاڑی ڈبل سینچری بناتا ہے تو اس وقت اس کے جذبات و احساسات قابل تحسین ہوتے ہیں۔ وہ بھی اپنے بلے کو فضا میں لہراتا ہے اسے چاروں جانب گھوماتا ہے اور سبھی کا شکریہ ادا کرتا ہے ۔ میدان میں اسکورنگ کیلئے لگے بڑے اسکرین کے ذریعے اسے داد دی جاتی ہے۔ سر پر موجود ہیلمٹ کو بھی بعض کھلاڑی اتار دیتے ہیں،ایک ہاتھ میں بلے کو اور دوسرے میں اپنے ہیلمٹ کو وہ ہوا میں لہراتے ہیں جس پر موجود شائقین محظوظ ہونے کے ساتھ اسے اور داد دیتے ہیں۔
کھیل کے میدانوں میں اب تبدیلی آرہی ہے ، مسلمان کھلاڑیوں کی دیگر ٹیموں میں تعداد بڑھنے کے ساتھ باریش بھی زیادہ نظر آنے لگ گئے ہیں۔ سینچری بنانے کی صورت میں مسلمان کھلاڑی اپنے بلے کو فضا میںبلند بعد میں کرتے ہیںاس سے قبل وہ سر سے ہیلمٹ کو ہٹا تے اور سجدہ شکر ادا کرتے ہیں بعدازاں وہ ہیلمٹ سر پر رکھنے کے بعد شائقین کی تالیوں کاجواب دیتے ہیں ۔سینچری بنانے پر محالف ٹیم کے کھلاڑی بھی نا چاہتے ہوئے داد دیتے ہیں ۔ تماشائیوں میں بڑی تعداد ایسوں کی بھی ہوتی ہے جو کہ ان لمحوں میں اس کھلاڑی کے جلد آﺅٹ ہونے کی دعائیں کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس سینچری کے باعث اب اس کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ اسکولوں میں بچے اگر ریاضی کے مضمون میں پورے نمبر لے آئیں تو انہیں اس بھی اس وقت کہا جاتاہے کہ بچے نے سینچری اسکور کرلی ہے۔ یہی صورت ان بچوں کیلئے بھی استعمال ہوتی ہے جو کہ اپنے جیب خرچ میں سے پیسے جمع کرتے ہیں ، وہ بھی جونہی 100روپے پورے کرتے ہیں تو اس وقت بڑے ذوق و شوق سے یہ بتاتے ہیں کہ میں نے سینچری جمع کر لی ہے۔ پھر اسی روش پر چلتے ہوئے جب وہ 200روپے جمع کرتا ہے تو اس کے والدین سمیت دیگر سبھی کہتے ہیں کہ آپ نے تو ڈبل سینچری مکمل کر لی ہے۔ ڈبل سینچری بنانے پر کھلاڑی ہو یا کوئی بھی طالبعلم سبھی مسروریت محسوس کرتے ہیں۔
تاہم آج جس ڈبل سینچری کا ذکر ہونے جارہاہے اس جان کر سبھی کے چہروں پر نہ صرف اداسی چھا جائیگی بلکہ ان کے جذبات و احساسات نمی کی صورت میں بھی عیاں ہونگے۔ جس فرد کی ڈبل سینچری کا ذکر آج ہورہا ہے وہ مقبوضہ کشمیر ہی نہیں اہل وطن کے اور ان سے بڑھ کرعالمی سطح پر لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔ مظلوموں کیلئے آواز اٹھانے والے، کشمیریوں کو ان کا حق آزادی دلانے کیلئے اس فرد نے اپنی زندگی گذار دی ہے۔ اس کے کام، اس کی کاوشیں کسی بھی موقع پر کہیں پر بھی رکی نہیںہیںانسانیت کی خدمت کیلئے وہ اور اس کے ساتھ چلنے والے سبھی برسرپیکار رہے ہیں اور تاحال ہیں۔ تھر کے ریگستان ہوںیا بلوچستان کے پہاڑ، پنجاب میں سیلاب ہوں یا زلزلہ زدگان، ملک کے اندرسے باہر جائیںاور دیکھیں تو وہاں بھی جہاں کہیں مسلمان مظلوم ان انسانیت کیلئے خدمات ہوتی ہیں جو کہ تاحال جاری ہیں۔
حافظ محمد سعید کو سابق ناہل وزیر اعظم نواز شریف کے دور میں نظر بند کردیا گیا، ان کا یہ اقدام حافظ سعید کی جماعت سمیت دیگر سبھی مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے سخت ناپسند کرنے کے ساتھ اس نظر بندی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا، اس نظر بندی کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے بھی ہوئے لیکن نواز شریف کہ جنہوںنے یہ اقدام بھارتی سرکار نریندر مودی کو خوش کرنے کیلئے کیا تھاوہ نہیںچاہتے تھے کہ وہ حافظ سعید کی نظر بندی کو ختم کرکے مودی کو ناخوش کریں۔ جبکہ وہ ان کی پوری جماعت کے کارکنان سمیت 20کروڑ سے زائد عوام جانتی ہے کہ حافظ سعید اک سفید پوش انسان ہیں اور اب تلک انہوں نے انسانیت کی خدمت کی ہے، ان کے اوپر ملک کے کسی بھی تھانے میں کوئی مقدمہ درج نہیں۔اک امن پسند شہری کی طرح انہوںنے اور ان کی پوری جماعت نے اپنے وقت کو گذارا ہے،اگر کشمیریوں کی حمایت جرم ہے ان کے حق میں آواز اٹھانا غلط قدم ہے تو ایسی صورتحال میں 20کروڑ سے زائد عوام ہی پھر غلط ہے۔ وطن عزیز کی ساری سیاسی، مذہبی جماعتیں ہیں یا کوئی بھی کسی بھی نوعیت کی این جی اووز سب کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں اور سبھی کے دل کشمیریوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ کمزوری حکومت وقت کی ہے جو آج تلک اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کراسکی۔ بھارت اس کے پیچھے چلنے والے اور اس سے فوائد حاصل کرنے والے ممالک تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی یہ جانتے ہیں کہ بھارت کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کر رہا ہے۔ قومی اور عالمی سطح پر سوشل میڈیا پر بھارتی مظالم نے اس کے مکروہ چہرے کو اقوام عالم کے سامنے کھول دیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اگر اقوام متحدہ کچھ نہیں کررہی تواس کی خاموش بھارتی خوشامدانہ پالیسی ہے۔ دوسری جانب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی تک کی حالت یہ ہے کہ اس نے بھی کشمیر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی مثبت کوشش نہیں۔ 56سے زائد اسلامی ممالک ہونے کے باوجود یہ عمل قابل مذمت ہے کہ او آئی سی مسلمانوںکے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھاتی۔اس کے ساتھ اقوام متحدہ کی کشمیرکے حوالے سے قارکردگی بھی قابل مذمت ہے اور اس کے ساتھ حکومت پاکستان کا حافظ سعید کو نظر بند اور طویل نظر بند کرنا بھی قابل مذمت ہے۔
بھارت کی یہ پوری کوشش ہے کہ وہ اپنے اکھنڈ بھارت کے خواب کو پورا کرے ایک کشمیرتو کیا وہ پاکستان کے اندر بھی اپنی تخریبی سرگرمیاں اسلئے جاری رکھے ہوئے ہے کہ وہ پورے پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔اس کی اس چاہت میں پہلے روس اس کے ساتھ اب امریکہ بھی اسی کے ساتھ ہے۔ ملک میں جاری سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے امریکہ اور بھارت مل کر سازشیں کر رہے ہیں وہ کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان عالمی سطح پر مضبوطی کے ساتھ معاشی قوت بن کر ابھرے۔ چین کی تمام تر حمایت کو وہ پاکستان سے ہٹانا چاہتے ہیںاسی لئے انہوںنے حافظ سعید کو نظر بند کرایا تاکہ ان کی نظربندی سے باعث کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو ختم کیا جاسکے، اب یہ اس بھارت کی بھول ہے کہ جس قوم کو اس کی سات لاکھفوج زیر نہیںکرسکی بھلا حافظ سعید کو نظر بند کرنے سے وہ کیسے زیر ہوجائیگی۔ بھارت کے اپنے فوجی اب کشمیر میں خودکشیاں کر رہے ہیں ان کے فوجی سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی زیادتیاں بتاتے ہیں،بھارت میں کشمیر کی تحریک آزادی نے تو ان قووتوں کو بھی حوصلہ دیا ہے جو کہ بھارت کے مظالم سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔افغانستان کی حالت امریکہ دیکھ چکا ہے اس کی فوجیں اور اس کے ساتھ نیٹو کی فوجیں تک تو مجاہدین کو دبا نہیں سکے ہیں تو کشمیری مجاہدین کو بھارت کی سرکار اپنے فوجیوں سے کیسے دبا کر سکھسکتی ہے۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور یہ بانی پاکستان کا قول ہے حافظ سعید سمیت 20کروڑ عوام کو اس بات کا یقین ہے کہ قائد اعظم کا یہ قول حق اور سچ ہے اور بہت جلد یہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ بن کر رہے گی۔
حافظ سعید کی نظر بندی کو ڈبل سینچری ہوگئی ہے اور اس ڈبل سینچری کو اب جلد از جلد ختم ہوجانا چاہئے یہ مطالبہ بھی ہے اور عوام کا حکم بھی اس نئے قائم مقام وزیر اعظم سے بھی اور صدر سے بھی کہ حافظ محمد سعید کی نظربندی کو جلد از جلد ختم کر دیا جائے اور انہیں ایک اچھے کھلاڑی کی طرح اپنی اننگز کو جاری رکھنے کا موقع دیا جائے۔یہ ان کیلئے بہتر اور ان کی پریشانیوں میں گری سیاسی جماعت کیلئے بھی، موجود حکومت کیلئے بھی اور اس سے بھی بڑھ کو پوری عوام کیلئے۔ حافظ سعید کی نظربندی کو ختم کرکے انسانیت کی خدمت کے سفر کو تیزی سے آگے بڑھانے کے عمل کو جاری رکھنے کا موقع دیا جائے۔