حافظ محمد سعید دہشت گرد نہیں ہے اور نہ ہی ان کی جماعت، جماعت الدعوة کا دہشت گردی سے کوئی تعلق ہے۔یہ خالصتًا دینی اور اصلاحی تنظیم ہے جس کا اہم مقصد اسلام کی تبلیغ اور نوجوانوں کو ایک منظم پلیٹ فارم کی فراہمی ہے ۔ جہاں نو جوانوں کی قائد انسانیت حضرت محمدۖکی تعلیمات کے مطابق تعلیم و تربیت اورانہیں نظریہ پاکستان سے روشناس کروانا ہے۔حافظ محمد سعید کی سر پرستی میںملک بھر میں قوم کے لئے اصلاحی ودعوتی مراکز اپنا قومی فریضہ انجام دے رہے ہیں۔جبکہ اغیار اسلام نے حافظ محمد سعید کو ایک دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ہرقسم کے ہتھگنڈہ استعمال کر رہے ہیں۔دنیا کہیں بھی کوئی دہشت گردی کی کاروائی ہوتی ہے تو اس کا ملبہ حافظ محمد سعید پر ڈال دیا جاتا ہے۔نائن الیون کا واقعہ ہواتو دنیا بھر میں مسلمانوں کو بدنام کیا گیااور لشکر طیبہ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔26 نومبر 2008ء ممبئی حملوں کاالزام بھی لشکر طیبہ پر عائد کیا گیا۔ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس کے ارکان کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ ملک بھر میں اس کے دفاتر بند کر دیے گئے اور تنظیم کے رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیاگیااور یہ کہا گیا کہ ان کے دہشت گردوں سے رابطے ہیں۔ کشمیری گزشتہ ستر سالوں سے برہمن استعماریت کے خلاف نبرد آزما ہیں ،بھارتی متعصب میڈیا دن رات یہ زہر اگلتا رہتا ہے کہ کشمیر میں در اندازی میں حافظ محمد سعید کی تنظیم لشکر طیبہ ملوث ہے ۔ حافظ سعید سے خوفزدہ بھارت کے مزموم عزائم تو یہی ہیں کہ دہشت گرد قرار دیکر امریکہ کے حوالے کر دیا جائے تاکہ کشمیریوں کی تحریک آزادی دم توڑ جائے۔
جب ان کی جماعت الدعوةپر امریکی ایماء پر پابندی عائد کی گئی تھی تو لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی اور عدالت میں تمام الزامات جھوٹے ثابت ہونے پر عدالت نے جماعت پر تمام پابندیاں ہٹادیں اور آزادانہ کام کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ممتازعالم دین،محب وطن، کشمیریوں کے مسیحا اور انسانیت کے درد مند جماعت الدعوة کے بانی حافظ محمد سعید نے باقاعدہ سقوط ڈھاکہ کے بعد اپنے مشن کا آغاز کیا۔ انہوں نے سن انیس سو چھیاسی میں ایک ماہانہ میگزین ”الدعوة”کی اشاعت بھی شروع کی تھی۔ اور مرکز دعو تہ الارشاد کی تشکیل بھی عمل میں لائی گئی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس تنظیم کا کام تبلیغ و فلاح کرنا تھا۔ان میں سرفہرست تعلیمی اداروں کا قیام تھا۔ حافظ محمد سعید کی پیدائش 1948 میں اس وقت ہوئی جب ان کا خاندان انڈیا سے ہجرت کرکے پاکستان پہنچا۔ ہجرت کے اس سفر میں ان کے خاندان کے 36 افراد شہید ہوئے۔
خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔ حافظ محمد سعید کا بچپن سرگودھا میں گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گائوں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف سلفی عالم دین حافظ عبداللہ بہاولپوری کے پاس بہاولپور چلے گئے۔ اور اسلام کے ایک عظیم مجاہد بن کرلشکر طیبہ کے نام سے پہچانے جانے لگے۔ ”فلاح انسانیت فائونڈیشن”جماعت الدعوة کی ذیلی تنظیم ہے ۔دنیا جانتی ہے کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اس تنظیم نے بہت سے پروجیکٹس بھی ترتیب دیے ہیں، جن میں واٹر پروجیکٹ بھی ہے۔ اس کا کام بلوچستان، سندھ و دیگر ایسے علاقے جہاں سے پانی دور دراز سے لایا جاتا ہے تاکہ ان کے لیے آسانی مہیا ہو۔ اس کی طرف سے ریسکیو سینٹر سمیت دیگر ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ الدعوةریسکیوسینٹر دریائے نیلم کے پاس بھی قائم ہے، جس کا کام دریا میں ڈوبنے والوں کو نکالنا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل کیمپس بھی ہیں، جو فری کیمپنگ کرکے لوگوں کو آسانیاں فراہم کرتے ہیں۔
جیل خانہ جات میں بھی یہ کام کرتے ہیں۔ ملک میں جو بھی وباء پھیلی ہو اس سے بچنے کے لیے فوری طور پر یہ احتیاطی تدابیر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عیادت کمیٹی ہے، اس کا کام مریضوں کی عیادت کرنا ہے۔ رمضان میں سحری و افطاری کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تنظیم ہزاروں افراد کو فوری طبّی امداد کی ٹریننگ دے چکی ہے۔اس کا قیام 1985ء میں عمل میں آیا۔ دیگر دعوتی تنظیموں کے برعکس جماعت الدعوةسیاست، معیشت، معاشرت اور صحافت سمیت ہر شعبہ زندگی میں دعوت کا کام کر رہی ہے۔ مر وجہ جمہوری سیاست کے خلاف عوامی سطح پر پاکستان میں پہلی بار اگر کسی جماعت نے آواز بلند کی تو وہ جماعت الدعوةتھی۔ معیشت کے میدان میں سوداور غیر اسلامی حرام کاروبار اور دیگر معاملات کی اصلاح کی طرف توجہ دی اسی سلسلے میں شعبہ تاجران قائم کیا گیا۔ ‘فلاح انسانیت’ کافی عرصے سے تھر میں نہ صرف سماجی، فلاحی اور ریلیف کے کاموں میں مصروف ہے، بلکہ تنظیم کی جانب سے اکثرو بیشتر میڈیا کو یہاں کا دورہ بھی کروایا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ جماعت الدعوةکو 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا۔تھر میں پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے 2002 میں کام کا آغاز کیا’۔واضح رہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا صحرائے تھر گزشتہ تین سالوں سے متواتر قحط سالی کا شکار ہے۔اس قحط سالی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب سردیوں کے آغاز کے ساتھ غذائی قلت کا شکار بچوں اور ماں بننے والی خواتین کے لیے زندگی مزید مشکلات کا شکار ہو جائے گی جو غربت کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ صحت کی بنیادی ضروریات اور تعلیم کی کمی کا بھی شکار ہیں۔ ‘فلاح انسانیت ان کنوؤں کی تعمیر کے لیے ضرورت پڑنے پر فنڈز بھی اکٹھے کرتی ہے، صحرائے تھر کی تقریباً پچاس فیصد آبادی ہندو ہے، جو ہندوؤں کی نچلی ذات جیسے کولہی، بھیل اورمیگھواڑ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ پانی سے متعلق پچاس فیصد پروجیکٹس سے تھر کی غیر مسلم آبادی مستفید ہو’۔ جبکہ بلوچستان میں بھی ایک بڑا آفس قائم کیا گیا۔ جہاں آواران میں آنے والے زلزلے کے بعد فلاح انسانیت کی جانب سے بڑے پیمانے پر امدادی کام کیے گئے تھے’۔ تھر میں گزشتہ ایک عشرے سے میڈیکل کیپمس لگا ئے جا رہے ہیں۔
ایمبولینسوں کے ذریعے مریضوں کو بغیر کسی فیس کے دوردراز دیہاتوں سے ڈسٹرکٹ ہیڈکوراٹر، حیدرآباد یا پھر کراچی لے جایا سکے گا۔جماعت الدعوة پاکستان کی جانب سے تھرپارکر کی 15 لاکھ آبادی کیلئے 50 کنویں کھودے گئے ہیں جن سے تھر کی عوام پینے کے میٹھے پانی سے مستفید ہورہی ہے۔ اس وقت پاکستان بھر میں 250 ایمبولینس خدمت خلق میں مصروف عمل ہیں۔ملک کے ہر کونے میں امدادی سرگرمیوں میں جماعت الدعوة اور اس کا ادارہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن سب سے نمایاں نظرآتا ہے۔بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے ان کے خلاف شدت پسندی کا پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔آپ تھرکسی بھی علاقہ میں چلے جائیں آپ کو ایف آئی ایف کی جیکٹیس پہنے نوجوان ہی امداد میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایف آئی ایف کے رضا کار قحط سالی کی خبریں سننے کے بعد وہاں نہیں پہنچتے بلکہ پہلے سے ہی وہ ان علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت کے واٹر پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ رضاکار اونٹوں کے ذریعے اور اپنے کندھوں پر سامان لاد کر دور دراز کے ان دیہاتوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں تک جانے کا سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن پچھلے سولہ برس سے ریلیف سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔
16 سو سے زائد پانی کے منصوبے مکمل کئے ہیں۔ان منصوبوں میں کنویں، ہینڈ پمپ اور سولر پمپ شامل ہیں۔جو عورت کئی مٹکے سر پر اٹھا کر پانچ پانچ میل دور سے ننگے پاؤں پانی لانے پر مجبور تھی آج الحمد للہ اس کے گھر کے سامنے ہینڈ پمپ ہے یا پانی کا کنواں ہے۔جو لوگ پہلے گندا کھارا پانی پیتے تھے اب انہیں میٹھا اور صحت بخش پانی اپنے گھر کے دروازے کے سامنے پینے کے لئے مل رہا ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ان منصوبہ جات سے صحرا میں ہریالی ہو رہی ہے۔ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے ہرگوٹھ میں ”ایک جھونپڑا ایک ٹیچرکا ”عظیم الشان پراجیکٹ شروع کیا ہے اس پراجیکٹ کے تحت ٹیچر جہاں بچوں کو سکول کی تعلیم دے گا وہاں وہ بچوں کوقرآن مجید پڑھائے گا ،نماز سکھائے گا اور دین کی تعلیم بھی دے گا۔اس وقت ایف آئی ایف کے اس طرح کے بیسوں سکول بچوں کو دین ودنیا کے علم سے آراستہ کر کے ملک کا مفید شہری اور باعمل مسلمان بنانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔اسی طرح سکولوں اور پانی کے پراجیکٹس کی تعمیر کے ساتھ مساجد کی تعمیر کا کام بھی جاری ہے۔بلا شبہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہیے۔
فری میڈیکل وسرجیکل کیمپنگ۔وبائی امراض کے تدارک کے لئے طبی کوششیں، سیو آئی ویڑن پروگرام، ہیپاٹائٹس فری پروگرام، ہسپتالوں میں مریضوں کی رہنمائی آگاہی اور ویکسی نیشین مہم، میڈیکل اینڈ ہیلتھ کیئر پروفیشنلز، ایمبولینس سروسز، بلڈڈونر سوسائٹی، عیادت کمیٹی، واٹر پراجیکٹ، ہنگامی امداد کی فراہمی، قربانی پراجیکٹ، واٹرریسکیو سروسز، انسداد برائے منشیات مہم، امدادی پروگرام برائے خصوصی افراد، ٹیکنیکل کورسز، امدادی پروگرام برائے اسیران، تعاون برائے نکاح ، فراہمی لباس پروگرام، مظلوموں مجبوروں محروموں کی دادرسی، افطارالصائم، روشن بلوچستان پروگرام، متاثرین وزیرستان، متاثرین تھرپارکر، بین الاقوامی خدمات، بوٹ سروسز، میڈیکل و ایجوکیشنل کمپلیکس، دعوت و اصلاح اورتعمیر مساجد پروگرام۔ان تمام شعبہ جات میں بلا شبہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن بلا تفریق رنگ، نسل اور مذہب دکھی انسانیت کی خدمت میں مصروف عمل ہے ۔اس وقت فلاح انسانیت کے زیراہتمام مختلف شہروں میں جدیدآلات سے آراستہ سات بڑے ہسپتال، 176فری ڈسپنسریز، 278ایمبولینسز اور66890بلڈڈونرزسوسائٹی کام کررہی ہیں جن سے ہرماہ ہزاروں لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ دریاؤں، نہروں میں نہانے والے بعض لوگ ڈوب جاتے اورگاڑیا ں نہروں میں گرجاتی ہیں سیلاب کے موقع پر ہزاروں لاکھوں لوگ پانی میں محصورہوجاتے ہیں سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بچانے اوران تک خوراک پہنچانے کے لئے ہمیشہ فوج کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔
دریایا نہر میں ڈوب کرشہید ہونے والے کی لاش نکالنے کے لئے بھی فوج کے غوطہ خور طلب کرنے پڑتے ہیں۔فلاح انسانیت فاؤنڈیشن۔۔۔پاکستان کی واحد این جی او ہے جس نے اس قسم کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے واٹرریسکیوسنٹرقائم کئے ہیں۔ لاہورمیں جدیدترین سہولتوں سے آراستہ ”ریسکیواینڈسیفٹی ٹریننگ انسیٹیٹوٹ” قائم بھی کیاگیاہے۔بلوچستان کے پسنی ، تربت اور دیگر اضلاع میں ایسی غربت ہے کہ جس کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا خطہ پیش نہیں کرسکتا، گرمی انتہا درجے کی اور پینے کا پانی نداردہے۔بلوچستان کے دشوار ترین حالات میں ایف آئی ایف کے رضاکاربلوچستان میں کام کرنے کے لئے پہنچے۔ فاؤنڈیشن نے بلوچی بھائیوں کے لئے ”روشن بلوچستان” کے نام سے کئی پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ایف آئی ایف کے رضاکار ہر مصیبت کے وقت اپنے بلوچی بھائیوں کی مدد کے لئے پہنچتے ہیں۔وقتاََ فوقتاََ میڈیکل، سرجیکل اور آئی کیمپ لگائے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو مفت طبی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔
ایف آئی ایف کادائرہ کارصرف پاکستان تک ہی محدودنہیں بلکہ بیرون ملک بھی اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے سر گرم ہیں۔اسلام آباد کے ایک پروگرام میں راجہ ظفرالحق نے کہا تھا ”میں سلام پیش کرتا ہوں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو اور پروفیسر حافظ محمد سعید کو جن کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں بلوچستان میں علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ گئیں اور دشمن کی سازشیں ناکام ہو گئیں۔”جماعت الدعوةکا اپنے نقطہ نظر پر قائم ہے کہ مسلمان ممالک میں مسلمان حکومتوں کے خلاف مسلح جدو جہد درست نہیں۔ اس سے نہ صرف امت مسلمہ کمزور ہوتی ہے بلکہ کفار کو اپنی سازشیں کامیاب بنانے کا موقع بھی ملتا ہے۔ اس کایہ منہج ہے کہ مسلمان حکمران اور عوام کو دین کی صحیح اور سچی دعوت دی جائے۔جماعت الدعوةکا یہ بھی نقطہ نظر ہے کہ عوامی مقامات پر بم دھماکے، عوام الناس کی املاک کو نقصان پہنچانا، بے گناہ افراد کو خواہ مخواہ قتل کرنا، عورتوں کی عصمت دری کرنا اور انسانیت کے خلاف دیگر جرائم کھلی دہشت گردی ہے۔
یہ کام کوئی تنظیم کرے یا ملک وہ دہشت گرد ہے۔ اسی طرح جماعت الدعوةکے نزدیک مسلم ممالک میں آباد غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نہ صرف حکومتوں پر عائد ہوتی ہے بلکہ عام مسلمانوں کو بھی ان کے حقوق کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔جہاد فی سبیل اللہ کے میں بارے جماعت الدعوة کا نظریہ وہی ہے جو اسلاف کا تھا جو قرآن وحدیث سے واضح ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کتب علیکم القتال کہہ کہ جہاد فرض کیا ہے اس کی فرضیت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا جہاد فتنہ وفساد کو مٹاتا ہے۔ نیز کفار کی غلامی سے نجات حاصل کرنے اور ان کے قبضے سے اپنی سرزمین چھڑانے کے لیے کی جانے والی کوشش جہاد ہے۔ چنانچہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، عراق اور افغانستان میں غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے جو جہاد ہو رہا ہے جماعت الدعوة اس کی بھر پور حمایت کرتی ہے اور ان کوششوں کی شدید مذمت کرتی ہے جو اس جہاد کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے ہو رہی ہے۔