تحریر : راشد علی راشد اعوان جماعة الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید بیرونی ملکوں کے دبائو پر ایک بار پھر نظر بندی کی زندگی گزار رہے ہیں، کہنے والے کہتے ہیں کہ حافظ محمد سعید کو نظر بند کرنے سے قبل ان کی جماعت کا ردعمل نوٹ کرنے اور کسی بھی ممکنہ سخت رد عمل سے بچنے کیلئے حکمت عملیاں ترتیب دی جا رہی تھیں اور ریاست کے ذمہ داروں نے حافظ سعید سے ملاقات کر کے ان سے ازراہ مشورہ سوال کیا کہ اگر آپ کی جماعت کے رہنمائوں کو نظر بند کر دیا جائے تو آپ کی جماعت اور کارکنان کا کیا رد عمل ہوگا تو اس وقت حافظ صاحب نے برجستہً کہا کہ وہ ریاست کے آئین کو قانون کے ماننے والے ہیں وہ یا ان کی جماعت سڑکوں پر نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے گی جس پر محفل میں بیٹھے احباب ورطہ حیرت میں مبتلا ہو گئے کہ وہ تو یہ تااثر لیکر آئے تھے کہ انہیں مزاحمت کا سامنا ہوگا اور سخت نتائج بھگتنا پڑیں گے مگر حافظ محمد سعید نے بڑے تدبر و حکمت سے کام لیا اور عمل سے ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ وہ ریاست کیساتھ اس کے اداروں کے بھی محافظ اور ماننے والے ہیں۔
حافظ سعید کی نظر بندی کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے مگر ان کی جماعت نے اپنا مقدمہ اعلیٰ عدلیہ کے سپرد کر رکھا ہے اور پورے ملک میں جماعة الدعوة اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہونے کے باوجود کہیں سے بھی کوئی بھی تصادم کی خبر سامنے نہیں آئی،کہیں بھی اپنے قائد کی نظر بندی کیخلاف توڑ پھوڑ نہیں کی گئی اور نہ ہی جلائو گھیرائو کیا گیا ہے،اب اس بات میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہی کہ حافظ محمد سعید صاحب کی جماعت اور ان کے کارکنان ریاست کے قانون،ریاست کے اداروں کے محافظ ہی نہیں ان کو ماننے والے بھی ہیں،اس لیے اب اگر حافظ سعید صاحب اور ان کے چاہنے والوں نے اُن کیساتھ ملکر ملی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں آنے میں اعلان کیا ہے تو یہ ان کا وہ بنیادی حق ہے جو ریاست اپنے شہری کو بنیادی حق دیتی ہے اور ویسے بھی اس اعلان کے پیچھے بہت سی سوچ اور مسلسل مشاورت شامل ہے،یہ حافظ سعید کی نظر بندی ختم کروانے یا اپنی جماعت جماعة الدعوة و فلاح انسانیت فائونڈیشن پر ممکنہ پابندیوں کے تحفظ یا بچائو کیلئے نہیںبلکہ قوم کی ان امیدوں اور توقعات کا بھرم ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے مسلسل ملکی سیاست میں حافظ سعید اور ان کے رفقاء سے آنے کا مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ملکی سیاست میں حصہ لیکر جمہوری نظام میں موجود ابہام دور کریں کیونکہ ملکی آئین میں ریاست کے ہر شہری کے حقوق مساوی ہیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جتنے میرے حقوق ہیں اتنے ہی حافظ سعید صاحب کے اور اتنے ہی صدر پاکستان و وزیر اعظم کے بھی ہیں۔
اس لیے ملی مسلم لیگ کا قیام بھی ان ہی حقوق میں سے ایک حق ہے جو سب کو حاصل ہے،اب رہا یہ مسئلہ کہ جماعة الدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید تو خالصتاً ایک مذہبی شخصیت کے مالک ہیں ان کی جماعت جمہوری سیاست سے خود کو ہمیشہ الگ تھلگ کہلواتی رہی ہے اور اس جمہوریت کی کوئی گنجائش نہیں مگر اس کے باوجود وہ ملکی سیاست میں داخل ہو گئے ہیںجیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ملی مسلم لیگ کا قیام ایک دو روز کے فیصلوں کا نہیں بلکہ عشروں پر محیط وہ مشورے اورقائدین کی جستجو شامل ہے جو مسلسل حافظ صاحب کو قائل کرنے کی کوششوں میں رہے ہیں کیونکہ ملک پاکستان کے آئین و قانون کو مقدم رکھ کر اس نظام کا حصہ بننے میں کوئی قباحت نہیں اور ویسے بھی اس جمہوری نظام کا حصہ بننے والے وہ علماء کرام جو اسمبلیوں تک پہنچ جاتے ہیں وہ علمائے کرام جوقوانین اپنی خواہشات اور پسند کے مطابق بنانے کے خواہاں ہوتے ہیں جنہیں وہ مذہبی نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان ہی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انہیں ملکی نظام کا حصہ بنا کر انہیں لاگو کروائیں مگر وہ اس میں ایک حد تک ہی کامیاب رہتے ہیں اور پھر وہ جب بھی الیکشن کے زمانے میں عوام کے رُوبرو جاتے ہیں تو وہ مقدس ریاست کا موضوع چھیڑ کر اپنی کوششوں کا ذکر کرتے اور مستقبل میں منصوبہ بندی کا احوال دیتے ہیں اور پانچ سال یا حکومتی مدت گزارنے کے بعد وہ پھر وہی گرادان لیے عوام کے سامنے ہوتے ہیں،اب میں کہیں خدانخواستہ ان کی نیت کی کمزوری کا ذکر نہیں کر رہا اور نہ ہی یہ بتلا رہا ہوں کہ وہ اپنے منشور پر عمل کیلئے کوشاں نہیں رہتے بالکل رہتے ہیں مگر انہیں ایوان اقتدار میں بھی مشکلات درپیش ہوتی ہیں،کہیں حمایت نہ ملنے ،کہیں حکومتی پالیسیوں سے متصادم ہونے اور کہیں حکومتی مشینری کیلئے ناممکن ہونی جیسی باتیں ہوتی ہیں۔
علاوہ ازیں ریاست اسلامی طرز فکر کے مطابق مقصد نہیں بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے جولوگوں کو دین دنیا کی سعادت حاصل کرنے میں مدد دیتا ہے اور اس کی ذمہ داری ایسا مناسب ماحول اورزمین تیارکرنی ہے جس میں لوگ ایسی زندگی بسر کرسکیں جس میں اطمینان اور سعادت دارین کا حصول ممکن ہو۔ علاوہ ازیں جس نظام کوہم ”ریاست” کا نام دیتے ہیں وہ ایسے نظام کا نام ہے جولوگ آپس میں مل کربناتے ہیں اوراس وجہ سے وہ ریاست حق اور حقیقت کے اتنی قریب ہو گی جتنے اس کو تشکیل دینے والے ہوں گے اورا نہی کی نسبت سے حق اور حقیقت سے دور بھی ہوگی، ایسا ہو سکتا ہے کہ ہر ریاست ہمیشہ اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا نہ کرسکے، یا اس میں کوتاہی کرے جبکہ تاریخ کے اوراق گواہی دیتے ہیں کہ خلفائے راشدین کے زمانے کے علاوہ مختلف زمانوں میں ریاست نے غلطیاں کیں، امویوں سے کوتاہی ہوئی، عباسیوں نے کوتاہی کی، اسی طرح ایلخانیوں، قراخانیوں، زنگیوں، ایوبیوں اورسلجوقیوں نے بھی ریاست کی ذمہ داریوں میں غلطیاں کیں،ایسے میں اگرچہ عثمانی چار صدیوں تک ایک بہت بڑے جغرافیائی خطے میں امن و اطمینان کی باد نسیم چلنے کا سبب بنے مگر ان سے بھی بطور ریاست غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں لیکن ان غلطیوں سے سیکھنا غلطی نہیں بلکہ تجربہ ہے اور میرے نزدیک ملی مسلم لیگ بھی ایک وہ تجربہ ہے جو مسلسل سیکھنے کے بعد اب کامیابیوں کی جانب بڑھنے کی ان ہی کوششوں میں سے ایک کوشش ہے جس کے پس منظر میں علمائے کرام کی ایک وسیع مشاورت شامل ہے۔
اب جبکہ ملی مسلم لیگ نے ملکی سیاست میں اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے تواس مقام پر اس مسئلے کو عمومی قواعد کے مطابق افراط و تفریط سے ہٹ کر عمومی نظر سے دیکھنا چاہیے، پس جس طرح اسلام ایک انسان کو بطور فرد لیتا ہے تو اس کے اچھے اعمال کی تعریف کرتا ہے اور ان پر اسے جزا دیتا ہے، اسے برائیوں سے منع کرتا ہے اور ان کی سزا اور انجام سے ڈراتا ہے لیکن وہ غلطیوں کے ارتکاب کی وجہ سے مکمل فنا کا حکم نہیں لگاتا، مثال کے طورپر مومن غلطی کرسکتا ہے، گناہوں میں پڑسکتا ہے اور برے کام کرسکتا ہے لیکن اس سے وہ کافر ہو جاتا ہے اور نہ برے اعمال کی وجہ سے اسے دائرہ ایمان سے خارج کیا جاسکتا ہے، وہ اس وقت تک مومن رہے گا جب تک وہ ان باتوں کو حلال اورجائز نہ سمجھے گا البتہ وہ گناہوں کے حساب سے فاسق، فاجر یا ظالم مسلمان کہلائے گا، یہی حال ملک اور قوم کا بھی ہے کیونکہ یہ بھی ان افراد سے مل کر بنتی ہے جو غلط اور درست دونوں کام کرسکتے ہیں، اس کے نتیجے میں کبھی تو ریاست انتہائی اچھے اور خوبصورت کام کرے گی جس پر اسے مبارکباد دی جائے گی اور کبھی ایسی غلطیوں اور عیوب کی مرتکب ہو گی جن کی اصلاح اور درست کرنے کی ضرورت ہوگی، اس بارے میں ریاست بھی بالکل افراد کی طرح ہے اور ملی مسلم لیگ اورمجھے یقین ہے کہ ملی مسلم لیگ سے وابستہ اور اس جماعت کو چاہنے والے بھی ملک عزیز پاکستان اس کے آئین و قانون اور انصاف کا خیال رکھے گی تو اس کا احترام کیا جائے گا، اس کے کاموں سے اتفاق کیا جائے گا اور اسے تعاون ملے گا لیکن اگر وہ ظلم کرے اور کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرے تو پھر اس پر اس وجہ سے خاموشی اختیار نہیں کیا جا سکتی۔
آئینی نظام اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی نظریہ پاکستان کی حفاظت ممکن ہے اور اسلامی تعلیمات اور اسلامی عقائد سے ہٹ کر بننے والے قوانین کی بھی روک تھام ممکن ہو سکے گی،اس لیے ملی مسلم لیگ کے وابستہ افراد کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے احساس کی ضرورت ہو گی اور انہیں انتہائی چوکس رہنے اور احتیاط برتنا ہو گی کیونکہ معاشرے سے متعلق معاملات میں کسی غلطی کی اصلاح کی کوشش کرتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس سے مزید غلطیوں کا رستہ نہ کھل جائے اور غلطیوں کا ایک دائرہ وجود میں نہ آجائے، اس لیے جس وقت انتظامی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کریں تو ایسے اسباب سے اجتناب برتیں جن سے عمومی امن و امان خراب ہونے کا اندیشہ ہو کیونکہ یہ بات بالکل غلط ہے اور کسی بھی ناجائز طریقے کو اختیار نہیں کیا جاسکتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن امن و امان والا ہے، وہ اطمینان اور سلامتی کا نمائندہ ہے اور وہ ہمیشہ قواعد و ضوابط کے دائرے میںرہ کر کام کرتا اور جانتا ہے کہ انارکی سے نظام وجود میں نہیں آسکتا اور نظام کو قائم کرنے کے لیے خود نظام کی پاسداری کرنا ضروری ہے،اس لیے اگر آپ تربیت، نظام اور امن چاہتے ہیں تو پھر نظام کو مضبوط کریں، اس کی پابندی کریں اور کبھی بھی اس کے دائرے سے باہر نہ نکلیں ،اللہ تعالیٰ حافظ محمد سعید صاحب،ان کے احباب،ان کے چاہنے والوں اور ملی مسلم لیگ سمیت ان کے تمام ہم خیال سیاسی و مذہبی قائدین کو ہمت و استقامت نصیب فرمائے اور رب کریم ہمیں ملک عزیز پاکستان کے بنیادی اساس و نظریہ پاکستان کی حفاظت کی توفیق نصیب فرمائے آمین ثم آمین۔