تھر میں جو کچھ ہوا وہ نہ تو ایک دن کی کہانی تھی اور نہ ہی دنوں کا قصہ،جس طرح پے درپے اموات ہوئیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ کئی ماہ سے جاری تھا، مگر میڈیا کی نظر نہیں پڑی تھی اسی لئے عوام کی نظروں سے بھی ساری کہانی پوشیدہ رہی اور حکمران بھی چین کی بانسری بجاتے رہے۔
غذائی قلت سے فقط دوچار نہیں بلکہ اڑھائی سو سے زائد اموات ہو چکی ہیں اور صوبائی حکومت میلے ٹھیلے میں لگی رہی ،دنیا کو ملک کا سوفٹ امیج دکھانے کی دھن میں عوام کے مصائب سے نظریں پھیرلی گئیں،پھر میڈیا نے جگایا تو صوبائی ہی نہیں وفاقی حکومت کو بھی جوش آگیا اور وزیراعظم نے تھر پہنچ کر ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کردیا مگر کیا اس سے مرجھائے ہوئے پھول دوبارہ کھل سکیں گے، میڈیا نے شور مچایا تو گھبرا کر سندھ کے وزیر اعلیٰ نے غفلت کا اعتراف کیا ، تھر میں بچوں کی اموات کا اتنا شور مچا ہے کہ ہرطرف سے امدادی قافلے تھر کے علاقے مٹھی پہنچے اور واپس چلے گئے۔ تھر بہت وسیع علاقہ ہے۔
تھرپارکر ضلع کی آبادی 12 لاکھ 51 ہزار 455 افراد پر مشتمل ہے جب کہ اس کی اراضی 19 ہزار 638 اسکوائر کلومیٹر ہے ، 4 تحصیلوں ڈیپلو ، چھاچھرو ، مٹھی اور ننگر پارکر پر مشتمل ضلع تھرپارکر 44 یونین کائونسل اور 2 ہزار 1 سو88 گائوں پر مشتمل ہے، ضلع تھرپارکر میں 37 صحت کے مراکز موجود ہیں جن میں 1 ضلع ہسپتال 3 تعلقہ اسپتال 2 رورل ہیلتھ سینٹر اور 31 بیسک ہیلتھ یونٹ شامل ہیں۔تھر میں حالیہ خشک سالی میں 76 فیصد خاندانوں کے پاس ایک دن کی خوراک کا ذخیرہ نہیں قحط کے باعث 79 فیصد زراعت اور 69 فیصد مال مویشی پالنے والوں کے ذریعہ معاش ختم ہوئے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق حالیہ قحط سالی کے باعث تھرپارکر میں 2 لاکھ 59 ھزار947 خاندان متاثر ہوئے ہیں ۔ تھر کے باسی مال مویشی پالتے اور ضرورت کے وقت ان کو فروخت کرتے ہیں مگر حالیہ قحط سالی کے باعث جہاں پانی کی کمی اور فصلیں کاشت نہ ہوپائیں ہیں تو وہیں جانوروں کی بڑی تعداد میں ہلاکتیں ان کے مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہیں۔ تھرپارکر کی 36 فیصد آبادی کا ذریعہ معاش مال مویشی پالنا ہے جبکہ 35 فیصد کاشتکاری سے وابستہ ہیںور 15 فیصد افراد روزانہ اْجرت سے وابستہ ہیں اور قحط سالی کے باعث 88 فیصد روزانہ اْجرت پر کام کرنے والوں کا ذریعہ معاش ختم ہوا جبکہ 79 فیصد زراعت اور 69 فیصد مال مویشی پالنے والوں کا ذریعہ معاش متاثر ہوا ہے قحط سالی کے باعث سب سے ذیادہ چھوٹے جانور ہلاک ہوئے ہیں جن کی تعداد 48 فیصد ہے اور 27 فیصد بڑے جانور بھی قحط سالی کے باعث ہلاک ہوئے ہین جبکہ بڑی تعداد میں جانوروں مین مختلف بیماریاں رپورٹ ہوئی ہیں۔انسانوں کے لئے خوراک کی حالت بھی بہت ہی خراب ہے تھرپارکر ضلع کے 76 فیصد متاثرین کے پاس ایک دن کی خوارک کا ذخیرہ موجود نہیں ، 19 فیصد افراد کے پاس 2 ھفتوں ،4 فیصد کے پاس 2 سے 4 ہفتوں 1 فیصد کے پاس ایک ماہ تک خوراک کا ذخیرہ موجود ہے جبکہ مارکیٹوں میں 59 فیصد خوارک موجود ہے مگر صرف 7 فیصد وہ خرید سکتے ہیں ذیادہ تر افراد کے پاس قوت خرید ہی نہیں ہے۔قحط سالی کی خبریں میڈیا پر آنے کے بعد پاک فوج،رینجرز سمیت جماعة الدعوة،فلاح انسانیت فائونڈیشن،الخدمت فائونڈیشن،بحریہ ٹائون سمیت دیگر این جی اوز و ادارے امدادی سامان لیکر تھر پہنچے،وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ سندھ،سابق صدر زرداری بھی پہنچے لیکن ان کے جانے سے متاثرین کی مشکلات میں صرف اضافہ ہوا۔مریضوں کو ہسپتالوں سے نکال دیا گیا۔سیکورٹی کے لئے سب کچھ بند کر دیا گیا ۔امدادی تنظیمیں کچھ دن تو امدادی کام کرتی رہیں لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ تھر کے قحط متاثرہ علاقوں میں جماعة الدعوة کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔
Tharparkar
گرمی کی آمد تھر کے باسیوں کیلیے مزید سخت صورتحال کی گھنٹی بجا رہی ہے اور امکان ہے کہ تھر کے صحرا میں بھوک و بدحالی کے شکار عوام کے لیے آنے والے 4 ماہ مزید مشکلات کا پیغام لائیں گے، تھر پارکر میں بارشوں کا سلسلہ جولائی کے آخر سے شروع ہو کر اگست اور ستمبر تک جاری رہتا ہے۔یوں یہاں زندگی کی علامت سمجھی جانے والی بارش میں ابھی تین سے چار ماہ باقی ہیں،شدید گرم موسم تھر کیلیے ویسے ہی سخت ہوتا ہے،لیکن اس بار یہ پہلے سے قحط سے متاثر صحرا کیلیے مزید مشکلات کا پیغام لائیگا۔جماعة الدعوة نے تھر میں بڑے پیمانے پر پروجیکٹ کا آغاز کر رکھا ہے۔پانچ سو سے زائد کنویں مکمل کئے جا چکے ہیں۔قحط کی خبریں میڈیا پر آنے سے قبل فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکار وہاں موجود تھے،ہنگامی صورتحال اور امدادای کاروائیوں کو مزید تیز و منظم کرنے کے لئے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف نے بھی تھر میں ہی ڈیرہ جما لیا ہے۔امدادی کاموں کا جائزہ لینے کے لئے امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید بھی تھر میں پہنچے اور ڈسٹرک ہسپتال مٹھی کے دورے کے علاوہ تھرپارکر کے مختلف گوٹھوں کا بھی دورہ کیا اور متاثرین کے مسائل سنے۔ انہوں نے نئے تعمیر کیے گئے کنوئوں کا افتتاح کیا اور بیوگان میں بکریاں، سلائی مشینیں اور متاثرین میں راشن پیک، کپڑے اور جوتے بھی تقسیم کیے۔حافظ محمد سعید نے تھر میں ایک بڑے جلسہ عام سے بھی خطاب کیا جس میں ایک بڑی تعداد ہندوئوں کی موجود تھی۔ حافظ محمد سعید نے کہا کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن روز اول سے تھرپارکر میں رفاہی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہیں۔ قحط زدہ علاقوں میں ڈسپنسریاں قائم کرکے مزید وسیع پیمانے پر طبی امداد اور مفت ادویات فراہم کریں گے۔ ایف آئی ایف واٹر پروجیکٹ کے تحت پانچ سو کنویں تعمیر کرچکے ہیں، پانی کی فراہمی کے لیے مزید گیارہ سو کنوئوں کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے۔ حکومت اور رفاہی نتظیمیں آگے بڑھ کر متاثرین کی بحالی کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات کرے۔ جماعة الدعوة کسی لالچ اور مفادات کے بغیر متاثرین کے درد کو محسوس کرکے رضائے الہی کے حصول کے لیے صحرائے تھر میں امدادی سرگرمیاں سرانجام دے رہی ہیں۔
مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کی خدمت انسانیت کے جذبے کے تحت کر رہے ہیں۔ جلسہ کے اختتام پر حافظ محمد سعید نے بارش کے لئے دعا کروائی ۔ اللہ تعالیٰ نے انکی دعا کو قبول کیا ۔ابھی جلسہ گاہ سے لوگ جانے کے لئے نکل ہی رہے تھے تو تیز بارش شروع ہو گئی۔شدید خشک سالی سے متاثرہ صحرائے تھرپارکر کے متعدد علاقوں میں گزشتہ کئی روز سے جاری شدید گرمی کے بعد بارش سے دکھ اور مصائب کا شکار تھری باشندوں کے چہرے خوشی سے دمک اٹھے ،موسم گرما کی پہلی بارش سے بیماریاں کم ہونے اور خشک سالی کا زور بھی ٹوٹنے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں، صحرائے تھر پارکر کے دور دراز علاقوں میں بعض مقامات پر تیز بارش بھی ہوئی جبکہ بعض علاقوں میں ہلکی بارش ہوئی ،امیر جماعة الدعوة کو ہر سال اگست کے مہینے میں تھر میں جا کر بارش کے لئے دعا کروانی چاہئے تاکہ قحط سالی کا سا منظر پیدا نہ ہو۔جماعة الدعوة کے گیارہ سو کنوئوں کی تعمیر پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے۔امدادی سرگرمیاں تو جاری ہی ہیں۔حافظ محمد سعید کی تھر پارکر آمد پر 4000متاثرہ خاندانوں میں 80لاکھ روپے مالیت کا راشن تقسیم کیا گیا۔
بیوگان میں سلائی مشینیں ،جانور تقسیم کئے گئے۔جو کام جماعة الدعوة تھر میں کر رہی ہے حکومت کو سوچنا چاہئے یہ کام تو انکا تھا جو وہاں سے ووٹ لیتے ہیں مگر انہوں نے تو صرف گندم بھی تھر کی عوام تک نہیں پہنچائی۔، قومی رہنما دن رات عوام کے دکھوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ، لیکن وہ وعدے وفا ہوتے ہیں نہ ہی مسائل حل، اگرچہ تھر میں ایک قیامت ہو گزری، لوگوں کے پھول جیسے بچے بچھڑ گئے لیکن اب تو ایسے مستقل اقدامات کئے جائیں کہ آئندہ ایسی ظالمانہ غفلت کا ارتکاب نہ ہو،اس کیلئے ضروری ہے کہ سانحات پر سیاست کے بجائے خدمت کا طریقہ اختیار کیا جائے۔